حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقیر راحموں اور اس کا اکلوتا مرید ان دوستوں کے ساتھ ہے جو سمجھتے ہیں کہ آجکل حب الوطنی کی محبت میں گندھے جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑ کر بکھر رہے ہیں انہیں چند دن تو اس پارٹی کا ساتھ دینا چاہیے تھا جس نے انہیں پارٹی اور حکومت میں منصبوں سے نوازا۔
فقیر راحموں کو سب سے زیادہ گلہ سابق وفاقی وزیر صحت، پی ٹی آئی اپر پنجاب کے صدر اور ایڈیشنل مرکزی سیکرٹری جنرل عامر کیانی سے ہے۔ یہ وہی عامر کیانی ہیں جو تحریک انصاف کے دور میں سامنے آنے والے پہلے کرپشن سکینڈل کے مرکزی کردار تھے۔
یہ ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے سکینڈل تھا۔ حکومت نے ادویہ ساز اداروں کو 5سے 11 یا 19فیصد تک قیمتیں بڑھانے کی اجازت دی تھی مگر ادویہ ساز کمپنیوں نے 50سے 150 فیصد تک قیمت بڑھادی۔ تب ان سطور میں عرض کیا تھا کہ معاملہ 53کروڑ روپے میں طے پایا ہے۔
روزنامہ ’’مشرق‘‘ پشاور میں شائع ہونے والے کالم میں تفصیل کے ساتھ عرض کیا تھا کہ ادویہ ساز کمپنیوں نے اڑھائی ارب تک ’’سودے‘‘ کے لئے پیسہ جمع کیا لیکن معاملہ 53کروڑ میں طے پاگیا۔ راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ہونے والی ملاقات اور سودے پر ادویہ ساز کمپنیوں کا وفد بھی حیران تھا کہ ’’نادان 53کروڑ پر مان گیا‘‘
اس ملاقات کا ایک لطیفہ یہ بھی تھا کہ 50کروڑ کے ساتھ 3کروڑ الگ سے مانگے گئے نچلے عملے کے نام پر۔
تب مجھے قومی اسمبلی میں موجودہ سرکاری اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بہت یاد آئے۔
راجہ ریاض کا قصہ یہ ہے کہ موصوف نے اپنے خاندانی دھوبی کی غربت بھری درخواست لکھواکر اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے خصوصی امداد منظور کروائی۔5لاکھ کا امدادی چیک بطور امداد جاری ہوا۔ راجہ صاحب نے اپنے خاندانی دھوبی کے 47 ہزار روپے دینے تھے 5لاکھ کا چیک کیش کروایا گیا دھوبی کو ایک لاکھ روپیہ دیا پچھلا حساب بھی ’’صاف‘‘ ہوا اور مدد بھی کردی گئی۔
اب یہ نہ پوچھ لیجئے گا کہ باقی کے 4لاکھ روپے کہاں گئے۔ ظاہر ہے اسی مستحق کو ملے ہوں گے جس نے امداد منظور کرانے کے لئے بھاگ دوڑ کی تھی۔
خیر چھوڑیئے ہم 53کروڑ کی بات کررہے تھے۔ ادویات کی قیمتیں جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مقابلہ میں بہت زیادہ بڑھائے جانے اور 53کروڑ روپیہ رشوت لینے کی کہانی منظر عام پر آئی تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے وزیر صحت کو ان کے منصب سے ہٹاتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا۔
راوی کہتا ہے پھر 25کروڑ روپے ایک مقدس شخصیت کو ان کی ہمدم دیرینہ کی معرفت نذرانہ دیا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ نیب نے عامر کیانی کو کلین چٹ دیدی۔ خان صاحب نے پہلے انہیں پارٹی عہدہ دیا پھر دوبارہ وزیر بنادیا اگلے مرحلے میں ان پر عہدوں کی برسات کردی گئی۔
اب یہی عامر کیانی پارٹی کے ساتھ سیاست کو بھی چھوڑ گئے ہیں ۔
موصوف جب پی ٹی آئی میں بھرتی ہوئے تھے تب بھی ان پر راولپنڈی ضلع کونسل کے حوالے سے دو تین الزامات تھے۔
پچھلے چند دنوں کے دوران برسوں سے سوئی بلکہ گہری نیند سوئی حب الوطنی انگڑائی لے کر بیدار ہورہی ہے خدا لگتی بات ہے ایسے ایسے عظیم محب وطن دیکھنے کو ملے رہے ہیں جن میں سے اکثر درست تلفظ کے ساتھ حب الوطنی بول نہیں سکتے۔
عمومی خیال یہ ہے کہ جن کی حب الوطنی بیدار و بحال ہورہی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی ’’ہجرت رجمنٹ‘‘ کے پیادے ہیں جو حوالدار غلام رسول کی آنکھ کا اشارہ سمجھتے بھالتے ہیں۔
پی ٹی آئی چھوڑ کر تیزی سے حب الوطنی کی شاہراہ پر دوڑنے والے پی ٹی آئی میں بھی خالص جذبہ حب الوطنی کے تحت آئے اور لائے گئے تھے ۔
2018ء کے انتخابات سے قبل کس کو کیسے پی ٹی آئی میں لایا گیا اور بعد میں کیسے صرف دو نمونے عرض کئے دیتا ہوں۔ مظفر گڑھ سے ایک صاحب (ن) لیگ کا قومی اسمبلی کے امیدوار ہونے کا ٹکٹ لے کر گھر جارہے تھے دوران سفر ان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ فون کرنے والے نے بتایا کہ آپ کی صاحبزادی فلاں کالج میں پڑھتی ہے صبح اتنے بجے کالج روانگی اور دوپہر کو واپسی۔ (ن) لیگ کا ٹکٹ چھوڑ کر پی ٹی آئی کا ٹکٹ لے لیجئے۔ امیدوار نے (ن) لیگ کا ٹکٹ چھوڑنے والی بات مان لی لیکن پی ٹی آئی میں شمولیت کی بجائے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا جیت کر تبدیلی پسندوں کا ہم خیال ہوگیا۔ وقت آنے پر بغاوت کردی۔
دوسری مثال آپا فردوس عاشق اعوان کی ہے پی ٹی آئی کی حکومت بن چکی تھی انہیں فون موصول ہوا ’’آج سپہر کی چائے عثمان ڈار کے گھر پیجئے اور تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان بھی کردیں۔ آپا نے تعمیل کی۔
پہلے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات بنیں اور مخالفین خصوصاً سابق جماعت پیپلزپارٹی کے پھٹے چُک دیئے۔ بعد میں کچھ عرصہ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی معاون خصوصی برائے اطلاعات بھی رہیں۔ دونوں بار منصبوں سے ہتک آمیز طریقہ سے ہٹائی گئیں۔ آجکل اللہ جانے کہاں ہوتی ہیں۔
چند ماہ قبل انہوں نے پیپلزپارٹی سے رابطہ کیا تھا رابطہ کار نے پیغام پہنچایا تو جواب دیا گیا ان سے کہیں ’’آپ جیسی باکردار خاتون کرپشن زدہ پیپلزپارٹی پر بوجھ ہوگی بہتر ہوگا آپ اپنی جماعت بنالیں‘‘
ذہن میں درجنوں مثالیں موجود ہیں صرف سیاستدانوں کی نہیں دوسرے لوگوں کی بھی ان میں صحافی بھی شامل ہیں کہ کیسے انہیں فون پر حکم دیا جاتا تھا۔ اسلام آباد کی معروف کال گرلز کو کس نے کن مقاصد کے لئے صحافی بناکر مسلط کروایا ایک لمبی داستان ہے۔
بس یوں سمجھ لیجئے گھیر کر لانے والوں کا شکنجہ ہلکا ہوا تو حب الوطنی جاگ پڑی ابھی بہت سارے لوگوں کی حب الوطنی کو جاگنا ہے۔ اپنے فواد حسین چودھری بارے دو سال قبل ان کالموں میں عرض کیا تھا کہ موصوف نے تو جے یو آئی (ف) تک سے رابطہ کیا تھا
قبلہ گاہی مخدوم شاہ محمود قریشی دائم برکاۃ طویل عرصہ سے (ن) لیگ سے رابطہ میں ہیں۔ بہت معذرت یہ کیا قصہ لے کر بیٹھ گیا۔ یہاں نظریاتی سیاست کون کررہا ہے جو اصول وصول نظریہ مجریہ دیکھا بھالا جائے۔
طبقاتی جمہوریت میں پارٹیاں بدلی اور بدلوائی جاتی ہیں نظام اور چہرے وہی ہوتے ہیں پرانے گھسے پٹے۔ یہ بھاگنے اور ہجرتوں کا موسم یہاں ہر چار پانچ سال بعد آتا ہے۔ پچھلے پچھتر برسوں کے دوران سب سے زیادہ تجدید اصولی سیاست اور حب الوطنی کی ہوئی۔
آجکل جو ’’اِدھر اُدھر‘‘ ہورہے ہیں انہیں فوجی تنصیبات اور جناح ہائوس پر حملے کا دکھ شدید تر ہے۔ اگلے روز حالیہ سیاسی صورتحال میں بڑے بھائی شجاعت حسین کی جگہ بہنوئی پرویزالٰہی کا ساتھ دینے والے چودھری وجاہت حسین بھی خاندان کو ’’ایک‘‘ کرنے کے لئے پی ٹی آئی چھوڑ گئے۔
دوست محمد مزاری (ن) لیگ کو پیارے ہوئے۔کچھ اور لوگ بھی (ن) لیگ میں جائیں گے۔ کچھ پیپلزپارٹی میں گئے ہیں چند ایک کی گفتگو چی رہی ہے۔ ہمارے پپلے اور نونی دوست کہتے ہیں لوٹا ہوامال واپس مل رہا ہے۔
سب سے دلچسپ قصہ سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کا ہے انہوں نے ایک ذاتی دوست کے ذریعے پی پی پی سے رابطہ کیا۔ آگے سے ظالموں نے ان کا ایک بدنام زمانہ ویڈیو کلپ تحفہ میں دے دیا وہی کلپ جس میں موصوف کہہ رہے تھے کہ
’’جس گھر پر پیپلزپارٹی کا جھنڈا لگا ہوا ہو وہ طوائف کا کوٹھا ہوتا ہے‘‘
راوی کہتا ہے کہ پی پی پی والوں نے رابطہ کار سے کہا ’’ہم نہیں چاہتے کہ پرویز خٹک کے گھر پر پیپلزپارٹی کا جھنڈا لگے اور لوگ اسے طوائف کا کوٹھا سمجھنے لگیں‘‘
( جواب کی تصدیق کیلئے آصف علی زرداری سے رابطہ کیجے ) خیر یہ سیاست ہے یہاں وقتی جذبات ہوتے ہیں لوگ ان جذبات کے اسیر ہوکر ’’چولیں‘‘ مارتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ چولیں مارنے والوں کو (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی والے بھرتی کرتے ہیں یا نہیں۔ فقیر راحموں کافی دیر سے اس بات پر مُصر ہے کہ اپنے مختار ملت سربراہ ایم ڈبلیو ایم قبلہ ناصر عباس جعفری سے پوچھا جائے کہ اب بھی مرگ بر امریکہ کہنا ہے یا امریکی سامراج کے تعاون سے موجودہ یزیدی مزاج (بقول ان کے) حکومت کے خلاف جدوجہد کرنی ہے؟
فقیر راحموں تو خیر تمبو کو خیمہ حسینی قرار دینے والی اور والیوں کوبھی ڈھونڈ رہا ہے پتہ نہیں یہ مجاہدین و مجاہدہ اس وقت کہاں تھے جب پولیس زمان پارک کے باہر سے خیمہ حسینی سمیت باقی تمبو اتار رہی تھی۔
اصولی طور پر انہیں جوانیاں لٹانے کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور موقع پر پہنچ کر تمبو کی حفاظت کرنی چاہیے تھی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ