عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بھائی رانا شرافت وسطی پنجاب کے اُن انگلیوں پر گنے جانے والے سیاسی کارکنوں میں سے ایک ہیں جن کو دیکھ کر سیاست پر ایمان باقی رہتا ہے-
انھوں نے سیاست کو افسانہ، ٹیبل اسٹوری، کہیں سے آنے والے اسکرپٹ سے لی گئی کہانی، کلیشے، اخبار کی لیڈ ہیڈلائن یا سُپر ہیڈ لائن اور چیختے چنگھاڑتے الیکٹرانک نیوز چینل کی لائن یا پھر کرائے کے پروموٹر سے سوشل میڈیا پر وائرل یا ٹرینڈ بنائی گئی چیز سے ہٹ کر حقیت سے قریب تر بیانیہ اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھا-
وہ پاکستان کی ہئیت مقتدرہ جس میں منتخب اور غیر منتخب دونوں شامل ہیں میں "عوام دشمن” گروہوں کے "بیانیوں” کی ردِ تشکیل کرتے ہیں اور اس قدر مدلل طریقے سے کرتے ہیں کہ اکثر کو لاجواب کردیتے ہیں –
پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی کارکنوں اور ہمدردوں کو اکثر یہ پریشانی لاحق رہی کہ اُن کا مقدمہ لڑنے کے لیے انھیں لائق فائق سیاسی وکیل میسر نہیں آتا اور پیپلزپارٹی کے جو آفیشل ترجمان ہوتے ہیں وہ "ٹھس” ہوتے ہیں لیکن رانا شرافت علی ایڈوکیٹ نے رضاکارانہ طور پر پی پی پی، بھٹوز کا مقدمہ اتنے شاندار طریقے سے لڑا ہے کہ انھوں نے اکیلے بہت بڑی فوج کا کردار ادا کیا ہے –
رانا شرافت علی ایڈوکیٹ نے وسطی پنجاب میں شاندار طریقے سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا، وہ طالب علمی کے زمانے میں قصور میں نمایاں طالب علم رہنماء بنکر ابھرے، انھوں نے ضلع کونسل کا الیکشن لڑے کامیاب ٹھہرے اور پھر پیپلزپارٹی کو ضلع قصور میں بلندیوں پر لے گئے اور تو اور اگر وہ چاہتے تو 1993ء میں قصور سے صوبائی اسمبلی کے حلقے کا ٹکٹ آسانی سے لے لیتے لیکن انھوں نے کسی سے کیے گئے وعدے کی پاسداری کی –
پھر وہ قانون دان بنے اور ٹاپ پر پوزیشن لیکر سول جج بنے، قانون پر اُن کی مہارت کا لوہا اُن کے دوست دشمن سب مانتے ہیں – یہاں اُن کے پاس موقعہ تھا وہ عدالتوں میں بیٹھے کینگروز کے ساتھ مل کر اس ملک میں جمہوریت، آئین و قانون کی بالادستی کو "بوٹ والوں” اور اُس کے لاڈلوں کے سپرد کردیتے اور سب سے بڑھ کر اُس زمانے کے سب سے طاقتور لاڈلے نواز شریف کے ہاتھوں اپنا "ضمیر” گروی رکھ دیتے تو آج یقینی بات تھی وہ ہائیکورٹ میں جسٹس بنے بیٹھے ہوتے اور وہاں سے سپریم کورٹ جاتے اور "اربوں” میں کھیل رہے ہوتے – لیکن انہوں نے اُس زمانے کا دوسروں کے نزدیک "انتہائی بیوقوفی” پر مبنی فیصلہ کیا اور وہ پیپلزپارٹی اور بھٹوز کے کیمپ میں ہی کھڑے رہے –
عدالتی اسٹبلشمنٹ میں جو رجحان مقبول تھا اُس کے خلاف رہے اور "جیالا جج” مشہور ہوگئے – وہ سلطنت شریفیہ کے پاکھنڈوں کو سربازار ننگا کرنے لگے، اُن کا یہ کمال اُن کے نقص کی بجائے ایک اثاثہ پھر بن سکتا تھا جب پاکستان کی سب سے منظم طاقتور سیاسی پارٹی اسٹبلشمنٹ کے غالب دھڑے نے عمران خان کو نیا لاڈلہ چُنا اور پرانے لاڈلے کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر پرانے لاڈلے کے خلاف ایک محاذ تشکیل دیا، پیشکشیں ہوئیں، شرافت رانا بہت بڑا "اثاثہ” بن سکتے تھے، جس سابقہ لاڈلے کے خلاف اُن کی رد تشکیل نے اُن کو انتہائی غیر منصفانہ طریقے سے جوڈیشری سے نکال باہر کیا تھا اور انھیں بے روزگار کرڈالا تھا، اُسی رد تشکیل کو لیکر انھیں بس یہ کرنا تھا کہ وہ "نئے لاڈلے” کو "مہاتما” اور ” تبدیلی کا استعارہ” بناکر پیش کرتے، وہ بھٹو، بے نظیر کو پیشکش اپنے لیڈر کہتے رہتے مگر موجودہ پیپلزپارٹی کو بس "قصہ پارینہ” قرار دیتے اور نئے لاڈلے اور اُس کی جماعت کو "پیپلزپارٹی” قرار دینا شروع کردیتے تو انھیں چھین لیے گئے سرکاری منصب واپس ملتے، رُکا ہوا ترقی کا سفر پھر شروع ہوجاتا – لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا-اس دوران یہ بھی آپشن تھا کہ وہ سابق لاڈلے کو "بدلا ہوا شخص” قرار دے کر اُسے حقیقی اینٹی اسٹبلشمنٹ، پارلیمنٹ کی بالادستی کا حقیقی علمبردار قرار دیتے ہوئے بھاری مشاہرے اور مراعات پانے والے کمرشل لبرل مافیا کا حصہ بن کر پاکستان کے ٹاپ کے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر تجزیہ نگار بن جاتے اور ہمیں جیو نیوز، ڈان نیوز جیسے بڑے گروپوں سے وابستہ دکھائی دیتے لیکن وہ پاکستان کی حقیقی سوشل دیموکریٹک سنٹر لیفٹ عوامی سیاست کی وارث سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی کھڑے رہے – پنجاب کی سطح پر یہ ایک غیر مقبول فیسلہ اور وقت کے دھارے کی مخالف سمت تیرنے جیسا ہے – اس کی بہت بڑی قیمت انھیں ادا کرنی پڑ رہی ہے –
اُن کی اپروچ اور اُن کا اندازِ بیاں اور بے پناہ وفور تخلیق اور اُن کی صلاحیتیں پنجاب میں عمرانی اور نوازی دونوں رجعتی کیمپوں کے لیے ہی پریشانی کا سبب نہیں ہیں بلکہ پیپلزپارٹی میں گھسے بیٹھے ضیاءالحقی بھوتوں اور چڑیلوں کے لیے بھی وہ امیر حمزہ کی کہانیوں میں ویسے بھوتوں اور چڑیلوں کے لیے موت کا پیامبر بننے والے شہزادے بنے ہوئے ہیں، وہ پوری طاقت سے اُن کا راستا کھوٹا کرنے کی کوشش کررہے ہیں –
پی پی پی کے پورے ملک میں پھیلے ہوئے عام کارکن، ہمدرد، نوجوان جیالے اُن سے شدید محبت کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے وہ پاکستان کی سیاست، صحافت، عدلیہ سمیت ہر ایک اہم حصے کی حرکیات کو سمجھنے لگے ہیں – انھوں نے حقیقی جمہوری سیاست اور مصنوعی، بناوٹی، جعلی اور غیر حقیقی بیانیوں پر استوار سیاست کے درمیان فرق بہت اچھے سے سمجھنا شروع کردیا ہے-
اُن کا جنم دن پر فیض صاحب کا یہ شعر اُن کی نذر ہے:
نہ اِس عشق پر نہ اُس عشق پر نادم مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر