حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال مجھے یاد نہیں لیکن یہ طے ہے کہ پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا دور تھا۔ مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنما جسٹس (ر) محبوب مرشد مغربی پاکستان کے دورے پر کراچی پہنچے تھے۔ جسٹس (ر) محبوب مرشد غالباً اپنی جماعت جسٹس پارٹی کے سربراہ تھے۔ خالق دینا ہال کراچی میں وہ وکلاء، سماجی و سیاسی کارکنوں اور طلباء مزدور رہنمائوں سے خطاب کررہے تھے۔ حاضرین مشکل سے ڈیڑھ دو سو ہوں گے لیکن جوش و خروش اور نعرہ ایسا لگتا تھا جیسے نصف کراچی خالق دینا ہال کے اندر سماگیا ہے۔
محبوب مرشد کی تقریر کے دوران وقفہ وقفہ سے نعرے لگتے رہے پھر اچانک کسی نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو ایک چوپائے سے ملاتے ہوئے نعرہ بلند کیا۔
درمیانے قد کے بڑے آدمی نے پاٹ دار آواز میں کہا، خاموش ہوکر میری بات سنیں۔ نعرے رک گئے، جسٹس مرشد بولے "ہم جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت اور پاکستان پر مسلط استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں یہ ہمارا اور تمام پاکستانیوں کا حق ہے یاد رکھیں ہماری یہ جدوجہد انسانوں کو جانور قرار دینے دلوانے کے لئے ہرگز نہیں”۔
اس کے بعد صدر ایوب جنرل ایوب مردہ باد کے نعرے تو لگتے رہے لیکن جلسہ کے اختتام تک پھر کسی نے ’’ایوب کتا ہائے ہائے‘‘ کا نعرہ نہیں لگوایا۔
مشرقی پاکستان بعدازاں بنگلہ دش بن گیا جسٹس (ر) محبوب مرشد کا کیا ہوا وہ بنگلہ دیش کی سیاست میں کیا کردار ادا اور حاصل کرپائے مجھے معلوم نہیں ہاں یہ یاد ہے کہ درمیانے قد کے اس بنگالی سیاستدان نے اپنے سامنے بیٹھے ڈیڑھ دو سو لوگوں کو ایک نئی سوچ دی ہم سادہ الفاظ میں اسے شرف آدمیت کی معراج کہہ سکتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اپنے مخالفین پر جملے کستے تھے۔ ہمارے بہت سارے دوست ان جملوں کو گالی قرار دے کر کہتے ہیں بھٹو بدزبان تھے مخالفوں کو گالی دیتے تھے ان سے دریافت کیا جائے کہ کون سی گالی کس مخالف کو بھٹو نے دی تو جواب میں آئیں بائیں شائیں۔
حد یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ایک سابق سپیکر مرحوم صاحبزادہ فاروق علی خان سمیت متعدد شخصیات نے اپنی کتابوں (سوانح عمریوں) میں بنگالیوں اور محترمہ فاطمہ جناح کے لئے ایوب خان کے جو زریں کلمات لکھے سیاسی ہجرتوں کے نجیب الطرفین مریض یہ کلمات بھٹو سے منسوب کرکے حظ اٹھاتے ہیں ۔
حالانکہ بھٹو کے مخالفین وہ دین دار تھے یا دنیادار یا پھر صحافی انہوں نے بھٹو کو ہر وہ گالی دی جو اس وقت بازار میں دستیاب تھی۔
یہی نہیں انہوں نے بھٹو کو گھاسی رام لکھا۔ ماں کو ہندو قرار دیا۔ ان کی اہلیہ کو کلب ڈانسر تک قرار دیا ان مخالفین نے جب قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی وہی تحریک جو انتخابی بے ضابطگیوں کے الزام سے شروع ہوئی اور پھر تحریک نظام مصطفی میں بدل گئی اور تحریک کے جلسوں جلوسوں میں سڑک چھاپ لونڈوں سے قدآور لیڈر تک ایک سے بڑھ کر ایک بدزبانی کا مظاہرہ کرتا اور دادپاتا تھا ۔
قومی اتحاد کے جلوسوں اور جلسوں میں لگنے والے سوقیانہ نعروں کے جواب میں جب پیپلزپارٹی والوں نے راولپنڈی، لاہور، ملتان اور کراچی میں جوابی طور پر قومی اتحاد کے 9ستاروں کی "تفسیر” بیان کی تو اسی اتحاد کے ایک رہنما علامہ شاہ احمد نورانی نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ٹیلیفون پر شکوہ کرتے ہوئے 9ستاروں کی تفسیر پر افسوس کا اظہار کیا۔
بھٹو نے ملک غلام مصطفیٰ کھر، غلام مصطفی جتوئی، سید ناصر علی رضوی اور دیگر رہنمائوں کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ ورکروں سے کہیں مخالفانہ نعروں میں کسی کو مان بہن کی گالی نہ دیں اور نہ ہی کسی کو دلال کہیں۔
خان عبدالولی خان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر بھٹو دور میں پابندی لگی اور ان کے خلاف حیدر آباد سازش کیس بنا۔ ولی خان اور ان کے دیگر ساتھی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد حیدر آباد جیل سے رہا ہوئے۔ رہائی کے بعد خان عبدالولی خان نے ہی پہلے احتساب پھر انتخابات کی بات کی تھی بھٹو سے ان کی ناراضگی کسی سے ڈھپی چھپی نہیں تھی مگر اُس وقت کے ضلع ملتان کی تحصیل کبیروالا میں مخدوم پور پہوڑاں روڈ پر واقع ایک احاطہ میں این ڈی پی کے زیراہتمام منعقدہ جلسہ کے دوران جب ایک جذباتی شخص نے بھٹو کے بارے نازیبا نعرہ لگوایا تو خان عبدالولی خان غصہ سے اپنی کرسی سے اٹھے اور مائیک سنبھال کر سختی سے ڈانٹتے ہوئے کہا ’’اگر اس طرح کے گھٹیا نعرے لگانے ہیں تو میں یہاں سے چلا جاتا ہوں‘‘۔
جنرل ضیاء الحق کے اسلامی مارشل لاء کے دوران ہمارے رجعت پسند صحافیوں کے اخبارات و جرائد نے بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کے خلاف غلاظت پھیلانے کے سارے ریکارڈ توڑڈالے۔ آئی ایس آئی اور سول ملٹری بیوروکریسی کی سرپرستی میں قائم ہونے والے اسلامی جمہوری اتحاد کے حسین حقانی کی سربراہی میں قائم میڈیا سیل نے اخلاق باختگی کے عالمی ریکارڈ قائم کئے۔
لاہور سے آئی جے آئی کے ہی ایک امیدوار قومی اسمبلی حافظ سلمان بٹ نے ٹیکسالی دروازے کے قریب علی پارک میں انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بازار حسن والوں کو مخاطب کرکے کہا ’’دو کوٹھے خالی کردو الیکشن کے بعد ان میں ماں بیٹی کو بٹھانا ہے‘‘۔
اسی حافظ سلمان بٹ کو شریف برادران نے عشائیہ دیا اور اس کی پیٹھ تھپکی۔
شیخ رشید نے قومی اسمبلی کے ایوان میں محترمہ بینظیر بھٹو کے لئے جو الفاظ استعمال وہ کسے یاد نہیں۔ ان ساری لڑائیوں، بدزبانیوں، دشنام طرازیوں، کردار کشیوں وغیرہ سے سیاسی جماعتوں نے سبق سیکھا اور میثاق جمہوریت کرلیا۔
پھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایک نیا لشکر تیار کروایا۔ پرویز مشرف کے دور سے منظم کئے گئے اس لشکر کا کام صرف سیاستدانوں کو گالی دینا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا آیا تو ایسے ایسے جماندروں تجزیہ نگار جہیز میں لے کر آیا جو ہر شام سیاسی پروگراموں کے نام پر سیاپا کرواتے اور ثابت کرکے سوتے کہ سیاستدان چور لٹیرے ملک دشمن ہیں فوج نہ ہوتی تو یہ ملک کو بیچ کر کھاگئے ہوتے۔
عمران خان کی تحریک انصاف کو گود لینے کا فیصلہ اسی لئے کیا گیا کہ مسلم لیگ کی قیادت نے گو چند امور پر فوج کی ہمنوائی کی لیکن وہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو گرانے میں معاونت کرنے پر تیار نہ ہوئی۔
آپ پچھلے چار برسوں اور خصوصاً اکتوبر 2011ء کے بعد سے تحریک انصاف کے سربراہ اور اس کے متاثرین کے ساتھ ٹیلیفون کالز پر پی ٹی آئی میں بھرتی کئے جانے والوں کی زبان و بیان، سوشل میڈیا ٹرینڈز او دوسرے معاملات کا بغور جائزہ لیجئے انصافیوں نے اپنے مخالفین کو کون سی گالی ہے جو نہیں دی اس پر اگر اعتراض ہوا تو جواب ملا شریفوں نے بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا کیا۔
2018ء کے عام انتخابات کے دوران آئی ایس پی آر کے ’’زندہ کردار‘‘ کو یاد کیجئے، خود عمران خان مخالفین کا تمسخر اڑانے اور گھٹیا جملے اچھالنے میں ثانی نہیں رکھتے اپنے رویوں دشنام طرازی اور الزامات کی چاند ماری سے انہوں نے ہر شخص کو ناراض کیا۔ آج وہ جس سیاسی تنہائی کا شکار ہیں یہ خود ان کی اپنی پیدا کردہ کردہ ہے۔
سیاست و صحافت کے ہم ایسے طلباء مسلسل ان سطور میں عرض کرتے رہے کہ یہ انتہا پسندانہ طرز عمل درست نہیں اس سے جو نفرتیں پیدا ہورہی ہیں وہ ایک دن گلے پڑجائیں گی تب کچھ صحافی دوست کھانے کو آتے تھے ان کا دعویٰ تھا کہ یہ بدزبانی تو آزادی اظہار ہے۔
آج وہ روتے ہوئے کہہ رہے ہیں سناٹا ہے کوئی بولتا ی نہیں۔ آزادی اظہار کا حق پامال ہورہا ہے۔ انسانی حقوق روندے جارہے ہیں۔ ماضی میں جب ان مجاہدین کو بلوچستان، سندھ اور پختونخوا کی صورتحال اور مسائل پر متوجہ کیا جاتا تھا تو کہتے تھے جن لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے انہوں نے کوئی جرم تو کیا ہی ہوگا
یہی دوست اب سرپیٹ رہے ہیں۔
جی چاہتا ہے کہ ان سے ان کی کہی بات ہی کہہ دی جائے کہ ’’جو اٹھائے جارہے ہیں انہوں نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہی ہوگا‘‘۔
مروتاً کہہ نہیں پاتا۔ وجہ یہی ہے جو کام کل غلط تھے آج بھی غلط ہیں۔
البتہ یہ حقیقت ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے عمران خان کو اپنے طرز عمل اور ماضی کی دشنام طرازی پر معذرت کرنا ہوگی ویسے بھی اب ان پر بھی ماضی کے چوروں جیسے بلکہ اس سے بھی چند سنگین الزامات ہیں یعنی اب وہی بھی "حاجی ثناء اللہ ” ہی ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر