نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست سے دستبرداری کا موسم|| راناابرارخالد

رانا ابرار سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اکانومی کی بیٹ کور کرتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی رونقیں عروج پہ ہیں، ڈی ایس این جی گاڑیوں اور انواع و اقسام کے یوٹیوبروں کا میلہ سا لگا ہوا ہے۔ وکٹیں دھڑادھڑ گر رہی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر تین چار پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہیں پی ٹی آئی رہنماؤں کی پارٹی سے لاتعلقی اور سیاست سے دستبرداری (مستقبل کے لئے بچھایا جانے والا) کوئی نیا جال تو نہیں؟

کیونکہ سیاست سے دستبرداری اختیار کرنے والے زیادہ تر پی ٹی آئی رہنما وہ ہیں جو اڈیالہ جیل سے چھوٹتے ہی سیدھے نیشنل پریس کلب اسلام آباد پہنچتے ہیں اور سب ایک ہی بات دوہراتے ہیں کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ مگر اس بات کی وضاحت کوئی نہیں کرتا کہ سیاست سے یہ دستبرداری وقتی ہے یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے!

پی ٹی آئی کے (سابق) سیکرٹری جنرل اسد عمر سے لے کر سابق یا موجودہ ایم این ایز ملیکہ بخاری، خرم نواز، فواد چوہدری اور جمشید چیمہ و مسرت جمشید چیمہ تک سب کا کہنا ہے کہ وہ 9 مئی 2023 کو ہونے والے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ بقول ان کے وہ ملک اور پاک فوج کی محبت میں پارٹی عہدہ چھوڑنے اور پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ حالانکہ کچھ عرصہ پہلے یہی لوگ بڑھ چڑھ کر عمران خان اور پی ٹی آئی سے یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے۔ اس حوالے سے چند سوالات کا جواب ضروری ہے، کیونکہ ان سوالات کے جوابات کے بغیر ان لوگوں کے دوبارہ پی ٹی آئی جوائن کرنے کے شکوک و شبہات قائم رہیں۔

1۔ بذریعہ پریس کانفرنس یا ویڈیو بیان پی ٹی آئی سے لاتعلقی اور سیاست سے دستبرداری کا اعلان کرنے والے پارٹی عہدیداروں اور ممبران اسمبلی میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے اپنا تحریری استعفیٰ عمران خان کو بھجوایا ہو

2۔ سیاست اور پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کرنے والے پی ٹی آئی رہنما و ممبران اسمبلی 9 مئی کے واقعات کی مذمت تو کرتے ہیں اور ملوث لوگوں کو بھی تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں لیکن ابھی تک کسی ایک نے بھی عمران خان کی مذمت نہیں کی۔ حالانکہ صحافیوں کی جانب سے پی ٹی آئی چھوڑنے والے ہر ایک رہنما سے یہ سوال کیا گیا مگر جواب دینے سے گریز کا اجتماعی رویہ سامنے آیا ہے۔ خیال رہے کہ اب تک جن رہنماؤں نے پی ٹی آئی یا سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے، 9 مئی سے قبل وہ سب کے سب ایک ہی ٹون میں عمران خان کو ملک کا نجات دہندہ اور (موجودہ فوجی قیادت سمیت) مخالفین کو ملک دشمن کہتے تھے اور خشوع و خضوع کے ساتھ عمران خان کے ایجنڈے پر کاربند تھے۔ جبکہ وہ ایجنڈا سب کو معلوم ہے۔

لہٰذا اگر عامر کیانی، اسد عمر، ملیکہ بخاری، جمشید چیمہ و مسرت جمشید چیمہ، شیریں مزاری، فواد چوہدری، فیاض الحسن (چوہان) ، مراد راس، علی حیدر زیدی، عمران اسمٰعیل، خسروبختیار، مینا لغاری، اختر ملک و دیگر کے دلوں میں پاکستان اور فوج کے لئے اس قدر محبت ہے تو وہ صرف ان لوگوں کی مذمت کیوں کر رہے جو 9 مئی کے واقعات کے لئے عمران خان کے آلہ کار بنے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹویٹر پہ ’عمران خان ہماری ریڈ لائن ”والا ٹرینڈ گزشتہ کئی ماہ سے چل رہا تھا جبکہ عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے مخصوص ردعمل کی منصوبہ بندی بھی پہلے سے کی جا چکی تھی۔ جب پارٹی سے سائیڈ لائن کیے جانے والے فیاض الحسن چوہان اس تمام منصوبہ بندی سے آگاہ تھے (جس کا انہوں نے دوران پریس کانفرنس اعتراف کیا) تو کیونکر ممکن ہے کہ اسد عمر، شیریں مزاری، عامر کیانی، فواد چوہدری، مراد راس اور عمران اسمٰعیل اس سے آگاہ نہ ہوں؟

بلاشبہ سیاسی رہنماؤں کا پارٹی قیادت سے اختلاف پیدا ہونا فطری امر ہے اور اکثر و بیشتر یہ ہوتا رہتا ہے، مگر جب کوئی سیاستدان قیادت سے اختلاف کی بنیاد پر پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہے، اول تو استعفیٰ تحریری ہوتا ہے، دوئم یہ کہ استعفے میں پارٹی چھوڑنے کی وجوہات بھی کھل کر بیان کی جاتی ہیں۔ مگر یہ پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ رہنما، کارکنوں سے اختلاف کی بِنا پر نہ صرف پارٹی سے لاتعلقی بلکہ سیاست سے دستبرداری کا اعلان کر رہے ہیں۔

بالفرض اگر (عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ) 9 تا 13 مئی کے دوران فوج اور فوج تنصیبات پر حملوں کا فیصلہ محض کارکنوں کا تھا تو محترم اسد عمر بحیثیت سیکرٹری جنرل اپنے اختیارات استعمال کر کے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے ایسے تمام کارکنوں کی رکنیت بیک جنبش نہ صرف معطل بلکہ منسوخ بھی کر سکتے تھے۔ مگر گرفتاری سے قبل اسد عمر کی طرف سے کارکنوں کی پارٹی رکنیت منسوخی کا نوٹس تو درکنار بلکہ فوج اور فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والوں سے لاتعلقی کے اظہار کے لئے پریس ریلیز تک جاری نہیں کی گئی۔ دنیا بھر کی سیاسی تاریخ میں کیا کبھی کسی رہنما نے محض کارکنوں سے اختلاف کی بِنا پر کبھی پارٹی کو چھوڑا ہے؟

واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی سے لاتعلقی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کرنے والے رہنماؤں کا اختلاف کارکنوں سے نہیں بلکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے پیدا ہوا، جس کی بِنا پر وہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ کیونکر اگر اختلاف کارکنوں سے ہوتا تو اگلے ہی لمحے ان کو پارٹی سے نکال دیا جاتا۔ مگر پارٹی چیئرمین سے اختلافات کی بِنا پر پی ٹی آئی چھوڑنے والے درجنوں رہنما مذمت صرف کارکنوں کی کر رہے ہیں، وہ آج بھی پارٹی چیئرمین کی مذمت سے نہ صرف گریزاں ہیں بلکہ ان میں بہت سارے اب بھی اپنے پارٹی چیئرمین کے لئے دلوں میں محبت رکھتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی اور سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرنے والے رہنماؤں میں بہت سارے ایسے ہیں جو سیاست میں حصہ لیے بِنا رہ ہی نہیں سکتے۔ مثال کے طور پر مخدوم خسروبختیار، شیریں مزاری، مینا لغاری، فواد چوہدری، اسد عمر، ڈاکٹر اختر، عمران اسمٰعیل، علی زیدی، مسن لغاری جیسوں کے سیاست سے بڑے بڑے مالی مفادات وابستہ ہیں۔

شیریں مزاری کا خاندان پچھلے پچاس سال سے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان میں غریب مزارعین کی دس ہزار ایکڑ زمین دبا کے بیٹھا ہے، شیریں مزاری اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے ان غریب مزارعین کو دباتی چلی آ رہی ہیں، اگر ان کا خاندان سیاست سے کنارہ کش ہو گیا تو دس ہزار ایکڑ اراضی ہاتھ سے نکل جائے گی، جبکہ دس ہزار ایکڑ بہت بڑا رقبہ ہوتا ہے۔

اسی طرح اگر مخدوم خسروبختیار کا خاندان سیاست سے کنارہ کش ہو گیا تو نیب فوراً انہیں اور ان کے بھائیوں کو گرفتار کر لے گا کیونکہ ان کے خلاف نیب میں اربوں روپے کی انکوائری چل رہی ہے۔ چلو مان لیتے ہیں کہ انہوں نے نیب انکوائری پر سودے بازی کر کے سیاست سے کناری کشی کا فیصلہ کیا ہو گا، لیکن مستقبل میں وہ سیاست میں حصہ لیے بغیر اپنے ضلع رحیم یارخان کے غریب لوگوں کا استحصال کیسے کر پائیں گے؟

محترمہ مینا لغاری نے بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے، اہم سوال یہ کہ سیاست میں حصہ لیے بغیر وہ اُس ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی پر اپنا قبضہ کیسے برقرار رکھیں گی جو ان کے (مرحوم) شوہر سردار جعفر لغاری نے دہائیوں سے دبا رکھی تھی۔

لہذا درجنوں رہنماؤں کی جانب سے پارٹی چیئرمین عمران خان کی مذمت کیے بغیر پی ٹی آئی اور سیاست چھوڑنے کے زبانی اعلانات اس خدشے کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ کہیں یہ ملی بھگت نہ ہو اور کسی منصوبہ بندی کے تحت یہ اعلانات نہ ہو رہے ہوں تاکہ مشکل وقت گزارنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہو کر کپتان کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔ جیسا کہ 1991 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے (سوویت یونین کے انہدام کے بعد ) اپنے ممبران کے لئے اعلامیہ جاری کیا تھا ”حالات غیر موافق ہیں لہٰذا تمام پارٹی ارکان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وقتی طور پر منتشر ہوجائیں اور اپنے اپنے طور پر سروائیو کریں، جب انقلاب کے لئے حالات موافق ہوں گے تو دوبارہ سب سے رابطہ کیا جائے گا“ ۔

یہ الگ بات کہ نہ کبھی پاکستان میں حالات انقلاب کے لئے موافق ہوئے اور نہ ہی سی پی پی کی جانب سے کامریڈوں کو دوبارہ اکٹھے ہونے کی کال دی گئی۔ لیکن اگر کال دی بھی جاتی تو شاید بکھرے ہوئے کامریڈ دوبارہ اکٹھے نہ ہو پاتے، کیونکہ اپنے اپنے طور پر سروائیو کرنے کی تگ و دو میں بہت سے کامریڈز این جی اوز کا حصہ بن کر انقلابی نظریے سے دور ہوچکے تھے۔ مگر پی ٹی آئی کا معاملہ دوسرا ہے، اس وقت خطے میں امریکی اور چینی مفادات کے مابین رسہ کشی روزبروز بڑھ رہی ہے جبکہ پاکستان میں عمران خان ہی امریکہ کے لئے امید کی ایک ایسی کرن ہے جو نہ صرف سی پیک کی بحالی کو روک سکتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا اور مشرق و سطیٰ میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کو بھی بے اثر سکتا ہے، لہٰذا قوی یقین ہے کہ امریکہ بہادر اس پارٹی کو دوبارہ منظم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور بکھرنے نہیں دے گا۔

 

About The Author