نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چولستان کے آثار اس کی قدامت کی گواہی۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں
سرائیکی رہنما ظہور دھریجہ ، پروفیسر ڈاکٹر جاوید چانڈیو کا چولستان سرائیکی ادبی کانفرنس سے خطاب

ترتیب و اہتمام : طاہر دھریجہ
چولستان بلاشبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ تاریخی کتابوں حتیٰ کہ بر صغیر کی قدیم کتاب ’’ رگ وید ‘‘ میں بھی چولستان کے دریاؤں کا ذکر موجود ہے ۔ آج کا یہ صحرا پہلے دریا تھا اور موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے درمیان وادی ہاکڑہ کی شکل میں یہ خطہ ہنستے بستے شہروں اور لہلہاتے کھیتوں پر مشتمل تھا ۔ معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل نے اپنی تحقیقات میں چولستان میں 13سو شہروں اور بستیوں کی نشاندہی کی مگر افسوس کہ چولستان پر کسی نے توجہ نہ دی ،آج چولستان مسائل میں گھر چکا ہے۔ چولستان کی تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے معروف سرائیکی دانشور و ممتاز صحافی سئیں ظہور احمد دھریجہ نے ہمیشہ ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے، چولستان میں پانی کا مسئلہ ہو یا ناجائز الاٹمنٹ سئیں ظہور احمد دھریجہ چولستانیوں کے حقوق کیلئے صف اول میں کھڑے نظر آئے، قلم کی جنگ کے ساتھ ساتھ دھریجہ صاحب نے چولستان بارے کئی سیمینارز ، کانفرنسیں اور پروگراموں کا اہتمام کیا۔ سئیں ظہور احمد دھریجہ کی زندگی سرائیکی وسیب کے حقوق کی جدوجہد سے بھری پڑی ہے ،کوئی دن خالی نہیں ہوتا جب وہ وسیب کے مسائل بارے کسی پروگرام کا اہتمام نہ کرتے ہوں۔ گزشتہ روز آرٹس کونسل بہاولپور میں چولستان سرائیکی ادبی کانفرنس کے کامیاب انعقاد کا سہرا بھی دھریجہ صاحب کے سر جاتا ہے جنہوں نے اس کانفرنس کے لئے دن رات ایک کر کے کامیاب بنایا ہے۔
سرائیکستان قومی کونسل پاکستان ، سرائیکی شعراء حقوق کونسل کے زیر اہتمام ہونے والی چولستان سرائیکی ادبی کانفرنس کی صدارت سئیں ظہور دھریجہ نے کی ، تقریب کے منتظم سرائیکی شاعر دیوانہ بلوچ ، انور مغل جبکہ سٹیج سیکرٹری ریحانہ فلک تھیں۔ کانفرنس سے اسلامیہ یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر ڈاکٹر جاوید چانڈیو، پاکستان سرائیکی پارٹی کے صدر ملک اللہ نواز وینس، سابق وفاقی سیکرٹری حسین احمد مدنی ، پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد، معروف سرائیکی شاعر جہانگیر مخلص ،ڈائریکٹر بہاولپور آرٹس کونسل سجاد حسین ، اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان بہاولپور سجاد بری، ڈائریکٹر میڈیا افیئر اسلامیہ یونیورسٹی شہزاد خالد، پروفیسر عصمت اللہ شاہ ، پروفیسر اطہر لاشاری ، صاحبزادہ میاں عبدالمجید عباسی ، پروگرام آفیسر بہاولپور آرٹس کونسل ملک ذکاء اللہ ، اعجاز بلوچ، چوہدری شہباز مڑل ، رائے محمد شریف، ملک جاوید چنڑ، ناصر اعوان ، پروفیسر شمائلہ منظور، رائے غلام نبی و دیگر نے خطاب کیا۔ چیئرمین سرائئیکستان قومی کونسل ظہور احمد دھریجہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نئے اضلاع قائم کر کے چولستان کو الگ ڈویژن کا درجہ دیا جائے، قومی و صوبائی اسمبلی کے نئے حلقے بنائے جائیں ، چولستان کے قدیم باشندوں کو انسانی حقوق اور بنیادی سہولتیں میسر کرنے کے ساتھ چولستان کی تمام زمینیں مقامی باشندوں کو الاٹ کی جائیں ۔ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی چولستان کے استحصال اور چولستان کی بربادی کا بڑا سبب ہے، اسے ختم ہونا چاہئے۔چولستان میں بوگس مردم شماری ہوئی ہے اسے منسوخ کیا جائے۔ چولستان کے آثار کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ چولستان متاثرین کو بھی لاہور اسلام آباد میں رقبے الاٹ ہونے چاہئیں کہ منگلہ ڈیم ، تربیلا ڈیم اور اوکاڑہ چھاونی ، پٹ فیڈر نہر اور سندھ متاثرین کے چکوک چولستان میں آباد کرائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چولستان کو صرف لوٹ مار کا مرکز نہ بنایا جائے بلکہ چولستانیوں کو بھی انسان سمجھتے ہوئے ان کے حقوق دئیے جائیں۔
سرائیکستان قومی کونسل کے چیئرمین ظہور دھریجہ نے کہا کہ چولستان پیاس اور افلاس کا صحرا ہے، چولستان کا وسیع بارڈر دشمن ملک بھارت کے ساتھ لگتا ہے، چولستان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ یہ حساس معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی کانفرنس چولستان کی تہذیب و ثقافت ، چولستان کے آثار اور چولستان کے مسائل کی طرف توجہ مبذول کرانے کیلئے منعقد کی گئی ہے۔ انہوںنے کہا کہ اقتدار پرست سیاستدان اقتدار کی لڑائی لڑ رہے ہیں ان کی پسماندہ علاقوں کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے، آج اکیسویں صدی میں بھی چولستان میں لوگ پیاس سے مر جاتے ہیں، وزیراعظم نے کراچی میں پانی کی فراہمی کا حکم جاری کیا ہے کیا چولستان میں انسان نہیں بستے؟ کیا چولستان پاکستان کے جغرافیہ میں شامل نہیں؟انہوں نے کہا کہ چولستان کی نہروں میں پانی چوری ختم کر کے مقامی لوگوں کو پانی فراہم کیا جائے۔ ظہور دھریجہ نے کہا کہ دریائے ستلج کی فروختگی کے بعد ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے، سو سال آگے کی سوچ رکھنا چاہئے ، ایک کمیشن تشکیل قائم ہونا چاہئے جو اس بات کا موازنہ کرے کہ ملحقہ صحرا راجستھان اور چولستان میں سہولتوں کا کتنا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب شیوخ سمیت تمام ناجائز الاٹمنٹیں ختم ہونی چاہئیں ، طارق چیمہ اور دیگر تمام لینڈ مافیاز کی غنڈہ گردی ختم کی جائے ۔
ظہور دھریجہ نے کہا کہ پانی کی قلت کے باعث چولستان میں موت رقص کرتی ہے، چولستان کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں جانور پیاس سے مر جاتے ہیں، جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانی جانیں بھی چلی جاتی ہیں ،چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی ، مقامی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کیساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی خاموشی قابل افسوس ہونے کے ساتھ قابل مذمت بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چولستان دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے ،چولستان کی ریت میں بہت راز ہیں ، چولستان کے لوگ بہت سادہ اور دلنواز ہیں ، وہ اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور وسیب سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کی کوئی بھی سہولت نہ ہونے کے باوجود بھی وہ صدیوں سے چولستان سے وابستہ ہیں اور وہ ایک پل کیلئے بھی اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ۔ ظہور دھریجہ نے کہا کہ چولستان پاکستان کابڑا صحرا ہے، امن اور محبت کی سرزمین ہے، خواجہ فرید نے اس سے بہت محبت کی ہے، خواجہ فرید نے چولستان کے انسانوں کیساتھ چولستان کے جانوروںاور پرندوں کو بھی دعائیں دی ہیں، خواجہ فرید کی شاعری ان دعاوں سے بھری ہوئی ہے۔ چولستان میں پرندے پناہ کیلئے آتے ہیں مگر شکاری ان کو قتل کر دیتے ہیں،عرب شیوخ نے چولستان کو شکار گاہ بنا دیا ہے، آج چولستان میں پانی کی قلت ہے، انسان اور حیوان مر رہے ہیں، چولستان کے پرندے، تلور، باز، مرغابی، اونٹ کو مارنے کیلئے تو وہ آجاتے ہیں انسانی زندگی کیلئے اُن کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید چانڈیونے کہا کہ جس طرح چولستان کی تاریخی ثقافتی اور تہذیبی حیثیت ہے اسی طرح آج کی چولستان کانفرنس خطے کی نئی تاریخ رقم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے شرکت کرنا تھی مگر ان کو لاہور جاناپڑا لہٰذا میں ان کی طرف سے خوشخبری دے رہا ہوں کہ اسلامیہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ نے چولستان سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کے قیام کی منظوری دیدی ہے جس سے چولستان پر تحقیق اور ریسرچ کا دائرہ مزید وسیع ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں مبارکباد دیتا ہوں کہ ظہور دھریجہ صاحب نے اس خطے کیلئے پوری زندگی وقف کر دی ہے، بذات خود دھریجہ نگر ایک سرائیکی جہان کا نام ہے، چولستان کے حوالے سے اہم ترین کانفرنس کا انعقاد انہی کا کریڈٹ ہے۔ ڈاکٹر جاوید چانڈیو نے چولستان کی تاریخی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ چولستان ایک ایسے گمشدہ جہان کا نام ہے جسے ایک بار پھر سے دیکھنے اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ آج یہ بھی انقلاب ہے کہ بہاولپور آرٹس کونسل میں چولستان اور سرائیکی وسیب کے مسائل پر کھل کر بات ہو رہی ہے، سرائیکی صوبے کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے، ایک وقت یہ تھا کہ سرائیکی کا نام لینا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ1970ء کی دہائی میں کراچی میں سرائیکی کانفرنسیں ہوتی تھیں اور دھریجہ نگر کے عظیم رائٹر غلام یٰسین فخری نے کراچی سے سرائیکی رسالہ سچار شائع کیا تو ان کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا، اس وقت ان کیخلاف طرح طرح کی باتیں ہوئیں ، اس قدر انتقامی کارروائیاں کی گئیں کہ انہیں کراچی ہی چھوڑنا پڑا۔ ڈاکٹر جاوید حسن چانڈیو نے کہا کہ سرائیکی حوالے سے تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت ہے، وادی ہاکڑہ قدیم اور عظیم تہذیب کا نام ہے، دریائے ہاکڑہ نے صدیوں پہلے اس خطے سے منہ موڑا مگر صدیاں گزرنے کے بعد چولستان میں رہنے والا ہر شخص نسل در نسل ایک آس پر زندگی گزار رہے ہیںکہ ’’ ہاکڑہ ول واہسی ‘‘ یعنی دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر بہے گا اور ہم صحرا سے دریا میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ ڈاکٹر جاوید حسن چانڈیو نے اسلامی یونیورسٹی کی بات کرتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے آنے کے بعد یونیورسٹی میں نئی دنیا آباد ہوئی ہے اور خطے کی تعلیمی قسمت تبدیل ہو رہی ہے، نیا جہان پیدا ہو رہا ہے اس کا سارا کریڈٹ اور سہرا ڈاکٹر اطہر محبوب کے سر جاتا ہے ۔
ملک اللہ نواز وینس نے کہا کہ صرف چولستان ہی نہیں پورے وسیب کو بیگار کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا ہے، چولستان کی تباہی میں بیورو کریسی کا بڑا ہاتھ ہے، چولستان سمیت پورے وسیب کے مسئلے اس وقت حل ہوں گے جب صوبہ سرائیکستان بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی وسیب میں کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، پولیس حکام تمام محکموں کے سربراہان باہر سے آتے ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز کے اداروں کے ساتھ ساتھ ، عدلیہ اور انتظامیہ میں وسیب کی نمائندگی آٹے میں نمک برابر بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ چولستان کو برباد کرنے میں بہاولپور کے نوابوں ، مخدوموں ، گدی نشینوں اور وڈیروں کا پورا پورا ہاتھ ہے، ان کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ چولستان کے ریسرچ سکالر پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد نے کہا کہ میں چولستان پر ایک عرصہ سے تحقیق کر رہا ہوں ، چولستان کے نمبرداروں کا صدر بھی ہوں ، آج کی کانفرنس میں چولستان سے شخصیات آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے مسائل بھی بیان کئے ہیں لیکن میں تمام مسائل کا چشم دید گواہ ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ سابق ریاست بہاولپور کے دو حصے صحرائے چولستان اور ایک حصہ دریائی علاقے پر مشتمل ہے، چولستان کا کم و بیش چھیاسٹھ لاکھ ایکڑ رقبے پر لینڈ مافیاز کی نظریں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1976ء میں چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی چولستانیوں کے مسائل کے حل اور ان کو سہولتیں مہیا کرنے کے لئے قائم کی گئی مگر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی لینڈ مافیاز کی سہولت کاری اور چولستانیوں کے استحصال کا ذریعہ بنی اور مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بگڑ گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت میری چار رٹ پٹیشن ہائیکورٹ اور ایک سپریم کورٹ میں دائر ہیں ، میں نے چولستان پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں ، چولستانیوں کی تین نسلیں ختم ہو چکی ہیں ، قیام پاکستان کے بعد چولستانیوں سے ان کے زندہ رہنے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے، چولستان کو شکار گاہ بنا دیا گیا ہے، کچھ زمینیں حکمرانوں نے بھاری رشوت کے عوض ابو ظہبی والوں کو دے رکھی ہیں اور کچھ دیگر عرب شیوخ کو ، سب نے اپنے اپنے علاقوں کو نو گو ایریاز بنا دیا ہے، ان کے علاقوں میں بھولے سے کوئی جانور تو کیا انسان بھی چلا جائے تو مار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدم قدم پر ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے ، پانچ سو کلومیٹر طویل پٹی ضلع بہاولنگر ، بہاولپور اور رحیم یار خان کے ساتھ ساتھ انڈیا کے بارڈر کے ساتھ چلتی ہے، حکمرانوں کو چولستان کی حساس نوعیت کا کوئی احساس نہیں ہے، آج کی چولستان کانفرنس سے بہت سی باتیں سننے اور بتانے کا موقع ملا ہے۔ میں بہت مایوس ہو جاتا ہوں مگر جب ظہور دھریجہ صاحب جیسے انسانوں کو دیکھتا ہوں تو پھر میری سانسیں ایک بار پھر چل پڑتی ہیں اور میں ایک بار پھر زندہ ہو جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بہاولپور میں چولستان کے نام پر بہت تنظیمیں قائم ہیں مگر عملی تجاویز کبھی سامنے نہیں آئیں، سبھی خانہ پری کر کے چلے جاتے ہیں ۔ آج چولستان کا نیا بیانیہ سامنے آ رہا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ اب بات آگے بڑھے گی۔
سابق وفاقی سیکرٹری حسین احمد مدنی نے کہا کہ میں ایوان اقتدار میں رہا ہوں مجھے تمام حقیقتوں کا علم ہے کہ کہاں کہاں استحصال ہو رہا ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر موقع پر چولستان کے حقوق کے لئے آواز بلند کی ہے ، اب بھی پیچھے نہیں رہیں گے ، صاحبزادہ میاں عبدالمجید عباسی نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت ہمارے بزرگوں نے اپنا آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کو دیدیا، اس کے ساتھ ، پاکستان کے ملازمین کی پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے سات کروڑ روپے دئیے، پاکستان کی کرنسی کی ضمانت دی ، سونا اور چاندی اور کھربوں کے وسائل دئیے مگر افسوس کہ آج ان تمام احسانات کو بھلا دیا گیا ہے جن لوگوں نے پاکستان کو ایک ٹکہ نہیں دیا وہ پاکستان کے ’’مامے ‘‘بن گئے ہیں ،جن لوگوں کو سرائیکیوں نے پناہ دی آج وہ بھی آنکھیں دکھاتے ہیں ۔ صاحبزادہ عبدالمجید عباسی نے کہا کہ تاریخ کو ہی الٹ دیا گیا ہے، جن پر احسان کئے گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں محسن مانو، انہوں نے کہا کہ نہرو نے نواب آف بہاولپور کو الحاق کی بہت پیشکشیں کی تھیں ، ہندوستان کا گورنر جنرل بنانے تک کی پیشکش بھی ہوئی اور یہ بھی کہا تھا کہ دریا بھارت سے آتے ہیں آپ بھارت سے الحاق کریں آپ کا چولستان بھی سرسبز و شاداب ہو جائے گا مگر نواب صاحب نے کہا کہ میں مسلمان ہوں میرا دروازہ پاکستان کی طرف کھلتا ہے۔ آج میں پوچھتا ہوں کہ ریاست بہاولپور کو کیا صلہ ملا؟۔ انہوں نے کہا کہ استحصال ہمیشہ جغرافیے تبدیل کرنے کا باعث بنتا ہے، آج میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ میں چولستان کے حقوق کا جھنڈا اٹھائوں گا ، سابق ریاست بہاولپور کے حقوق کا جھنڈا اٹھائوں گا، سرائیکستان کا جھنڈا اٹھائوں گا اور میں صوبہ سرائیکستان کا سفیر بنوں گاکہ ہماری سرائیکی قوم کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے اب ہم خاموش نہیں رہیں گے ۔
معروف سرائیکی شاعر جہانگیر مخلص اور سجاد بری نے چولستان کے متعلق بہترین نظمیں پیش کر کے محفل لوٹ لی۔ پروفیسر عصمت اللہ شاہ نے خواجہ فرید اور چولستان کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ فرید نے چولستان کو امن کی سرزمین بنا دیا ہے، سجاد حسین خان نے کہا کہ صحرا چولستان ہزاروں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے ، ہزاروں سال پہلے یہ دریاؤں کا علاقہ تھا۔ پروفیسر اطہر لاشاری نے کہا کہ پائپ لائنوں کے ذریعے ٹوبوں میں پانی بھیجا جائے اور بلا تاخیر چولستان کی نہریں چلا دی جائیں تاکہ انسان اور جانور اپنی پیاس بجھا سکیں۔ملک جاوید چنڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ چولستان کے حسن کو برباد کرنے کیلئے اور وہاں کے پرندوں اور جانوروں کو قتل کرنے کیلئے لائسنس اور پرمٹ دیئے گئے ،چولستان کی بہتری اور ترقی کیلئے کوئی بھی قدم نہ اٹھایا گیا ، پاکستان کے حصے میں چولستان ہے اور اس سے ملحقہ صحرا راجستھان ہے جو بھارت کے پاس ہے ، بھارت نے راجستھان میں ایک بہت بڑی اندرا گاندھی نہر نکال کر اسے سر سبز اور شاداب بنا دیا ہے ، چولستان میں آج بھی لوگ پیاس سے مر جاتے ہیں ۔ چوہدری شہباز مڑل نے کہا کہ چولستان میں اموات بارے بھی حکومت کو اعداد و شمار اکٹھے کرنے چاہئیں۔ کانفرنس میں معروف سرائیکی شعراء شعراء شاہد عالم شاہد، اجمل خاموش، امرت جوگی ، عبدالرزاق زاہد، منور سرائیکی ، وزیر کچالہ ، جاوید شانی ، شباب بلوچ، ہوشو شیدی ، دلشاد بلوچ نور پوری ، شکیل انجم ، یٰسین وینس، زبیر احمد زبیر، سوجھل بخاری ، اشنا جلال پوری نے اپنا کلام پیش کیا جبکہ سرائیکی گلوکاروںنے چولستانی سرائیکی ترانے پیش کئے۔کانفرنس میں عظیم سرائیکی خدمات پر سئیں ظہور احمد دھریجہ کی دستار بندی بھی کی گئی ۔

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author