ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف بنیادی طورپر بھان متی کا وہ کنبہ تھا جس کو کہیں کی اینٹ اور کہیں کے روڑے اکٹھے کرکے بنایا گیا تھا۔تبدیلی لانا مقصود تھی لہذا پولٹیکل انجینئرنگ کے زریعے دباو دے کر ، لالچ دے کر ، ماضی کی مبینہ کرپشن کی فائلیں کھول کر سیاسی ریس کے گھوڑوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں ۔آج کل جس طرح روز تحریک انصاف سے لاتعلقی کے اعلانات سننے کو مل رہے ہیں یہی کچھ 2018 کے عام انتخابات سے قبل دیگر جماعتوں کے ساتھ ہوا۔کئی دہائیوں سے پارٹی میں موجود لوگوں کے اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرلیا۔اس وقت کپتان کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی جبکہ کپتان کے کھلاڑی تو سڑکوں پر دھمالیں ڈال رہے تھے ہر گرنے والی وکٹ پر ایسا شور اٹھتا کہ کان پڑی آواز سنائی نا دیتی تھی ۔کاش کپتان اس وقت سوچ لیتے کہ دینے والے نے جس دن واپس لے لیا تو کیا ہوگا
سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی نے جب وزارت عظمی سے استعفیٰ دیا تو ان سے پوچھا گیا کہ استعفیٰ کیا دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جو لے کر آتے ہیں وہ گھر بھی بھیج دیتے ہیں ۔کپتان اس بات کو شائد بھول گئے انہوں نے سمجھ لیا کہ لانے والے لے تو آئے ہیں اب واپسی اپنی مرضی سے ہوگی اور یوں کپتان نے خود کو ناقابل تسخیر سمجھ لیا ۔یہی وہ غلطی ہوتی ہے جو عام طورپر سیاست دان کرتے ہیں ۔اور یہی غلطی کپتان نے بھی کرلی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ جس رفتار سے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اسی رفتار سے ان کی واپسی ہورہی ہے شائد واپسی کی رفتار کچھ زیادہ ہی تیز لگ رہی ہے ۔
تحریک انصاف کے رہنما جمشید چیمہ اور ان کی زوجہ مسرت جمشید چیمہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جہاں 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ شرپسندوں کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے وہیں پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ کپتان نے اپنے دور اقتدار میں اور اس کے بعد جو سیاسی بیانیہ ترتیب دیا اس کے نتیجے میں 9 مئی کا سانحہ ہوا۔بالکل درست نشاندہی کی ہے انہوں نے اور کوئی شک نہیں کہ کپتان نے وزارت عظمیٰ کے چھن جانے کے بعد جو بیانیہ ترتیب دیا اور جس شدت کے ساتھ اس کا پرچار کیا یہ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے کھلاڑیوں نے سیاسی جدوجہد کی بجائے ریاست ہی فتح کرنے کی ٹھان لی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی سلامتی کے اداروں پر دشمنوں کی طرح ٹوٹ پڑے ۔
کہتے ہیں کہ نیم حکیم خطرہ جاں اور نیم ملاں خطرہ ایماں ہوتا ہے ایسے ہی نیم انقلابی خطرہ ریاست ہوتا ہے ۔ایسے ہی نیم انقلابی نے محض اپنی گرفتاری کو ختم کرانے کے لیئے ریاست کو خظرے میں ڈال دیا۔ ناتجربہ کار اور ناپختہ زہنوں کو نفرت سے بھر دیا بجائے اس کے کہ اپنے ورکرز کی سیاسی تربیت کی جاتی ان کو ایک ایسی احمقانہ جدوجہد کے لیئے تیار کیا جس میں یا تو ریاست کا نقصان ہوتا یا پھر ان ورکرز کا اور لیڈر کو سیاست کرنے کے لیئے چند لاشیں میسر ہوجاتیں ۔نالائقی کی بھی حد ہوتی ہے اگر 9 مئی کو کوئی ایسی چیز ہوجاتی جس سے دشمن کو کوئی موقع مل جاتا تو پھر کیا ہوتا۔کیا کپتان نے سوچا ہے کہ ریڈ لائن ان کی زات نہیں بلکہ اس ریاست اور اس ملک کی بقا ہماری ریڈ لائن ہے اور اس کو کبھی کراس نہیں کرنا ہے ۔
فی الوقت کا سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ تحریک انصاف جس طرح تعمیر ہوئی تھی اسی طرح سے مسمار ہورہی ہے ۔آئے روز اس جماعت کے اراکین پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں ۔بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ کپتان کی ضد ، انا اور غیر سیاسی رویے نے ان کی پارٹی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔اور یہ سلسلہ ابھی کچھ دیر اور بھی چلے گا اس طرح پارٹی کا مستقبل نوشتہ دیوار ہے سوال یہ ہے کہ کپتان کا کیا ہوگا ۔کیا کپتان کو فیس سیونگ مل جائے گی کیا کپتان کو کوئی محفوظ راستہ مل جائے گا۔ کپتان مزید کتنی دیر مذاحمت کرئے گا اور کیسے کرئے گا کیا اس کے ورکر اب اس کی کال پر باہر نکلیں گے ۔کیا تحریک انصاف پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگے گی یا اس کو سیاست کرنے دی جائے گی۔
یقینی بات ہے کہ کہیں نا کہیں ان سوالوں کے جواب بھی تلاش کیئے جارہے ہوں گے یا پھر جواب تلاش کرلیے گئے ہوں گے اور اب ایک طریقہ کار کے تحت ان جوابات کے طرف سفر طے کیا جارہا ہے ۔جو بھی ہے یہ کسی صورت بھی تحریک انصاف کے فائدے میں نہیں ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ کپتان کا سیاسی رویہ اب کیسا ہوگا۔کیا کپتان ماضی کی طرح کا سیاسی رویہ اپنائے گا یا پھر اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک معتدل انداز میں سیاسی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کرئے گا۔اگر کپتان مستقبل کی سیاست کو بہتر انداز سے کرنے کا ارادہ کرلے اور اب تک کی کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھ لے اور پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے اپنا سیاسی سفر شروع کرئے تو مستقبل میں کہیں نا کہیں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے مگر یہ بہتری مستقبل قریب میں ہرگز ممکن نہیں ہے اس کے لیے کافی وقت کے لیئے انتظار کرنا پڑے گا
ویسے بھی جلدی کس بات کی ہے ابھی تو ابتدائے عشق ہے ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی ہے اگر سیاست کرنی ہے تو بہت کچھ سہنا اور برداشت کرنا پڑے گا پھر اپنی اصلاح کرنی پڑے گی اپنے ورکروں کی سیاسی تربیت کرنی پڑے گی اپنے آپ کو قابل قبول بنانا ہے تو اپنے ماضی سے لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑے گا جو غلطیاں کی ہیں ان کی معافی پوری قوم اور ریاستی اداروں سے مانگنی پڑے گی تب کہیں شائد کوئی بہتری کی صورت نکل آئے وگرنہ یہ بات زہن نشین کرلینی چاہیے کہ کپتان کی جماعت نے شعوری طورپر وہ سرخ لائن عبور کرنے کی غلطی کر لی ہے جس کے بعد عام طورپر معافی نہیں ملا کرتی۔
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر