ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوویت یونین میں یوری اندروپوو کے خواب کو تعبیر دیے جانے کی خاطر میہائیل گورباچوو پیری ستروئیکا یعنی تعمیر نو کا عمل شروع کر چکے تھے جنہوں نے پہلے ہی افغانستان میں سوویت فوجی دستوں کی موجودگی اور وہاں ہو رہی امریکہ کی پراکسی وار کو ”رستا ہوا زخم“ قرار دے دیا ہوا تھا۔ امریکا کے پروپیگنڈا کرنے والے مجلے ”ٹائم“ اور ”نیوزویک“ اپنے ٹائیٹل پیج پر جناب گورباچوو کی تصاویر چھاپ رہے تھے جو سابق ناکام اداکار اور تب امریکا کے انتہائی کامیاب صدر رونالڈ ریگن کے ساتھ تزویراتی ہتھیاروں میں تخفیف کیے جانے سے متعلق مذاکرات کر رہے تھے۔
بعد کی دستاویزات میں جو کچھ درج ہوا، وہ اپنی جگہ لیکن ایک وعدہ زبانی ہوا تھا کہ نیٹو اپنی موجودگی کو جرمنی سے آگے ہرگز نہیں لے جائے گی۔ روسی ویسے کم کائیاں نہیں، مستزاد یہ کہ گورباچوو ویسے بھی یوکرینی النسل ہیں جن کا زیرک پن مشہور ہے کم از کم روسیوں میں مگر انہوں نے نہ جانے کس خوش فہمی میں یا کس غلط فہمی کے سبب اس زبانی وعدہ پر اعتبار کر لیا۔ پھر پے در پے ایسے واقعات ہونے لگے تھے جن کا ہونا ایک بڑی حد تک اچنبھا تھا۔
ان کے خیال میں برائی اور اچھائی، رحم اور ظلم ایسے متضاد عوامل بارے سوچنا محض نرم مزاج دانشوروں کا کام ہوتا ہے جب کہ حکمرانوں کا کام منفی اور مثبت عوامل میں توازن قائم کرنا ہونا چاہیے۔ اسی کشاکش میں جرمنی دولخت ہو گیا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا کا طوطی بولنے لگا تھا کیونکہ وہاں کی سرزمین پر بندوق تو کیا پستول کی بھی ایک گولی نہیں چلی تھی۔ پورا یورپ طویل جنگ کے سبب معاشی طور پر گھٹنوں پر آ چکا تھا۔
اور تیسرا وار گمزاہوردیا کی سربراہی میں سوویت یونین کی ”اناج کی بوری ” کیونکہ وہاں گندم بہت ہوتی تھی، سوویت یونین کی ایک اور ریاست جارجیا یعنی گروزیا کا اعلان آزادی تھا۔ معاہدہ وارسا دم توڑ چکا تھا لیکن اس کی لاش تب تک نہ دفنائی جا سکی تھی جب تک سوویت یونین بذات خود تمام نہیں ہو گیا تھا۔ جب مدمقابل ہی باقی نہیں رہا تو پھر نیٹو کو جرمنی کی سرحدوں سے آگے وسعت نہ دیے جانے کے زبانی کلامی وعدے یا سمجھوتے کی اہمیت ہی کیا تھی۔
نیٹو کا سیاسی ہتھیار یورپی اتحاد ہے جو پھیلتے پھیلتے مشرقی یورپ کے ملکوں کے ساتھ ساتھ بحیرہ بالٹک کے ساتھ کی تین منحنی ریاستوں کو بھی اپنے سائے تلے لیتا چلا گیا۔ روس کی تسلی کے لیے بالآخر مئی 2002 میں، روم میں ہونے والے نیٹو کے اجلاس میں روس نیٹو کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا کیونکہ اس سے پہلے، نیٹو کی چھتری تلے سربیا پر کیے گئے امریکی حملے سے روس انتہائی تشویش میں مبتلا ہو چکا تھا۔ روسی حکومت نظریہ کے فقدان کے سبب مشرقی یورپ کے چند ممالک کو نسلی یا مذہبی حوالے سے اپنا حلیف تصور کرتی ہے۔
اگرچہ ان دونوں شورشوں کا آغاز گمزاہوردیا کے دور میں ہوا تھا مگر شیوردنادزے نے بھی ان کو فرو کرنے میں کوئی کردار ادا نہ کیا تھا البتہ ان علاقوں میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں روس اور جارجیا کے امن دستے تعینات کر دیے گئے تھے۔ مسلح لڑائیاں رک گئی تھیں مگر سا آکاش ولی کے برسر اقتدار آنے کے بعد روس کے خلاف نفرت پھیلانے والا پروپیگنڈا بڑھتا چلا گیا تھا۔ اس اثناء میں سوویت یونین کی ایک اور سابقہ اہم ری پبلک یوکرین میں روس دوست مگر متنازع صدر لیوند کچما کی حکومت کو وکتر یو شینکو اور یولیا تماشینکو کی سرکردگی میں برپا کرائے گئے نارنجی انقلاب Orange Revolution کے ذریعے چلتا کیا گیا تھا۔
جارجیا اور یوکرین دونوں ہی بحیرہ اسود سے منسلک ہونے کے باعث بے حد تزویراتی اہمیت کے حامل ملک ہیں۔ نیٹو کی ان دونوں ملکوں پہ نظریں تھیں اور ہیں۔ ان دونوں ممالک کو اگلے مرحلے میں یورپی اتحاد میں شامل کیا جانا اور آخر کار نیٹو میں ضم کر کے اس عسکری تنظیم کو روس کی سرحدوں تک لے آیا جانا امریکا کا مطمح نظر رہا اور ہے۔ 2008 کے موسم گرما میں نیٹو نے جارجیا کے ساتھ مل کر جارجیا کی سرزمین پر فوجی مشقیں کی تھیں جبکہ چند سال بعد جارجیا نے ”کاویرووسک“ نام کے اس پہاڑی علاقے پر اپنی عملداری جتانا چاہی تھی جہاں روس کے مطابق چیچن دہشت گرد پناہ لیے ہوئے تھے، مستزاد یہ کہ مذکورہ علاقہ انتظامی طور پر روس کا حصہ ہے۔
دنیا چین میں ہونے والی گرمائی اولمپک کھیلوں کی شاندار افتتاحی تقریبات دیکھنے میں مگن تھی۔ نہ جانے جارجیائی حکام نے یہ کیوں جانا کہ روسی افواج اور حکام اپنے پراسلاوین بھائیوں کی سلامتی سے آنکھیں موندے، آب جو نوش کرتے ہوئے ٹی وی پر تقریبات دیکھ رہے ہوں گے اور ہم اندھا دھند قتل عام کر کے علیحدہ کہلانے والے خطے کو آرام سے اپنی سرزمین میں ضم کر لیں گے۔ روسی فوج نے اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا تھا۔ جارجیا کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔
ان دنوں یورپی اتحاد کی سربراہی فرانس کے پاس تھی۔ تب فرانس کے صدر سارکوزی میدان میں کودے۔ جنگ تو چار ہی روز میں تمام ہو گئی تھی لیکن روس کے امن دستوں کے جوانوں کے ساتھ ساتھ تقریباً تین ہزار عام شہری بھی مارے گئے تھے۔ سا آکاش ولی نے روس کو اپنا جانی دشمن بنا لیا تھا۔ روس نے جلد ہی ان دونوں ری پبلکوں یعنی جنوبی اسیتیا اور ابہازیا کو تسلیم کر لیا تھا۔ اس چار روزہ جنگ میں جس کی ابتدا جارجیا کے ناعاقبت اندیش حکمران نے کی تھی، نیٹو نے روس پر ”غیر متناسب طاقت کے استعمال“ کا الزام لگا کر روس نیٹو کونسل کی آئندہ کی سرگرمی کو منجمد کر دیا تھا۔
ان دو اشخاص میں سے ایک سفارت کار واسیلی چیزہوو Vasily Chizhov تب یورپی اتحاد میں روس کے زیرک سفیر ولادیمیر چیزہوو کے بیٹے تھے اور دوسرا سفارت کار وکتور کوچوکوو Victor Kichukov روسی وفد کے سیاسی شعبہ کے سربراہ تھے۔ یہ مذموم کارروائی تب کی گئی تھی جب آٹھ ماہ کی بندش کے بعد روس نیٹو کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا۔ وفد کے سربراہ دمتری رگوزن نے اجلاس کے فوراً بعد اس بارے میں نیٹو کے جنرل سیکریٹری کو نہ صرف آگاہ کیا بلکہ احتجاج بھی کیا تھا۔
نیٹو کے نئے جنرل سیکریٹری کے انتخاب کے موقع پر بھی روس نے ڈنمارک کے وزیراعظم کو یہ عہدہ سونپے جانے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا کیونکہ وہ پیغمبر اسلام کے مذموم خاکوں کی اشاعت کی حمایت کرنے کی وجہ سے متنازع شخصیت قرار پائے تھے مگر پھر بھی انہیں چن لیا گیا۔ 6 مئی 2009 کو ایک بار پھر جارجیا کی سرزمین پر نیٹو نے جارجیا کے ساتھ مل کر فوجی مشقوں کا آغاز کیا۔ روس اس بارے میں پہلے سے احتجاج و انتباہ کرتا رہا تھا۔
جان بش جونئیر کے دور میں پولینڈ کی سرزمین پر امریکی ضد میزائل نظام کی تنصیب اور چیک ری پبلک میں حملہ آور میزائلوں کی نگرانی کرنے کی خاطر ریڈیولوکیٹنگ سٹیشن کی تعمیر کے منصوبے پر یورپی اتحاد کا دوہرا معیار روس کے لیے جھنجھلاہٹ کا موجب بنا۔ نیٹو روس کے دل میں اٹکی وہ پھانس ہے جس کو چھیڑ کر درد کو تند کیے جانے کا کام یورپی اتحاد کے ذمہ ہے۔ یہ مضمون مئی 2009 میں لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد نیٹو اور امریکہ کی روس مخالف سرگرمیوں کا ذکر ہم اپنے گزشتہ مضامین میں تفصیل سے کرتے رہے ہیں اور فروری 2022 میں ہوئے یوکرین روس تنازعہ میں شدت آنے کے اعمال و عواقب بھی ایک گزشتہ مضمون میں لکھ چکے ہیں اگر اب بھی احباب، روس کو جارح اور نیٹو کے حواری یوکرین کو بے قصور چھوٹا سا روس کے زیر عتاب آیا ملک سمجھتے ہیں تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ