حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالٓآخر عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کے لئے شاہ محمود قریشی، اسد قیصر، پرویز خٹک، عون عباس، مراد سعید، حلیم عادل شیخ اور حماد اظہر پر مشتمل 7رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کردی۔ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ اگر وہ نااہل یا گرفتار ہوگئے تو مخدوم شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی سربراہی کریں گے۔
پچھلے ایک برس سے وہ پی ڈی ایم حکومت کو یزیدی حکومت قرار دیتے ہوئے جہاد کی اپیلیں کررہے تھے ان کے بعض ہمدردوں نے ان کے گھر کے باہر لگے تمبوئوں کو خیمہ حسنی قرار دیتے ہوئے ان تموئوں میں موجود افراد کو ’’حُر‘‘ ہونے کی بشارت دی۔ حد سے بڑھ کر مذہبی ٹچوں کے شوقین وحدتی عمرانیوں نے انہیں وقت کا حسین بھی کہا
اپنے مخالفین کے لئے خود خان صاحب کیا کہتے رہے ہیں دہرانے کی ضرورت نہیں بس چار دن قبل کے ایک ارشاد گرامی کا نمونہ عرض خدمت ہے۔ انہوں نے فرمایا
’’پی ڈی ایم کے گھٹیا چوروں سے بات نہیں ہوگی میں جن سے بات کرنا چاہتا ہوں وہ میری بات نہیں سن رہے میری ان سے کوئی ناراضگی نہیں میں فوج کا مخالف تھا نہ ہوں‘‘۔
ان کی سیاست نفرت بھرے انداز تکلم دوسروں کو حقیر سمجھنے اور دوسری بے سروپا باتوں پر بحث اٹھانے کی بجائے ان کے حالیہ اعلان پر بات کرنی چاہیے سیاست و تاریخ اور صحافت کے ہم جیسے طلباء مسلسل یہی عرض کرتے آرہے تھے کہ مخالف سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے دروازے بند کرکے وہ جس طور گھٹن کو بڑھارہے ہیں اس میں زیاہ نقصان ان کا ہی ہوگا۔
ان کا خیال تھا (کسی حد تک درست بھی ہے) کہ وہ اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں اپنی مقبولیت سے اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لا کر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے۔ ان کے گرد جمع مختلف الخیال ’’انقلابی‘‘ اور حالیہ عرصہ میں جو پرانے انقلابی ان کی حمایت پر کمربستہ ہوئے ان سب کا خیال بھی یہی تھا کہ عوام کی طاقت سے ’’ریت کی دیوار‘‘ اڑادی جائے گی۔
ان میں سے کسی نے زمینی حقائق اور بالخصوص اس ملک کی ریاستی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کی نہ سکیورٹی اسٹیٹ کی ’’ہئیت‘‘ کو۔
جس بنیادی بات کو خان صاحب مقبولیت اور نفرت کے ہمالیہ پر کھڑا ہوکر فراموش کرتے رہے وہ یہی ہے کہ مخالفت اور حالات کیسے بھی ہوں آخرکار سیاسی جماعتیں مل بیٹھتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہی اختلافات کے درجہ حرارت کو کم کرسکتی ہیں۔
ہم اگر 1971ء کے بعد کے پاکستان کی بات کریں تو دو بڑی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اولاًذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 9جماعتی اتحاد۔ پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک یہ تحریک شروع تو انتخابی دھاندلی کے الزامات پر ہوئی تھی بعدازاں اسے نظام مصطفیؐ کا مذہبی ٹچ دیا گیا جس سے لوگوں کے جذبات بھڑکے اس تحریک کے دوران کس دوست اور دشمن ملک کا کیا کردار رہا یہ ہمارا موضوع نہیں ہم اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ملک میں بھٹو کی کفریہ و شرکیہ حکومت ختم کرکے نظام مصطفیؐ کے چراغوں سے روشنی کرنے والوں نے بالآخر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے مذاکرات کا ڈول ڈالا۔
مذاکرات فریقین کے مطابق کامیاب رہے لیکن اس تحریک کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والوں کے منصوبے کے مطابق آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے آگے بڑھ کر بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ کردیا اور ملک میں مارشل لاء آگیا۔
دوسری مثال نفرتوں کی سیاست کی 1988ء میں پیپلزپارٹی کے خلاف جنرل حمید گل کی چھتر چھایہ میں بنوائے گئے اسلامی جمہوری اتحاد کی ہے آئی جے آئی نامی اس اتحاد کے میڈیا سیل کی سربراہی حسین حقانی کے پاس تھی اس اتحاد نے جس غلیظ پروپیگنڈے فتویٰ بازی اور دشنام طرازی کو رواج دیا یہ سلسلہ اکتوبر 1999ء تک دو مرحلوں میں چلا
پہلا مرحلہ آئی جے آئی کی صورت میں اور دوسرا م سلم لیگ (ن) کی صورت میں دو انتخابات 1988ء اور 1990ء کے اسلامی جمہوری اتحاد نے لڑے اور دو 1993ء اور 1997ء کے مسلم لیگ (ن) ان چار انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کے خلاف ’’زبان و بیان‘‘ میں رتی برابر تبدیلی نہ آئی۔
اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے (ن) لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف کے ماوراء آئین اقدام کے خلاف اے آرڈی کے نام سے سیاسی اتحاد قائم ہوا گیارہ برس تک ایک دوسرے کی بدترین حریف رہنے والی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ایک میز پر بیٹھنے مذاکرات کرنے اور ایک اتحاد کے تحت فوجی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے پر امادہ ہوئیں۔
ہمارے سامنے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کی مثال بھی موجود ہے اس اتحاد میں بھٹو کو پھانسی دلوانے میں پیش پیش رہنے والی پی این اے کی بعض جماعتیں شامل تھیں اس اتحاد کے قیام پر کراچی میں سردار شیرباز خان مزاری کی قیام گاہ پر محترمہ بیگم نصرت بھٹو نے ایک تاریخ ساز موقف کا اظہار کیا ان کا کہنا تھا
"ملک اور جمہوریت کے لئے ذاتی نقصان اور غم بھلاکر آگے بڑھنا ہی جمہوریت کی فتح ہے” ۔
ان تین مثالوں کو عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ سیاسی عمل کو آگے بڑھانے، اختلافات سے پیدا ہوئی یا منصوبے کے تحت بوئی گئی نفرتوں میں کمی کے لئے آخرکار سیاسی جماعتوں کو ہی ایک ایک قدم آگے بڑھ کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔
یقیناً بسا اوقات مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے حامی بدلتے ہوئے حالات میں مذاکرات اور اتحادی سیاست کو تو قبول کرلیتے ہیں مگر ماضی کو تلوار بنائے رکھتے ہیں۔
دیکھنا سمجھنا یہ ضروری ہے کہ ماضی کو تلوار بنائے رکھنا اہم ضرورت ہے یا یہ کہ ’’ملک اور جمہوریت کے لئے ذاتی نقصان اور غم بھلاکر آگے بڑھنا‘‘۔
گو عمران خان نے حقیقت پسندی کے مظاہرے میں تاخیر کردی ہے لیکن پھر بھی وقت ہاتھ سے نکل نہیں گیا۔ یہی کام وہ اگر سال بھر پہلے کرلیتے تو عین ممکن ہے کہ جن حالات اور مشکلات سے وہ دوچار ہیں ان سے محفوظ رہتے۔ باردیگر تحریک انصاف کے قائدین اور ہمدردوں کی خدمت میں عرض ہے کہ سیاست میں برداشت تحمل اور دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کی اہمیت مسلمہ ہے۔
انکار نفرت اور حرف غلط کی طرح مٹادینے کا جنون ایک ایسی تنہائی سے دوچار کردیتا ہے جس سے مسائل بڑھتے ہیں۔
عمران خان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہیں یہ آمادگی اچھی بات ہے البتہ انہوں نے خود کو مذاکراتی کیمٹی سے الگ رکھ کر درست پیغام نہیں دیا۔ بظاہر ایسا لگتا ے کہ وہ اب بھی اپنے اس دیرینہ موقف کے اسیر ہیں کہ ’’ان سے بات کرنا میری بائیس سالہ جدوجہد کی نفی اور توہین ہے‘‘۔
اپنے شخصی ’’اوصاف‘‘ کے حساب سے وہ خود کو ایک ایسے بلند مرتبہ مقام پر دیکھتے ہیں جہاں اسٹیبلشمنٹ سے تو وہ خود بہ نفس نفیس مذاکرات کے آرزو مند ہیں لیکن حکومت سے مذاکرات کے لئے انہوں نے کمیٹی بنادی ہے جس سے ان کا اپنا پیدا کیا تاثر مزید پختہ ہوا کہ وہ ماورائی شخصیت ہیں۔
یہ سوچ اور رویہ کسی بھی طرح درست نہیں۔ کم از کم مجھے لگتا ہے کہ مذاکرات کے لئے ان کی خواہش کی بیل منڈھے نہیں چڑھ پائے گی۔
لگی لپٹی کے بغیر مجھے (ن) لیگ کے رہنمائوں کا ردعمل مناسب نہیں لگا لیکن یہ ردعمل اصل میں خود خان صاحب کے اپنے انداز تکلم کا نتیجہ ہے۔ بہرطور اس پر دو آراء نہیں کہ اگر ایک قدم پیچھے ہٹ کر عمران خان نے مذاکراتی کمیٹی قائم کردی ہے تو حکومت بھی ایک قدم آگے بڑھے مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ ابتدائی بات ضرور کرے اور یہ دو باتیں دریافت کی جانی چاہئیں۔
اولاً یہ کہ مذاکرات کن امور پر ہوں گے کمیٹی کتنی بااختیار ہے۔ ثانیاً کیا کمیٹی کے پاس مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں سمجھوتے کا اختیار ہے اور یہ کہ سمجھوتے کو عمران خان من و عن تسلیم کریں گے یا پھر وہ اپنی عادت دیرینہ کے مطابق رویہ اپنائیں گے۔
عمومی خیال یہی ہے کہ ردعمل کے اظہار میں جلدبازی درست نہیں ہوگی مذاکرات کی طرف بڑھنا چاہیے یہی جمہوری اقدار کے عین مطابق عمل ہوگا۔
نوازشریف سمیت ان کے ساتھیوں کو آخری بات پہلے کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
حرف آخر یہ ہے کہ ہم عرض ہی کرسکتے ہیں اور امید ہی باندھ سکتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ایک ایک قدم آگے بڑھ کر خیر تلاش کرنے کی شعوری کوشش کریں تاکہ اصلاح احوال کی کوئی صورت بن سکے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر