نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ کے عظیم صوفی شاعر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کا شعر ہے
اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو عقل چھین لیتا ہے
اور ایسے راستے پر گامزن کرتا ہے جو خسارے کا راستہ ہوتا ہے۔
ہم نے ججوں کا وحشیانہ رقص 4 اپریل 1979 کو بھی دیکھا تھا جب ججز جلاد کا روپ دھار کر ناچ رہے تھے، ایک عدالتی رقص اب دیکھ رہے ہیں جج ننگے ہوکر ناچ رہے ہیں، بہت ساروں کے لاڈلے عمران نیازی سندھ کے عوام کے ساٹھ ارب روپوں کی چوری میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے نیب نے انہیں گرفتار کیا تھا عجیب منظر یہ تھا کہ نیب کے زیر حراست شخص کو سپریم کورٹ نے ایک گھنٹے کے نوٹس پر بلایا، لاڈلے ملزم کو سپریم کورٹ میں لانے کیلئے مرسڈیز گاڑی کا حکم دیا گیا، لاڈلے ملزم کو ججز کے زیر استعمال گیٹ سے لایا گیا اور وہ ریڈ کارپٹ پر چل کر سپریم کورٹ میں آئے جہاں تین رکنی بنچ منظر تھی ، چیف نے لاڈلے ملزم کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور نیک خواہشات سے پورے پروٹوکول سے رخصت کیا، پھر اسلام آباد ہاٸی کورٹ کے دو ججز نے بھی عمران نیازی کو ان کی تمنا کے مطابق ریلیف دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہاں تک حکم صادر کیا کہ ان کے لاڈلے کو کسی اور نئے مقدمہ میں گرفتار نہ کیا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ نیازی خان اگر کوئی قتل بھی کرتا ہے تو اسے گرفتار نہ کیا جائے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ہمارے ججز جسٹس منیر سے بھی آگے جانے کیلئے تیار ہیں ۔ مجھے یہ کہنے دیں کہ ہماری اعلی عدالتیں افتخار چوہدری، گلزار اور ثاقب کی باقیات ہیں جو بنگلا دیش ماڈل پر عمل پیرا ہیں، یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ ججوں کی فیملیز عمران نیازی کے جلسوں میں شرکت کرتی ہیں کوئی شک نہیں کہ وہ عمران نیازی کو غیر اصولی ریلیف دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ججز لیئے ہوئے حلف سے انحراف کرتے ہوئے انصاف کو نظر انداز کرتے ہوئے ریلیف کو شرمندگی سے بچنے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرنے میں عیب بھی محسوس نہ کریں۔
معاف کیجئے گا عمران نیازی اس عہد کے حسن بن صبا بھی نہیں کہ لوگ ان کے کہنے پر اپنی گردن اڑائیں بلکہ عمران نیازی ایسی برائی ہے جس کی پرورش ہماری اسٹیبلشمنٹ نے کی ہے اس زہریلے سانپ کو حمید گل سے لیکر جنرل فیض تک دودھ پلاتے رہے ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ آوارہ غنڈے بلا کسی مزاحمت اور رکاوٹ کے لاھور میں جناح ہاوس میں کور کمانڈر کے گھر پہنچ جائیں، گھر کو آگ لگائیں، لوٹ مار کریں اور آسانی سے واپس چلے جائیں کا مطلب یہ ہے کہ کتا چوروں سے ملا ہوا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہو عقل نہیں مانتی ، رہی بات ججز کی تو یہ نوکری اور مراعات کی خاطر آئین شکنوں کے جوتے چاٹ کر اپنی نوکری بچاتے ہیں اور ہر آئین شکن انہیں ٹائلٹ میں استعمال ہونے والے ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے مگر جمہوریت کے دور میں وہ بھیڑئے بن کر سامنے آتے ہیں۔ آخر کیا ماجرا ہے کہ سپریم کورٹ عوام کی منتخب پارلیمنٹ پر تو حملہ آور ہونے کیلئے تیار ہوتی ہے۔
سندھ کے نمک حلال بیٹے کے ناطے میرا سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ سے سوال ہے کہ سندھ کے لوٹے ہوئے ساٹھ ارب روپے میں سے کتنی رقم تمہارے حصے میں آئی ہے؟ اگر تمہیں اپنی عزت کا خیال نہیں تو ہم بھی تمہاری عزت کرنے کے پابند نہیں تمہارے چہرے اور وجود پر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے خون کے نشانات صاف نظر آتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر