دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کس کے روکے رُکے ہے اجل۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند دن کی غیرحاضریوں کا احوال بس اتنا ہے، اپنی امڑی سینڑ (والدہ محترمہ) کے شہر ملتان میں مقیم رہا۔ برادر عزیز سید طاہر محمود بخاری رخصت ہوئے۔ موت ایک حقیقت ہے۔ سبھی کو رخصت ہونا ہے۔

گزشتہ سے پیوستہ روز طاہر گئے۔ اجل ایک پیغام رخصت لئے کب آن موجود ہو کون جانے کوئی نہیں ہم بھی نہیں۔ آدمی کی مٹھیوں سے سانس ریت کی طرح پھسلتے رہتے ہیں۔ سامان سو برس کا اور پل کی خبر نہیں۔ زندگی یہی ہے کہ اس کے اختتام کی دستک آدمی کو سنائی نہیں دیتی۔

رخصت ہونے والے کے پیچھے رہ جانے والوں کے دکھ ان کی رخصتی تک ساتھ رہتے ہیں۔

وقت رخصت اس کے ساتھ موجود اس کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی منعقد کردہ قوالی کی ایک محفل میں دھمال ڈالتے ہوئے گرا پھر اٹھ نہیں پایا بس چند ساعتوں کے لئے ہوش میں آیا تو فقط اتنا کہا

’’میں لاوارث نہیں ہوں مجھے میرے بہن بھائیوں کے سپرد کر آنا ملتان لے جاکر۔ لیجئے بہن بھائیوں کے سپرد ہوا اور امڑی سینڑ کے پہلو میں مٹی کی چادر اوڑھ کے سوگیا”

تعزیتیں ہیں، فاتحہ خوانی، صبر کی دعائیں۔

وسیب کے دوردراز کے علاقوں سے غم بٹانے کے لئے سفر کی زحمت اٹھاکر تشریف لانے والے دوست و احباب کے لئے ہمارا خاندان سپاس گزار ہے۔

زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ زندہ لوگ ایک دوسرے کا غم بٹاتے ہیں۔ گو اس درد کی دوا کوئی نہیں پھر بھی ہمدردی کے دو بول مرہم بنتے ہیں۔

مرحوم سید طاہر محمود بخاری کا سفر حیات ابھی نصف صدی تک کے قریب تھا مگر اجل کو کب جوان پیرو سے مطلب ہوا اسے وقت مقررہ پر سانسوں کی ڈور کاٹنی ہے یہی امر ربی ہے یا تخلیق کے بھرم کو قائم رکھنے کا سامان جو ختم ہو تو سانس لیتا آدمی جسد خاکی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

پچھلے چند دنوں کے دوران ایک سے زائد بار دل و دماغ میں ایک آواز گونجتی ہوئی سنائی دی۔ ’’یار جانے کے دن ہمارے تھے تم کیوں چلے گئے‘‘۔

یہ سطور لکھتے وقت ذہن بالکل مائوف ہے ابھی چند دن لگیں گے اس صدمے سے باہر آنے میں۔ میں ایک ہی وقت میں خوش قسمت بھی ہوں اور بدقسمت بھی۔

بدقسمتی یہ ہے کہ بہت زیادہ ماہ و سال اپنے بہن بھائیوں کے درمیان امڑی سینڑ کے آنگن میں کھیل کود پایا نہ لاڈ اٹھواپایا۔ غم روزگار وہ دن بھی کھا گیا جو بچپنے کے ہوتے ہیں۔ جوانی بھی مشقت کرتے بیتی اس دوران چند سال قیدوبند کی صعوبتیں بھی سہیں۔

خوش قسمتی یہ ہے کہ میں اب اپنے چھوٹے بڑے بہن بھائیوں کا لاڈلا ہوں شاید وہ بھی دوریوں میں بسر ہوئے میرے ماہ و سال کے حصے کی مبحتیں مجھ پر نچھاور کرکے حق ادا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے بہن بھائیوں کی طرح عزیم طاہر بھی جب ملا پرجوش محبتیں نچھاور کرتا ہوا ملا ۔ بھائی کے چھوٹے چھوٹے کام بھاگ بھاگ کر کرتا ہوا۔

گزشتہ دو دہائیوں سے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر مختلف کام کرتا رہتا تھا۔ کبھی زمین مستاجری پر لی کبھی کوئی اور کام کیا۔ چند برسوں سے عارضہ قلب میں بھی مبتلا تھا۔ یہ بیماری دل ہماری خاندانی بیماری ہے۔

بابا جان اور امڑی سینڑ کو بھی لاحق تھی۔ اب چند بہن بھائی بھی (مجھ سمیت) اس بیماری کا بوجھ اٹھائے جی رہے ہیں۔

طاہر کے دوست سنگی کہتے ہیں گزشتہ سوموار کی سپہر سے کچھ وقت بعد اس نے اچانک قوالی پروگرام کا اعلان کیا۔ ہم نے کہا شاہ جی قوال تو بلائے نہیں؟

ہنستے ہوئے بولا آج ڈیک پر قوالیاں سنیں گے۔ اپنی منعقدہ کردہ شب قوالی کی محفل میں ہی دھمال ڈالتے ہوئے برادر عزیز سید طاہر کی روح پرواز کرگئی۔ لاریب موت کسی بھی ہم نفس کی ہو صدمہ پہنچاتی ہے یہ تو برادر عزیز کا سانحہ ارتحال ہے۔

ہم کئی کئی برسوں بعد ملتے تھے امڑی جائیوں کے گھروں پر منعقدہ کسی تقریب میں۔ والدہ محترمہ کی برسی کے وعظ کے موقع پر یا اتفاقاً۔ اس بار بھی غالباً سال بھر قبل ملتان میں ایک ہمشیرہ کے گھر اس سے آخری ملاقات ہوئی تھی تب مجھے پتہ چلا کہ طاہر عارضہ قلب میں مبتلا ہے۔

خود میں بھی یہی بیماری پندرہ سولہ سال سے بھگت رہا ہوں اس لئے میں نے اس کے سامنے ہدایات کا دفتر کھول لیا۔ ہدایت نامہ ختم ہوا تو کہنے لگا بھائی جی بندہ اپنی آئی (وقت مقررہ) پر ہی رخصت ہوتا ہے پریشان نہ ہوں اللہ خیر کرے گا۔

ایک دو بار فون پر بات ہوئی تو اس کی صحت بارے دریافت کیا اس نے ہنستے ہوئے کہا وقت آئے گا تو سب ختم، فکر کی کیا ضرورت ہے۔

وقت آگیا، اجل نے آن لیا، بھائی رخصت ہوا اب امڑی سینڑ کے پہلو میں اس کی تربت ہے۔ اس دنیا سرائے میں مستقبل کسے رہنا ہے۔

’’ دم مقرر‘‘ ہے جو دم آیا ہے یہی سچ ہے دم آئے نہ آئے کس کو خبر ہے۔ ہم دم آخر کی لذت سے کہاں شناسا ہوں گے کہاں کی مٹی نصیب ہوئی کیا پتہ ہے۔

14بہن بھائی تھے ہم ایک بہن بچپن میں رخصت ہوئیں۔ اڑھائی تین عشرے قبل ایک بھائی اور اب ایک اور بھائی۔ رہ گئے گیارہ بہن بھائی جو کبھی کبھی ملتے ہیں۔ ہم میں سے جو امڑی سینڑ کے شہر میں مقیم ہیں وہ خوش قسمت ہیں جب دل چاہا ایک دوسرے سے مل لئے جب جی کیا والدین کی قبروں کی زیارت کی، فاتحہ پڑھی،

حسرت ہی رہی ہماری کہ امڑی سینڑ کے شہر میں مستقل قیام کا سامان ہوجائے۔ وائے غربتا کہ حصول رزق نے ہجرت کو لازم رکھا۔ ہم ملتانیوں کےلئے تو حرم دروازے سے دہلی دروازہ تک کا سفر بھی پردیس جانے جیسا ہوتا ہے کہاں یہ سینکڑوں کلومیٹر کی دوریاں امڑی کے شہر سے۔

وقت کی تیزرفتاری اور ترقی بہت ہے پھر بھی پلک جھپکتے ملتان نہیں پہنچا جاسکتا حالانکہ یہ چند گھنٹوں کی مسافت تو ہے۔ یہ مسافت معمول کا حصہ ہو خوشی کی کسی تقریب کا یا دوستوں سے میل ملاقات اور امڑی سینڑ کی تربت کو بوسہ دینے کے لئے کسی نہ کسی طرح طے ہوجاتی ہے۔

مگر ایک غمناک خبر جو صدمے کو بوجھ بنادے کا بار اٹھائے مسافت کیسے ہوتی ہے یہ وہی جانتا ہے جس پر بیت رہی ہو۔ جوان بھائی کے سانحہ ارتحال کا صدمہ ہے رزق اور رشتوں کی ذمہ داریوں سے بندھا پچھلی شب کے پہلے حصہ میں واپس لوٹ آیا ہوں

امڑی سینڑ کے شہر میں چند دن اور رہنے کو بہت جی چاہا ملتان سے رخصت ہونے سے قبل امڑی سینڑ کی تربت پر حسب سابق حاضری دی۔ ان سے بہت ساری باتیں کرنے کو جی چاہتا تھا مگر ان کی تربت کے پہلو میں بھائی کی تازہ تربت نے لب سی دیئے چاہتے ہوئے بھی کچھ عرض نہ کرسکا سوائے بھائی کے سانحہ ارتحال پر تعزیت پیش کرنے کے۔

اپنے بہن بھائیوں سے مثالی محبت اور تعلق کا دعویٰ کبھی نہیں کیا ہاں یہ ضرور ہے کہ سفر حیات کا بڑا حصہ بہن بھائیوں کے بغیر طے اور بسر ہوا لیکن اس سارے عرصہ میں ان کی محبت اور رشتے کا احساس کبھی دم نہیں توڑ پایا۔

رشتوں سے بندھا آدمی زندگی کے حسن اور نعمتوں کو محسوس کرتا ہے۔ اکلاپا تو آدمی کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔

حق تعالیٰ مغفرت کرے اور درجات بلند کرے برادر عزیز کے۔ اس کا سفر حیات بس اتنا ہی تھا۔ ہمارا کب تمام ہو اور اجل آن لے، سانس مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہے ہیں، پتہ نہیں کب مٹھی خالی ہوجائے۔

صد شکر کہ اب تک کے سفر حیات کا کوئی ملال دامن گیر نہیں ہے۔ محنت مزدوری کرتے پڑھتے مکالمہ کرتے عصری شعور کی رہنمائی میں یہاں تک آن پہنچے ہیں۔

اگلے دن برادر عزیز سید سہیل عابدی تعزیت کے لئے تشریف لائے تو کہنے لگے حیدر بھائی صبر اور حوصلہ سے کام لیں ہم اور آپ تو بس اب بونس پر جی رہے ہیں۔

تب سے سوچ رہا ہوں 65برسوں کے سفر حیات کا بونس کتنا ہوگا سال بھر کے ایک یا دو ماہ کی تنخواہوں کے مساوی ہوا تو کتنا ہوگا؟

یہ بھی کیا ضروری ہے کہ اگلے سارے سانس بونس کے ہوں جو لے رہے ہیں یہ بھی تو بونس کا حصہ ہی ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author