حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقیناً آرمی ایکٹ کے تحت سول افراد کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے اس کی نہ صرف نظیر موجود ہے بلکہ اب تو خود تحریک انصاف کے سینیٹر سید علی ظفر بھی یہ کہتے دیکھائی دے رہے ہیں کہ ’’آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے‘‘۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ آرمی تنصیبات پر حملے کے مرتکب افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق ہی کارروائی کی جاتی رہی ہے۔ یہاں تک بات درست ہے گزشت کالم میں بھی عرض کیا تھا چھائونی کی حدود میں ہوئے وہ واقعات جن سے آرمی تنصیبات متاثر ہوئی ہوں ان کی بنیاد پر مقدمات عموماً آرمی ایکٹ کے تحت درج ہوتے اور مقدمے بھی اسی قانون کے تحت چلتے ہیں۔
عمران خان کے دور میں ایک نوجوان کو جو ریٹائر میجر جنرل کا فرزند تھا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خط لکھنے پر آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی گئی۔ اس دور میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور دانشور ادریس خٹک کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی گئی۔
تب بھی ان کالموں میں عرض کیا تھا کہ مناسب ہوتا کہ اگر ہر دو افراد نے کوئی جرم کیا ہے تو ملکی قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی ہوتی۔ اس وقت تبدیلی پسند ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے پاکستانی تاریخ کے عظیم جمہوریت پسند آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی محبت میں گرفتار کوئی شخص ڈھنگ کی بات سننے کو آمادہ نہیں تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ محض اس لئے 9اور 10 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی حمایت کی جائے کہ ان کا تعلق تحریک انصاف اور عمران خان سے ہے؟ میری رائے میں فقط اس وجہ سے حمایت یا مخالفت درست نہیں ہوگی۔
تاریخ و سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے میں آپ کے سامنے چند باتیں رکھنا چاہتا ہوں اولاً یہ کہ پاکستانی نظام انصاف کی آتما رُلی ہوئی ہے پسندوناپسند پر فیصلے اور عاشقیوں نے جس طرح اس نظام انصاف کو اس کی اصل حالت میں چوک پر لاکھڑا کیا اس کے بعد اس پر کون اعتماد کرے گا سوائے محبوبین اور رشتے داروں کے۔
لیکن یہ واحد وجہ بھی ایسی نہیں کہ ہم کہیں کہ چونکہ عدالتی نظام ۔ انصاف کے حوالے سے اپنی ساکھ کھوچکا ہے اس لئے 9اور 10 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آرمی ایکٹ کی دفعات شامل کرکے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ اب تو تحریک انصاف کے ایک رکن جو آجکل صدر مملکت ہیں ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اعتراف کرلیا ہے کہ ’’عمران دور کی ملٹری کورٹس غلط تھیں‘‘۔
ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ہماری رائے میں پہلے اس امر کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں کہ مشتعل مظاہرین شہری حدود سے کینٹ کی حدود میں بلاروک ٹوک داخل کیسے ہوئے۔ یہ بچوں والی کہانی ہے کہ اپنے لوگوں پر تشدد اور گولی چلانے سے گریز کی پالیسی اپنائی گئی۔
یہ چورن کہیں اور فروخت کیا جائے کیونکہ جواب میں پچھلے دس بارہ برسوں کے درجنوں واقعات پیش کئے جاسکتے ہیں جب اپنوں پر جیٹ طیاروں کے ذریعے بمباری کی گئی۔ میں اس زہریلے تعصب کو بھی اپنی تحریر کا حصہ نہیں بنانا چاہتا کہ لاہور اور راولپنڈی میں مظاہرین کے خلاف اس لئے کارروائی نہیں کی گئی کہ مظاہرین پنجابی تھے۔ پشاور میں کارروائی سے گریز کی وجہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئے بعض آپریشنوں کے واقعات کا اعادہ نہ ہونے دینے کی سوچ کارفرما تھی۔
بنیادی بات یہ ہے کہ تحقیقات ہونی چاہئیں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں کیا نقائص تھے کہ ہجوم عسکری عمارتوں اور جی ایچ کیو کی دہلیز تک پہنچ گیا اوراس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
سادہ انداز میں کہوں تو یہ کہ جب تک اندروین سہولت کاری والی منصوبہ بندی اور کرداروں کو سامنے نہیں لایا جاتا صرف سویلین کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی سے مثبت کی بجائے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ عرض کرنا مجھ قلم مزدور کے لئے ممکن نہیں۔
بار دیگر عرض ہے بہت زیادہ تحفظات ہیں تو لاہور پشاور راولپنڈی میانوالی اور کراچی میں خصوصی ٹربیونلز قائم کرلیجئے۔ یہ ٹربیونلز ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت بن سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ملزمان کو آگے چل کر اپیل کے دو حق ملیں گے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں۔
آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی فوجی عدالتوں میں ہوئی تو اولاً اپیل کا حق محدود ہوجائے گا ثانیاً ماضی کی یہ شکایات ہیں فوجی عدالتوں کے ذمہ داران ملزمان کے وکلاء کو تحمل سے سننے سے گریزاں رہتے ہیں۔
اس سے انکار نہیں کہ جو ہوا وہ اچھا نہیں ہوا۔ حکومت اور ایجنسیاں دعویدار ہیں کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں مضبوط مقدمات اور تفتیش کا عمل ملزمان کو سزا دلوانے میں معاون بنے گا ایسا ہے تو پھر فوجی عدالتوں کی بجائے سپیشل ٹربیونلز بنالیجئے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ڈیفنس آف پاکستان رولز (ڈی پی آر) کے تحت بننے والے سپیشل ٹربیونلز کی سربراہی سیشن جج کے منصب کے حامل جج کو حاصل ہوتی ہے اور ایک مجسٹریٹ اس ٹربیونلز کا رکن۔ اس ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جو عمومی ماحول بن چکا یہ بھی اس امر کا متقاضی ہے کہ ملکی قانون (بلاشبہ آرمی ایکٹ بھی ایک قانون ہے) کے تحت ہی 9اور 10مئی کے واقعات کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہو تاکہ کوئی شخص یا طبقہ اسے منفی رنگ دے کر مخصوص مقاصد کے لئے بے سروپا پروپیگنڈہ نہ کرنے پائے۔
یہاں آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل اور اس کی مخالفت کرنے والے دونوں فریقوں سے درخواست ہے کہ دلیل سے اپنا موقف پیش کیجئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اصل مجرم عام شہریوں اور نوجوانوں کو اشتعال دلاکر چھائونی کی حدود تک لے جانے والے ہیں انہیں طبقاتی جمع بندی کی رعایت ہرگز نہیں ملنی چاہیے اسی طرح ان کھلے چھپے سہولت کاروں کا معاملہ ہے ان پر بھی مقدمات چلنے چاہئیں تاکہ لوگ جان تو سکیں کہ اصل میں ہوا کیا۔
کیا یہ واقعات کسی ایسے پرتشدد انقلاب کے پروگرام کا حصہ تھے جو برپا ہونے سے پہلے ٹھس ہوگیا؟ 9اور 10مئی کے واقعات کے ذمہ داران سب کے سامنے ہیں۔ ٹھوس شواہد اور دستاویزاتی و الیکٹرانک ثبوتوں کے دعوے حکومت وغیرہ کررہے ہیں۔ سہولت کاروں پر ابھی پردہ پڑا ہوا ہے ان حالات میں مناسب ترین ترتیبی عمل یہ ہوگا کہ پہلے سہولت کاروں کے چہروں سے نقاب اٹھایا جائے۔
دوسرے مرحلہ میں تمام دستیاب شواہد و ثبوت سامنے لائے جائیں۔ دونوں کام کرنے کے بعد مقدمات چلائے جائیں گے تو بہتر رہے گا۔ اب آیئے کالم کے آخری حصے میں ، مزید دو باتیں کرلیتے ہیں۔ پہلی یہ کہ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ
’’پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دینے کے لئے ثبوت موجود ہیں فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی‘‘۔ ہماری رائے میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی مسئلہ کا حل نہیں جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کارروائی مسئلہ کا حل ہے۔
البتہ حالیہ واقعات میں 4شہروں پشاور، لاہور، راولپنڈی اور کراچی میں افغان مہاجرین کے ملوث ہونے کے جو ثبوت ہیں انہیں میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لایا جائے اور بلاتاخیر شہری علاقوں میں آباد افغان مہاجرین کو نکالا جائے۔ دوسری بات تحریک انصاف کے جذباتی ہوئے لوگوں کے لئے ہے۔ انہیں تحمل کے ساتھ غور کرنا ہوگا کہ وہ کل کی طرح آج بھی تنہا کیوں ہیں؟
کل اس لئے تنہا تھے کہ انہوں نے انتہا پسندانہ رویہ اپنایا تب وہ اپنے مربیوں کی بین پر مست الست واہی تباہی کو نئی سیاسی اخلاقیات کے طور پر پیش کررہے تھے۔
حالانکہ ان سے عرض بھی کیاجاتا رہا کہ یہ رویہ سیاسی و سماجی اخلاقیات کے منافی ہے لیکن ان کا جنون تھا کہ وہ سچے ہیں ان کا لیڈر صادق و امین ہے۔
وقت نے ثابت کیا کہ وہ غلط تھے ان کا لیڈر بھی صادق و امین نہیں۔ جس شخص نے اسے صادق و امین قرار دیا تھا اس کی اپنی صداقت اور منصفی پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور چہرہ کرپشن و اقربا پروری سے سیاہ پڑچکا۔
یہ دوست اب بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ پارہے کہ سیاسی جدوجہد اور لٹھ بازی و دشنام طرازی میں بہت فرق ہے۔ پہلے اس فرق کو سمجھنے شعوری کوشش کیجئے تاکہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرپائیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ