ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبوتر اُڑا کیسے؟ شہزادے کا سوال۔
یوں۔ بند مٹھی کھول کر کبوتر اُڑاتے ہوئے جواب۔ اس ادا پہ شہزادہ مر مٹا۔
ہیروں کی داستان سن کر آپ سب نے پوچھا کہ دکھائیے تو وہ مال و متاع؟ سوچ میں پڑ گئے ہم کہ کیا کہیں؟ کیسے بتائیں کہ۔ ۔ ۔ واللہ اگر وہ ہیرے مٹھی میں ہوتے تو اسی ادا سے بتاتے کہ یہ۔ ۔ ۔
مگر نہ ہم نورجہاں اور نہ آپ شہزادہ سلیم۔ سو بہتر ہے صاف صاف بتا دیا جائے کہ ہم نے دے دیے۔ ہائیں ہائیں اتنی چاہت اور قربانی سے خریدے گئے ہیرے۔ مگر کس کو؟ آپ کا سوال۔
چور کو۔ ۔ ۔ ہمارا جواب۔ ۔ ۔ کہیے ہو گئی نا سٹی گمُ۔ چور کو دیے اور اپنے ہاتھوں۔ دیکھیے ایسی باتیں نہ کریں کہ دل سہار نہ سکے۔
مگر ہوا تو یہی تھا۔
بیسویں صدی ختم ہونے کو تھی کہ نشتر ہسپتال سے گھر جاتے ہوئے دو خواتین کڑھائی بھرے کپڑوں کے تھیلے اُٹھائے ملیں۔ سڑک پر نہیں بلکہ ایک دوست کے گھر جہاں وہ نمونے دکھا کر آرڈر لینے آئیں تھیں۔ بوسیدہ لباس، چادریں اوڑھی ہوئیں، ادھیڑ عمر، چہروں پہ غربت کی لکیریں۔ ایک باتونی، دوسری کم گو!
دوست کے گھر سے باہر نکلنے لگے تو کہنے لگیں کہ آپ بھی کچھ بنوا لیں۔ کڑھائی والے کپڑے پہننے کے شوقین تو تھے ہم۔ کون سا ٹانکا تھا جس کی ہنر کاری موجود نہیں تھی ہماری وارڈ روب میں۔ کچا ٹانکا، پکا ٹانکا، تار کشی، آری، مروڑی، زنجیری، بے نظیر۔ سوچا کہ چلو کچھ اور بنوا لیتے ہیں۔ چلو بھئی ساتھ ہمارے گھر، بٹھا لیا گاڑی میں۔
اب گھر کا قصہ کچھ یوں تھا کہ صاحب پوسٹنگ پہ حیدر آباد جا چکے تھے۔ ہمارا نشتر ہسپتال چھوڑنا محال کہ ٹریننگ چل رہی تھی۔ سو آرمی میس میں ایک کمرہ لے لیا گیا جس میں ہم صاحبزادی کے ساتھ رہتے تھے، پکی پکائی کھا کر چین کی نیند سوتے تھے کم ازکم اس قصے سے پہلے تک۔
اب میس کا عالم سن لیجیے۔ نوکیلی خاردار تاروں سے لپٹی ہوئی بلند و بالا دیواروں کے بیج ایک عمارت، آہنی گیٹ، بندوق تھامے سپاہی چاروں طرف۔ دوسری منزل پر ہمارا کمرہ۔
کہاں بٹھائیں انہیں؟ مہمانوں کے لئے نیچے کی منزل میں میس کا فیملی روم؟ یا سیدھے اپنے کمرے میں؟ سوچا، کڑھائی سلائی اور کپڑوں کا خالص زنانہ معاملہ ہے سو کمرے میں ہی لیے چلتے ہیں، اطمینان سے ہنر کاری دیکھیں گے۔ ارے ہاں راستے سے بیٹی کو بھی سکول سے لے لیا جو کلاس ون میں پڑھتی تھی۔
کمرا کھولا، دونوں بیبیوں کو بٹھایا۔ میس سے ان کے لیے چائے، سموسے اور بچی کے لیے فرنچ فرائز منگوائے۔
وہ چائے کی چسکیاں بھرتی رہیں اور ہم ان کے تھیلے میں بھرے کپڑے ٹٹول ٹٹول کر دیکھتے رہے۔ باتونی عورت ہمیں نرخ وغیرہ بتاتی رہی۔ چائے ختم کرتے ہی کم گو عورت اپنی جگہ سے اُٹھی اور پاس بیٹھ کر ہماری ہتھیلی پکڑتے ہوئے اس پر چٹکی بھر چینی رکھ دی۔ ہم ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے۔ اپنے ہاتھ سے ہماری مٹھی بند کرتے ہوئے انہوں نے مٹھی کے نیچے ایک پلیٹ رکھ دی جس سے آبشار کی طرح چینی گرنے لگی۔
یہ کیا؟ ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مٹھی ہماری، کمرہ ہمارا، چینی میس سے آئی ہوئی۔ چٹکی ان کی اور ہماری مٹھی سے گرتی چینی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آدھی پلیٹ بھر گئی۔ ہم بے یقینی سے کبھی انہیں دیکھتے، کبھی اس چینی کو۔ ہمارے پوچھنے پہ وہ پراسرار طریقے سے مسکراتے ہوئے کہنے لگیں، تم کچھ نہیں جانتیں۔ بات تو ٹھیک تھی، بھلا ہم کیا جانیں یہ جنتر منتر!
ہم ششدر، ہکا بکا، کچھ کہنا چاہیں تو الفاظ منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلیں۔ انہوں نے دوسرا وار کیا۔ تھیلے سے دھاگے کا ایک ٹکڑا نکالا، ایک سرا ہمارے ہاتھ میں پکڑا یا اور کہا کہ کھینچو۔ جونہی ہم نے کھینچنا شروع کیا دھاگہ لمبا ہوتا جائے، دیکھتے ہی دیکھتے دھاگے کا پورا گچھا تیار۔
یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہم نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔ بچی ٹی وی دیکھنے میں مصروف۔ بیٹ مین کمرے کے دروازے پہ موجود اور ہم ان دونوں کے کرشموں کے رحم و کرم پر۔ تیسرا کرتب چاول کے ایک دانے سے شروع ہوا جو پلک جھپکتے میں ایک ڈھیری میں بدل گیا۔
ہماری سٹی گم، چپ چاپ بیٹھے، دل ہی دل میں سخت متعجب۔
اگلا وار اس سے زیادہ کاری تھا!
سن بچہ۔ تین بھائی ہیں تمہارے۔ ایک سمندر پار، ایک فوجی، تیسرا لاڈلا۔ یہ سن کر ہم اُچھل پڑے۔ ملتان اجنبی شہر، دور دور تک کوئی رشتے دار نہیں۔ ان خواتین کو ملنے کا پہلا اتفاق۔ کیسے علم ہوا انہیں؟
شگاف ڈال دیا انہوں نے۔ اب گرتی ہوئی دیوار کو مزید دھکا دینا تھا۔ بھائیوں کے نام، ابا کا فالج، امی کا نام، صاحب کی دوسرے شہر موجودگی۔ سب تیر ٹھیک نشانے پہ۔
لیجیے جناب، لرزتی ہوئی دیوار جلد ہی ڈھے گئی۔ قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی مقلد بالکی کو ان کرشموں کا قائل ہونا پڑا۔ شہاب کی نائنٹی اور بملا کماری کی روح، ممتاز مفتی کے ایڈوکیٹ صاحب، بانو قدسیہ کا مشعل اٹھائے نو گزا آدمی اور سائیں سرکار، اشفاق احمد کے انواع و اقسام کے بابے اور مائیاں۔ مستقبل کے اشارے، خواب، پیش گوئیاں، الہام، کرشمے، انکشاف۔ یہ سب کچھ تو نوعمری سے شامل تھا ہماری زندگی میں۔
ایک معصوم، زمانے سے انجان، زندگی کی دوڑ کا آغاز کرنے والی پڑھی لکھی نوجوان لڑکی برسوں سے یہ سب کتابوں میں پڑھ کر۔ نہیں پڑھ کر نہیں۔ بلکہ رٹ کر ان بابوں اور مائیوں کے روحانی درجات، مقامات اور ان کے مقلدین کے لکھے ہوئے پر ایمان لا چکی تھی، اس دن نظر سے دیکھ بھی لیا اور کانوں سے سن بھی لیا۔
کیوں شک کرتی وہ؟ جب ان قابل قدر معزز ادیبوں اور دانشوروں کو ہر گلی کی نکڑ، ہر سڑک کے کونے، بیرون ملک، ائرپورٹ، جہاز اور نہ جانے کہاں کہاں معجزات سے مالا مال، نظر اور توجہ کرنے والے بابے اور مائیاں مل سکتے ہیں تو اسے کیوں نہیں؟ نجیب الطرفین سید تھی آخر۔
پراسرار مائی نے کچھ دیر مزید مسحور کیا۔ اچھے مستقبل کی کچھ نشانیاں بتائی گئیں، خطرات سے نمٹنے کی کچھ احتیاط۔ ہم سر نہوڑائے سب کچھ نوٹ کرتے گئے۔ ہم نے ان خدمت میں کچھ رقم پیش کرنے کی درخواست کی جو سختی سے رد کر دی گئی۔ چلنے سے پہلے انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے برکت کے لیے اپنی قیمتی چیزوں پہ دم درود کروانا ہو تو وہ بہت شوق سے کریں گی۔ کس کافر کو انکار تھا؟
اس دن بینک سے ہو کر آتے ہوئے کچھ بڑی رقم اس لیے نکلوائی تھی کہ اگلے روز دو ہفتے کی چھٹی گزارنے کے لیے حیدرآباد جانا تھا جہاں صاحب پوسٹڈ تھے۔ ڈریسنگ ٹیبل پر ایک چھوٹا سا جیولری باکس رکھا تھا جس میں وہ تمام انگوٹھیاں، کانوں کے بندے اور گلے کی چینز موجود تھیں جنہیں وقتاً فوقتاً پہن کر ہم محظوظ ہوتے تھے۔ آخر جوانی دیوانی تھی۔
آؤ دیکھا نہ تاؤ ہم نے وہ رقم اور ڈبہ ان کے سامنے جا رکھا۔
بڑی بے نیازی سے وہ سب کچھ انہوں نے سامنے پڑے مصلے پہ رکھا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑانا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد اس مال پہ زور سے پھونک ماری، مصلے کو لپیٹا اور ہمارے ہاتھ میں دیا کہ کہ اسے کہیں سنبھال کر رکھ دو۔ ہم نے وہ گول مول مصلا ان کے ہاتھ سے لیا۔ ٹٹول کر زیورات کی موجودگی چیک کی اور کپڑوں کی الماری میں گھسا دیا۔
جب وہ جانے کے لیے اُٹھیں تو ہم نے بیٹ مین سے کہا ان کے ساتھ گیٹ تک جاؤ اور انہیں رکشے میں بٹھا دو۔ انہوں نے فوراً نفی میں سر ہلاتے ہوئے فرمائش کی کہ ہم انہیں خود چھوڑ کر آئیں۔
کچھ ثانیوں کے لیے ہم نے سوچا، ہمیں ابدالی روڈ پہ ایک پارلر میں بال ترشوانے لازمی جانا تھا۔ سی ایس ڈی سے بچی کی کچھ چیزیں بھی لینی تھیں۔ چلو انہیں چھوڑ دیتی ہوں، پھر ابدالی روڈ چلی جاؤں گی۔
بیٹ مین کو بتایا کہ ہم تھوڑی دیر میں آئیں گے۔ بچی کو ساتھ لیا، گاڑی سٹارٹ کی۔ ساتھ والی سیٹ پہ وہ معجزوں والی سرکار بیٹھیں، دوسری مائی پیچھے۔ جب ہم نے بچی کو پچھلی سیٹ پر بٹھانا چاہا تو معجزوں والی سرکار نے اسے لپک کر گود میں بھر لیا اور کہا کہ نہیں بچی کو میں گود میں بٹھاؤں گی اس پہ دم کرنا ہے۔ بچی نے کچھ منہ بنایا لیکن ہم نے اسے تسلی دی کہ بزرگ اماں ہے، بیٹھ جاؤ۔
گاڑی چلی، ہم چلے، مائیاں بھی چلیں۔ ہم خوش بے انتہا۔ آج ان سب کرداروں کی نمائندہ ہمارے ساتھ بیٹھی تھیں، جنہیں زمانوں سے ہم پڑھتے چلے آ رہے تھے۔ روحانیت کے نہ جانے کس درجے پر فائز تھیں وہ؟ اونچا ہی ہو گا یقیناً، بہت پہنچی ہوئی لگتی ہیں۔
ہمارا خیال درست تھا! پہنچی ہوئی تو وہ تھیں!
انہوں نے ریلوے سٹیشن جانے کی فرمائش کی۔ ہم نے انہیں وہاں اتارا، وہ گلے ملیں، سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں اور ایک طرف کو چل دیں۔ عقیدت بھری نظروں سے ہم انہیں جاتا ہوا دیکھتے رہے۔ نہ جانے اب یہ بزرگ کس کی قسمت سنواریں گی؟
ہم پارلر گئے، بال کٹوائے۔ پھر سی ایس ڈی، شاپنگ۔ واپسی میں صدر سے رضوان دہی بھلا ہاؤس سے چٹ پٹے دہی بھلے نہ کھاتے، یہ کیسے ممکن تھا بھلا؟ بچی کو آئس کریم کھلائی اور شام ڈھلے گھر پہنچے۔
گھر پہنچ کر سفر کی تیاری شروع کی۔ بیٹ مین سے کہہ کر سٹور سے اٹیچی نکلوا یا، دو ہفتوں کے لیے اپنے اور بچی کے کپڑے، کچھ کتابیں۔ چائے پی۔ کھانا کھایا۔ سونے کے لیے بستر پہ گئے تو یاد آیا کہ معجزوں والی سرکار نے رقم اور جیولری مصلے میں لپیٹ کر الماری میں رکھوائی تھی۔ چلو اب وہ بھی نکال کر سنبھال دیں۔ دیکھیں کیا ساتھ لے کر جانا ہے؟ کیا چھوڑ کر جانا ہے؟
اٹھے، الماری کھولی۔ گول مول مصلا ویسے ہی کپڑوں کی تہوں کے نیچے سکڑا پڑا تھا۔ نکالا۔ کھولنا شروع کیا۔ ایک تہہ، دوسری تہہ، لیجیے دو سیکنڈ میں کھل گیا۔
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کیا ہوا ہو گا؟ مصلا کھلا اور ساتھ میں ہماری نیند سے بند ہوتی آنکھیں۔ خالی مصلا دیکھ کر ہماری کیا حالت ہوئی ہو گی رات کے دس بجے؟ زور سے چکر آیا۔ اوہ میرے خدایا۔ یہ کیا ہوا؟ ہم نے تو ایک سیکنڈ کے لیے انہیں اکیلا نہیں چھوڑا، باتھ روم بھی نہیں گئے۔ کہیں الماری میں گر نہ گئی ہوں سب چیزیں۔ وحشت میں سب کپڑے الماری سے باہر ڈھیر کر دیے۔ نتیجہ تو وہی تھا جو نکل چکا تھا۔
اب ہم نے سوچ سوچ کر زیور کی گنتی شروع کی۔ چوڑیاں بیچ کر لیا جانے والا ہیرے کا سیٹ، منہ دکھائی کی انگوٹھی بیچ کر خریدی گئی ہیرے کی انگوٹھی۔ شادی کے موقع پر فرزانہ اور قمر کی دی گئی انگوٹھیاں، بچپن کی دوست فرحت کے دیے گئے بندے، کچھ اور لوگوں کی دی گئی انگوٹھیاں اور چینز، حامد جیولرز سے بنوائے کچھ نئے ملتانی ڈیزائن کے ٹاپس اور پندرہ ہزار روپے۔ ( تنخواہ سات ہزار تھی، سونا چھ ہزار روپے تولہ ) ۔
زمین ہلنے لگی، چھت لرز کر گرنے کو تیار۔ کیا کریں؟ ہمیں تو ایک لحظہ بھی شک نہیں ہوا کہ ہم معجزوں والی سرکار کے ہاتھوں لُٹ رہے رہیں ہیں۔ تنہائی، رات، پردیس۔ کچھ آنسو ٹپک پڑے۔
کیا یہ ان سب کتابوں کا شاخسانہ ہے جن کو پڑھ پڑھ کر ہم بڑے ہوئے۔ تمام ڈگریوں اور ذہانت کے باوجود ایک میلی کچیلی، نیم ان پڑھ عورت کے ہاتھوں لٹ گئے۔ جواب ہاں میں تھا۔ ان سب ادیبوں نے بابوں کے ڈیروں، عام نظر آتے لوگوں کے روحانی درجوں، ان کے الہام اور کشف کے تذکروں، مستقبل بینی کی اہلیت، اولیا کو خوابوں میں دیکھنے کی صلاحیت سے اٹی کہانیاں لکھ لکھ کر ایک ایسی رومانی، پاکیزہ اور متجسس فضا تیار کی جس نے نئی نسل کے ذہنوں پر نقب لگا کر انہیں مسحور کرتے ہوئے زیر کیا۔ لاشعور میں یہ بات ڈال دی گئی کہ ”نائنٹی“ کے خطوط آ سکتے ہیں، نو گزا آدمی مشعل اٹھا کر لارنس گارڈن میں گھوم سکتا ہے، ڈیروں پر تقسیم ہوتے لنگر میں ایک خاص قسم کا فیض ہوتا ہے، ایڈوکیٹ صاحب کا الہام ہوتا ہے، پیغام پہنچائے جاتے ہیں۔ سو کچھ عجب نہیں کہ کہاں کب کسی کو اور سادہ حلیوں میں گھومتا بابا مل جائے جس کی زنبیل میں روحانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ ہمارا گھر، پیری مریدی پہ قطعی یقین نہیں رکھتا تھا۔ ہماری اماں نہ تو کسی پیر، تعویذ، دم درود کی قائل نہیں تھیں اور نہ ہی انہیں اس قسم کا کوئی شوق یا ضرورت تھی۔ پھر ہمیں کیا ہوا؟ ہم۔ ہم ان کی اولاد۔ پڑھی لکھی، باشعور۔ باہر کی دنیا میں گھومنے والی اور ایک مائی کے ہاتھوں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھی۔
جی چاہا کہ ان صاحبان کی سب کتابیں شیلف سے اتاریں اور آگ لگا دیں۔ ہم جو شہاب نامہ ہر وقت بغل میں دبائے پھرتے تھے، راجہ گدھ کے اسیر تھے، ایلی اور الکھ نگری ہمارے سرہانے رکھی رہتی تھی، زاویہ کی سب جلدیں پڑھ پڑھ کر حفظ کر رکھی تھیں۔ بابا صاحبا اور روح رواں ابھی آنا باقی تھیں۔
کیا کریں؟ کس کو بتائیں؟ ایک اجنبی شہر اور ہم اکیلے۔ اتنا بڑے نقصان۔ صاحب کو بتائیں؟ نہیں بھئی نہیں بہت ڈانٹ پڑے گی۔ اتنے دنوں بعد حیدر آباد جا رہے ہیں، ہر وقت یہی سننے کو ملے گا۔ نہیں صاحب کو نہیں بتایا جا سکتا۔
کیا پولیس میں رپورٹ کروائیں؟ کیا بتائیں گے تھانیدار کو؟ نہ نام معلوم، نہ ایڈریس۔ حلیہ بھی عام سا۔ پھر کیا لکھوائیں؟ ہنسے گا وہ۔ مذاق اُڑائے گا ہماری بے وقوفی پر۔
امی کو؟ نہیں وہ بہت پریشان ہو جائیں گی۔ کیوں دُکھی کریں انہیں کہ ان کی بیٹی کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔
صبح حیدرآباد جانا ہے۔ کیسے جائیں گے۔ اتنا بڑا مالی نقصان۔ دل پہ اتنا بوجھ۔ دھوکا کھانے کا غم۔ پچھتاوا، شرمندگی، اپنے آپ پر غصہ۔ کیا کریں؟
ہمارے پاس ایک ہی تو ہستی تھی بار غم اٹھانے کے لیے۔ آپا!
فون کیا، آپا کی آواز سن کر رونا آ گیا۔ ابھی تک صبر سے کام لیے بیٹھے تھے وہ ضبط کھو گیا۔ آپا نے بات سنی اور پھر بڑے سکون سے کہنے لگیں۔ دیکھو افسوس کی بات تو بہت ہے۔ کافی بڑا نقصان ہے اور پھر تمہاری پسند کی چیزیں، دوستوں کے تحفے، شادی کی یادگار۔ لیکن یہ ہو گیا، ہو چکا ہے اسے دل سے مت لگاؤ۔
میری پیاری بہن، تمہارا دل اس سے زیادہ قیمتی ہے، تمہاری زندگی اس سے زیادہ اہم ہے۔ تم بچ گئیں، تمہاری جان محفوظ۔ تمہاری ننھی سی بیٹی تمہاری گود میں موجود۔ بس یہی سرمایہ ہے۔ کوئی ضرورت نہیں رونے کی۔ یہ سبق تھا تمہارے لیے۔ اللہ مہربان ہے، تمہیں اور دے گا۔ محنت سے اپنا کام کرتی رہو۔
آپ بتائیے اس کے بعد کیا ہم رو سکتے تھے؟ دوسرے دن ہم حیدر آباد گئے، چھٹی گزاری۔ بھول گئے ہم ہیرے کا سیٹ، ہیرے کی انگوٹھی، بندے، انگوٹھیاں، ہار۔ سب کچھ بھلا دیا۔
آنے والے وقت نے ثابت کر دیا آپا ٹھیک کہتی تھیں۔ پچیس برس بیت گئے، یہ چوری ایک راز کی طرح ہمارے اور آپا کے دل میں دفن تھی۔ لیجیے آج آپ کو بھی اس میں شامل کیے لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر