نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان کے ارشادات اور ان سے چند سوالات ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان نے باردیگر ارشاد فرمایا ہے کہ ’’فوج نے جس طرح مجھے پکڑا یہ ردعمل تو آنا تھا‘‘۔ ایک ہی سانس میں متضاد باتیں کہنے کا ملکہ رکھنے والے سابق وزیراعظم لگ بھگ ایک برس سے اپنا بت تخلیق کرنے والے سنگتراشوں پر برہم ہیں۔ اس بت کو زبان دینے و الے اب بھگت رہے ہیں ان سنگتراشوں کے ساتھ ویسے یہی ہونا چاہیے تھا جو ہورہا ہے ،

ایک بات طے ہے کہ لڑائی اب عمران اور فوج کے درمیان ہے۔ تخلیق خالق کے گریبان سے کھیل ہی نہیں رہی بلکہ اس نے گریبان چاک بھی کردیا ہے۔

کیا یہ عمل کسی بیرونی اندرونی مدد کے بغیر ممکن ہے؟ اپنا جواب نفی میں ہے۔ البتہ جن دوستوں (ان میں مذہبی اور دوسرے انقلابی شامل ہیں) کی آنکھوں میں انقلاب اترا ہوا ہے براہ کرم وہ کسی اچھے ماہر امراض چشم کو دیھکالیں ہوسکتا ہے کہ یہ انقلاب کی جگہ کالا موتیا ہی نہ اتر آیا ہو آنکھوں میں۔

چیک کرالینے میں ہرج ہی کیا ہے۔

جسے مسیحا اور تعمیر نو کے لئے ماڈل بناکر پیش کیا گیا تھا وہ بھی تو فاشسٹ ہی نکلا۔ ہمارے بعض انصافی دوست اکثر کہتے ہیں تم صرف عمران خان کے خلاف لکھتے ہو۔ وہ جنہوں نے 30سال اقتدار میں رہ کر ملک برباد کیا ان کے بارے میں نہیں لکھتے۔ میں انہیں کیسے سمجھائوں کہ میں پچھتر برسوں سے اس ملک کو مختلف طریقوں اور تجربوں سے برباد کرنے والوں کے خلاف نصف صدی سے مسلسل لکھ رہا ہوں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی محبت آپ کے نزدیک اپریل 2022ء تک صرف "نیک ماں باپ کی اولاد کو نصیب ہوتی تھی” ۔

اب پتہ نہیں نیک ماں باپ سارے فوت ہوگئے کہ انہوں نے بچے پیدا کرنا چھوڑدیئے۔

ہم پہلے بھی اس ملک کو سکیورٹی اسٹیٹ سمجھتے لکھتے تھے اب بھی رتی برابر اس موقف اور فہم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ خیر چھوڑیں انصافی دوستوں سے نوک جھونک چلتی رہے گی۔ فی الوقت ہم اس پر بات کرتے ہیں کہ کور کمانڈر کانفرنس میں حالیہ واقعات میں ملوث بلوائیوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

جمہوریت اور شہری آزادیوں کو ایمان کا مرکزی نکتہ سجھنے والے مجھ ایسے قلم مزدور کے نزدیک اصولی طور پر یہ درست نہیں ہوگا اگر ایسا ہوا تو پھر مسلح جتھوں کی بھل صفائی کے لئے آپریشن ضرب عضب کی منظوری اور اس کی تحسین کرنے والوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ یہ تجربہ بھی تو انہی کا ہی ہے اس کے مضمر ثمرات کا علاج اور کیسے ہوسکتا ہے یہ خالق کو زیادہ بہتر پتہ ہوتا ہے۔

البتہ سادہ بات یہ جو مجھے سمجھ میں آرہی ہے وہ اس ملک کے عدالتی نظام کی کمزوریاں اور ’’مشنِ تازہ محبتِ عمرانی ‘‘ ہیں۔ فوجداری قانون کی تاریخ میں پہلی بار دو عجیب کام ہوئے پہلا یہ کہ ریمانڈ پر موجود ملزم کو مہمان خصوصی کے طور پر سپریم کورٹ لے جایا گیا۔ عدالت نے گرفتاری غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ملزم کو اگلی صبح گیارہ بجے تک اپنے مہمان کے طور پر پولیس لائن کے ریسٹ ہائوس میں رکھنے کا حکم دیا۔ پھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس پر ضمانتوں کی برسات کردی ان مقدمات میں بھی ضمانتیں عطا کردیں جو درج ہی نہیں ہوئے تھے بلکہ جس مقدمے میں درخواست ضمانت دائر ہی نہیں ہوئی تھی اس میں بھی ضمانت لے لی۔

ان حالات میں عاشقوں کی بارات کا علاج کیسے ہوگا؟ آپ اس سوال پر غور کیجئے۔ ہمارے جن صحافی دوستوں کو آج کل شہری آزادیوں کا وارے کا بخار چڑھا ہوا ہے انہوں نے پچھلی حکومت کے پونے چار برسوں میں شہری آزادیاں پامال ہونے پر لب کشائی نہیں کی بلکہ ان میں سے ایک نے تو ’’کسی‘‘ کی خوشنودی کے لئے بلاول بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں نامزد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن جب اس قتل کی حقیقت عیاں ہوئی تو بے شرمی کی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئے۔

معاف کیجئے گا یہ ذکر یونہی یادوں کی دستک کی بدولت ہوگیا ہمارا موضع اور ہے۔ چند دن ادھر خان صاحب نے غصے سے چیختے ہوئے کہا ’’آئی ایس پی آر صاحب جب تم پیدا ہی نہیں ہوئے تھے میں تب اس ملک کی خدمت کررہا تھا‘‘۔ خان صاحب سے مودبانہ درخواست ہے سال پیدائش کا پتہ کرلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وہی سال ہو جب انہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کی پشت میں چھرا گھونپتے ہوئے کیری پیکر کرکٹ جواء لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔

کم لکھے کو زیادہ سمجھا جاوے کے اصول پر اس بات کو یہیں ختم کئے دیتے ہیں۔ خان صاحب دلچسپ آدمی ہیں کل سوموار 15مئی کو انہوں نے دو باتیں کیں پہلی یہی جس کا ذکر ابتدائی سطور میں کیا کہ ’’فوج نے جس طرح مجھے پکڑا یہ ردعمل تو آنا ہی تھا‘‘ دوسری بات اس سے بھی دلچسپ ہے اپنے ویڈیو خطاب میں فرمایا کہ توڑپھوڑ جلائو گھیرائو اور فائرنگ ایجنسیوں کے لوگوں نے کی میرے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں۔ یہ بھی کہا کہ اگر آزادانہ تحقیقات ہوں تو میں ثبوت سامنے لے آئوں گا۔

فقیر راحموں کا گمان یہ ہے کہ خان صاحب رجب طیب اردگان، ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی پر مشتمل ایک آزاد عالمی کمیشن کے قیام سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ یا پھران کے لئے ان کے پسندیدہ ججز پر مشتمل کمیشن بنادیا جائے۔

ایک طرح سے تو خان صاحب نے بلوائیوں کو ایجنسیوں کے اہلکار قرار دے کر دامن جھاڑ لیا ہے۔ اب ان سے یہ پوچھنا فضول ہی ہوگا کہ بلوے کو ہوا دینے اور حملوں پر اکسانے والی تقاریر کرنے والے پی ٹی آئی کے بعض مردوزن رہنمائوں کی جن کی تقاریر کی ویڈیوز موجود ہیں انہیں بھی ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈالنا ہے یا ان کی گرفتاری کی مذمت کرنا ہے؟

پچھلے چالیس پچاس برسوں سے جو لوگ عمران خان کو جانتے ہیں وہ انکار نہیں کرسکتے کہ محسن کشی ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اس کا آغاز ماجد خان سے کیجئے یا کہیں اور سے ہر قدم پر ان کی محسن کشی کے جھنڈے گڑے ہوئے ہیں۔

آپ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مثال لے لیجئے۔ ماضی میں وہ کیسے کیسے "فضائل باجوات” بیان کیا کرتے تھے۔

عموماً ان سطور میں سوشل میڈیا پر گردش کرتی تحریروں اور واٹس ایپ دانشوری کے اقتباسات دینے سے گریز کرتا ہوں لیکن پچھلی شب کی ایک تحریر کے چند اقتباسات تبرکاً پیش کرنا ضروری ہیں۔ لکھنے والے نے لکھا ہے

’’اپنے بچوں کے بارے میں سوال پوچھے جانے پر مسکینوں والا منہ بناکر کہتا ہے وہ برطانوی قانون کے مطابق اپنی ماں کے پاس مقیم ہیں لیکن یہاں دوسروں کے بچوں میں نفرت کی آگ بارہ برسوں سے بھر رہا ہے، لوگوں کی بہو بیٹیاں اس کے جلسوں کی رونق بڑھائیں مگر اپنی اہلیہ کو کالی چادر اوڑھاکر سفید چادروں کے حصار میں گھر سے باہر لاتا ہے۔ سب کو چور ڈاکو کہنے والے کا اپنا کوئی ذریعہ روزگار نہیں ماسوائے چندے اکٹھے کرنے کے۔ جس شخص کے پاس بقول اس کے والدہ مرحومہ کے علاج کے لئے پیسے نہیں تھے آج وہ اپنی بہنوں سمیت اربوں پتی ہے۔ ساری زندگی اس نے کرکٹ وغیرہ سے اتنا نہیں کمایا جتنا توشہ خانہ کے تحائف بیچ کر کمایا جسے شک ہو وہ 2018ء سے قبل اور بعد کے ان کے ٹیکس گوشوارے دیکھ لے۔ شوکت خانم ہسپتال کے ہڈی جوڑ ڈاکٹر جوٹانگ 6ماہ میں ٹھیک نہیں کرسکے وہ گرفتاری کے چند منٹ بعد بالکل درست ہوگئی ثبوت کے طور پر سپریم کورٹ میں پیشی کے وقت کی ویڈیو دیکھی جاسکتی ہے۔

اس تحریر میں ایک سوال اور بھی ہے خان صاحب کے لئے ۔ سوال یہ ہے کہ سی پیک کا بیلو پرنٹ ان کے دور میں کس وفاقی وزیر نے امریکہ کو فراہم کیا تھا؟ اسی سوال کا ضمنی سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں سابق وزرائے اعظم کے لئے پروٹوکول میں جو کمی بیشی یہ کہہ کر کی تھی کہ یہ پروٹوکول قوم پر بوجھ ہے اب وہ خود وزیراعظم کے مساوی پروٹوکول کے طلبگار کیوں ہیں اور بعض جج پسریم کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے پروٹوکل دینے کا حکم کیوں دلواتے ہیں‘‘۔

خان صاحب اس تحریر میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے کے پابند ہرگز نہیں۔ لوگوں کا کیا ہے وہ باتیں کرتے رہتے ہیں اور باتیں کرنے کا خود انہیں بھی بہت شوق ہے۔

البتہ ان سے یہ درخواست ہے کہ براہ کرم اپنے لب و لہجہ، زبان دانیوں اور الزام تراشی تینوں پر نظرثانی کریں۔

مان لیتے ہیں انہیں فوج نے اقتدار سے نکالا یہ بھی تو مان لیجئے کہ وہی اقتدار میں لائی بھی تھی حساب برابر ہوا۔ اب فیصلہ انہیں کرناہے کہ سیاسی عمل کا حصہ بننا ہے یا یہی کچھ جو کررہے ہیں۔

اس دوسری صورت میں پھر ان سے جو ہوگا اس پر وہ کسی کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے اپنی ادائوں پر غور کریں یہی بہتر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author