عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی پی پی کی قیادت اپنا "سیاسی بیانیہ” چیک کرے اور پھر پارٹی کی پارلیمانی ترکیب اور پارٹی کی تنظیمی ترکیب کو دیکھے….. یہ روایتی سٹیٹس کو برقرار رکھنے والے بیانیہ کے ساتھ ساتھ ظالمانہ حد تک پارلیمانی پارٹی اور پارٹی تنظیم دونوں کے ڈھانچے کو اشرافیہ کے کلب تک محدود رکھے ہوئے ہے اور اس میں جن چہروں کو متوسط اور نچلے طبقات کے نمائندہ چہرے دکھاکر پیش کیا جاتا ہے وہ سب کے سب اشرافیہ کلب کی ہاں میں ہاں ملانے والے ہیں وہ پارٹی کے عام کارکن اور عام آدمی کی ترجمانی کرنے والے ہرگز نہیں ہیں، اُن میں سے کوئی ایک بھی پارٹی کی تنظیموں کے اندر انتخابی جمہوریت کی مانگ نہیں کرتا اور نہ ہی وزیروں و مشیروں کو اور حکومت کو پارٹی تنظیموں کو جواب دہ بناتا ہے – پارٹی اسٹیٹس کُو کو توڑنے کی بجائے اُس اسٹیٹس کُو کے اسٹیل ہولڈر جو اشرافیہ ہی ہیں کے ساتھ مسلسل مفاہمت کی پالیسی چلانے پر زور دے رہی ہے، پارٹی کی یہ پالیسی جب کارکنوں کی سمجھ میں نہیں آرہی تو نئی نوجوان نسل کو کیسے سمجھ آئے گی؟
مخدوم، گیلانی ، قریشی ، راجے، مہاراجے، فلاں ریٹائرڈ جنرل و فلاں ریٹائرڈ چیف، فلاں ہیوی ویٹ اور فلاں منحرف یہ سب تو پارٹی پالیسی سے منافع اٹھارہ ہیں لیکن طالب علموں، مزدوروں، کسانوں، شہری و دیہی غریبوں کے لیے اس پالیسی میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے چند خیراتی اعمال کے….. پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب میں کنگلے ہوجانے کے قریب گیلانیوں کو دوبارہ سے اشراف کلب میں طاقتور ہونے کا موقع فراہم کیا لیکن گیلانیوں اور مخدوموں کو پیپلزپارٹی کا مالک بناکر جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کو کتنا فائدہ ہوا؟ جو ترقی کی اور جو قد کاٹھ گیلانیوں نے پی پی پی کی وجہ سے حاصل ہوا اُس کا عکس پیپلزپارٹی کی تنظیمی ترقی اور ووٹ میں اضافے کی شکل میں دیکھنے کو کیوں نہیں مل رہا؟ جام پور میں ہزاروں ووٹ وہ پی ٹی آئی کو پڑا جن کے باپ دادا اور وہ بہت سارے خود پی پی پی کے ساتھ کھڑے رہے تھے، کیوں؟ یہ سوال زرا گیلانی اور مخدوم کے سینئر قائدیں اور اُن کی اولاد جونئیر لونڈے مگر پی پی پی کے وہ قد آور سیاست دان بنے بیٹھے ہیں سے پوچھیے، جن کی پی ڈی ایم کی حکومت میں پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے اور ان گیلانیوں اور مخدوموں کی نوجوان نسل جنھیں پی پی پی کی اگلی صفوں میں بٹھاکر کارکنوں کو ان کے قدموں میں بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے کردار کے لحاظ سے بھی گندے اور کام کے لحاظ سے بھی نکمے ہیں، ایسے میں پنجاب اور سرائیکی بیلٹ میں پی پی پی کیسے مقبول سیاسی جماعت بن سکے گی؟
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر