حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوموار کی شام یہ سطور لکھے جانے کے وقت اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر شاہراہ دستور پر حکمران اتحاد و اتحادیوں کے کارکنوں کا احتجاج جاری ہے۔
ایک سیاسی اتحاد جو حکومت میں ہو اسے احتجاجی دھرنا دینے کی ضرورت کیوں آنپڑی ؟ بظاہر اس سوال کا جواب یہی ہے کہ پی ڈی ایم نے عدلیہ کے ’’عمران مہربان گروپ‘‘ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے۔ یہ نوبت کیوں آئی۔
اس پر ایک طقبہ اس میں جج بھی شامل ہیں یہ کہتا ہے کہ لوگ اور سیاسی جماعتیں من پسند فیصلہ چاہتے ہیں۔ دوسرا طبقہ کہہ رہا ہے کہ کچھ مخصوص ججوں نے جس طرح حالیہ چند فیصلوں میں آئین و قانون کی جگہ پسندوناپسند کو مقدم سمجھا یہ اس کا ردعمل ہے۔
میرے خیال میں یہ نوبت نیب کے ریمانڈ میں موجود ایک ملزم کو شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ سپریم کورٹ میں لانے اور پھر آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی کے کلمات سے آئی۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے آئی جی اسلام آباد، اسلام آباد پولیس لائن کے انچارج اور نیب حکام کو ٹیلیفون پر حکم دیا کہ عمران خان کو مرسیڈیز گاڑی میں پروٹوکول کے ساتھ عدالت لایا جائے۔
اس طرح کا حکم قبل ازیں سپریم کورٹ کے رجٹسرار نے کتنے کیسوں اور کتنے ملزمان کے لئے دیا؟ اسی طرح لاہور اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشگی و حفاظتی ضمانتوں کی لوٹ سیل پروگرام اور پھر عدالت کا یہ حکم کہ ملزم کو لاہور اس کے گھر تک حفاظت (یعنی پروٹوکول) سے پہنچایا جائے۔
ہر دو تین واقعات یا یوں کہہ لیجئے باتوں نے جلتی پر تیل ڈالنے والا کام کیا۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے ایک سابق لیڈر (قائد حزبِ اختلاف) سید خورشید شاہ کی گرفتاری لگ بھگ 500ارب روپے کی کرپشن کے الزام میں ہوئی جو بالآخر پانچ سات کروڑ تک آپہنچی تھی ایک سال سے زیادہ عرصہ انہوں نے عدالتوں میں دھکے کھائے ان کے کیس میں سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ نے انہیں ہسپتال میں رکھنے اور سہولتیں دیئے جانے کی خبروں پر نوٹس لیا دونوں عدالتوں میں جج صاحبان نے جو ریمارکس دیئے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ تب ایسا لگتا تھا کہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے متعلقہ بنچوں کے سامنے خورشید شاہ کا کیس نہیں جج صاحبان کے کسی ذاتی دشمن کا کیس زیرسماعت ہے اور ذاتی دشمن سامنے ہو تو بندہ جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا۔
یہ ایک مثال مجبوراً دینا پڑی ایسی کئی مثالیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو انصافی اور غیرجانبداری کے شوقین چند صحافی اپریل 2022ء میں چیف جسٹس بندیال کی عدالت میں بلاول بھٹو سے ان کے نانا اور والدہ کا ذکر کئے جانے کو عمران خان سے چیف جسٹس کے مکالمہ اور خوشی کے اظہار کو یکساں طور پر پیش کررہے ہیں ان کی خدمت میں سترہ توپوں کی سلامی پیش کرنے کے بعد ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا بلاول بھٹو کسی کیس میں بطور ملزم پیش ہوا تھا سپریم کورٹ میں؟
اس وقت سپریم کورٹ کے باہر اجتماع میں دھواں دھار تقاریر کا سلسلہ جاری ہے۔ ادھر پارلیمنٹ میں بھی تقاریر ہورہی ہیں۔ سوموار کی صبح پی ٹی آئی کے ایک منحرف رکن قومی اسمبلی (جو اس وقت سرکاری اپوزیشن لیڈر بھی ہیں) راجہ ریاض نے عمران خان کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ داغا ہے۔
عمران خان کے لئے رتی برابر ہمدردی نہ رکھنے کے باوجود راجہ ریاض کے اس جاہلانہ مطالبہ پر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ
’’منہ متھا نہ چنگا ہووے تاں گل فیر وی چج دی کرنی چاہیدی اے‘‘۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ سپریم کورٹ کے باہر پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا احتجاج غیرضروری ہے۔ وفاق اور دو صوبوں میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومتیں ہیں جن مسائل اور سازشوں کا بہتر علاج پارلیمنٹ میں کیا جاسکتا ہے ان کے لئے جلسہ و جلوس یا دھرنے کی ضرورت نہیں۔
ممکن ہے یہ ضرورت اس لئے محسوس کی گئی ہو کہ چند ججز یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سمیت پورا عالم اسلام عمران خان کے ساتھ ہے اس لئے انہیں بتایا دیکھایا جانا ضروری ہو کہ رشتوں تعلقات اور "محبوبیت” کی فضا سے باہر نکل کر بھی صورتحال کو دیکھیں۔
دوسری صورت وہی ہوسکتی ہے جو قبل ازیں عرض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے اندر امریکہ اور چین کے مفادات پر ہوئی گروہ بندی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ حالیہ واقعات سے قبل امریکی سفیر کی دوبار تحریک انصاف کے نائب صدر اور سابق وزیر اطلاعات و قانون فواد حسین چودھری سے رات کے وقت ان کے گھر پر ملاقات، برطانیہ کے سفیر اور چند امریکی و یورپی وفود کی عمران خان سے ملاقاتوں کے بعد اس حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ
معاملہ عمران کی گرفتاری کا نہیں بلکہ طے شدہ منصوبے پر عمل کا ہے تو اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ نواز گروپ نے عمران کے لئے موجود پی ڈی ایم حکومت کے بعض افراد میں نفرت کو مہارت کے ساتھ استعمال کیا اور وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے کامیاب بھی رہا۔
عسکری عمارتوں پر حملے سے چین کو غیرمحفوظ پاکستان کا جو پیغام دیا جانا تھا دیا جاچکا۔
اب کیا حکومت اور ’’دیگرز‘‘ ایسی حکمت عملی اپناپائیں گے جس سے امریکی دودھ پر پلتے سانپوں کا پھن کچلا جاسکے؟
سوموار کو پنجاب الیکشن کیس کی بھی سپریم کورٹ میں سماعت تھی یہ سماعت ہوئی چند نوٹسز کے اجرا کا حکم۔ کچھ جذباتی باتیں، مذاکرات کا مشورہ پھر سماعت ملتوی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور چند وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا باہر دیکھیں کیا حالات ہیں۔
اٹارنی جنرل سمیت کسی نے یہ نہیں کہا بندہ پرور یہ حالات آپ کے پیدا کردہ ہیں۔ مذاکرات پر زور آئین کی کس شق کے تحت سپریم کورٹ کا اختیار ہے؟
جس بات کو عدالت میں اٹارنی جنرل اور دیگرز کرنے سے گھبرارہے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکشن کیس کی بنیاد بننے والا ازخود نوٹس ہائیکورٹس کے معاملات میں سپریم کورٹ کی مداخلت تھی۔ اسی طرح نیب کے ریمانڈ میں موجود ملزم کی رہائی کا حکم بھی نچلی عدالتوں کے فیصلوں پر جھرلو پھیرنے کا عمل۔
یہ معاملہ ہائیکورٹ اور نچلی متعلقہ عدالت میں زیرسماعت تھا۔ عدالت کو 50 ارب روپے کی کرپشن کے الزام میں گرفتار ایک ملزم سے ایسی کیا محبت تھی کہ سارے قاعدے قوانین روند ڈالے گئے؟ کیا چیف جسٹس یہ نہیں سمجھ پائے کہ ان کے اس فیصلے سے اس آڈیو لیک کے درست ہونے کی ازخود تصدیق ہوگئی جس میں دو خواتین ان میں ایک ان کی خوش دامن ہیں عمران خان پر مقدمات اور سپریم کورٹ کے ججز کا نام لے کر گفتگو میں کہہ رہی ہیں کہ میں نے تو ’’اسے‘‘ کہا ہے۔ یا کہ "وہ بدخت مارشل لاء بھی تو نہیں لگارہے” ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ چند فیصلوں سے نہ صرف اپنی ساکھ پر سوالات اٹھوائے بلکہ اپنے ’’محبوب‘‘ کے مخالفین کو سپریم کورٹ کے باہر آکھڑا ہونے کی راہ بھی دیکھائی۔
مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ پی ڈی ایم کا اجتماع ہو یا دھرنا، حکومت کی کمزوری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ نے عمران کے مقدمات میں اس کی عوامی حمایت کا جو تاثر دیا یہ اس کا سادہ جواب ہے۔ اب کیا ہوگا۔ یہ سوال ہے جو سوموار کی صبح سے لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں۔
طاقت ور اداروں کی لڑائی شخصی محبت کا نتیجہ ہے۔ کم از کم میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں یہ امریکی چینی کیمپوں کی لڑائی ہے۔ سپریم کورٹ پہلی بار سیاسی مقاصد کے ایجنڈے کے ساتھ نہیں۔ ماضی میں بھی سیاسی ایجنڈے پر عدالتی فیصلوں کے ذریعے عمل ہوا کروایا گیا۔
قریب ترین کی مثال نوازشریف کے مقدمے کا فیصلہ ہے۔ بہرطور پی ڈی ایم والے سپریم کورٹ کے باہر سے آسانی کے ساتھ ٹلتے دیکھائی نہیں دیتے۔ عمران خان بھی اپنے حامیوں کے سپریم کورٹ یا یوں کہہ لیں چیف جسٹس کی حمایت میں سڑکوں پر لانے کا اعلان کرچکے ہیں دیکھتے ہیں کس کی چونچ اور کس کی دُم اس لڑائی میں گم ہوتی ہے۔
پسِ نوشت:
پی ڈی ایم کا دھرنا ختم ہوگیا مولانا فضل الرحمن کی اختتامی تقریر کے بعض الفاظ جس طرح سوشل میڈیا پر نقل کیئے جارہے ہیں وہ اگر درست ہیں تو یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پھر پی ڈی ایم یعنی پاکستان ڈیموکریٹ اتحاد کا نام تبدیل کرکے انجمن دفاع عقائد جے یو آئی رکھ دیا جانا چاہئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ