نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیٹو: روس کے دل میں اٹکی پھانس||ڈاکٹر مجاہد مرزا

اور تیسرا وار گمزاہوردیا کی سربراہی میں سوویت یونین کی ”اناج کی بوری ” کیونکہ وہاں گندم بہت ہوتی تھی، سوویت یونین کی ایک اور ریاست جارجیا یعنی گروزیا کا اعلان آزادی تھا۔ معاہدہ وارسا دم توڑ چکا تھا لیکن اس کی لاش تب تک نہ دفنائی جا سکی تھی جب تک سوویت یونین بذات خود تمام نہیں ہو گیا تھا۔ جب مدمقابل ہی باقی نہیں رہا تو پھر نیٹو کو جرمنی کی سرحدوں سے آگے وسعت نہ دیے جانے کے زبانی کلامی وعدے یا سمجھوتے کی اہمیت ہی کیا تھی۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوویت یونین میں یوری اندروپوو کے خواب کو تعبیر دیے جانے کی خاطر میہائیل گورباچوو پیری ستروئیکا یعنی تعمیر نو کا عمل شروع کر چکے تھے جنہوں نے پہلے ہی افغانستان میں سوویت فوجی دستوں کی موجودگی اور وہاں ہو رہی امریکہ کی پراکسی وار کو ”رستا ہوا زخم“ قرار دے دیا ہوا تھا۔ امریکا کے پروپیگنڈا کرنے والے مجلے ”ٹائم“ اور ”نیوزویک“ اپنے ٹائیٹل پیج پر جناب گورباچوو کی تصاویر چھاپ رہے تھے جو سابق ناکام اداکار اور تب امریکا کے انتہائی کامیاب صدر رونالڈ ریگن کے ساتھ تزویراتی ہتھیاروں میں تخفیف کیے جانے سے متعلق مذاکرات کر رہے تھے۔

بعد کی دستاویزات میں جو کچھ درج ہوا، وہ اپنی جگہ لیکن ایک وعدہ زبانی ہوا تھا کہ نیٹو اپنی موجودگی کو جرمنی سے آگے ہرگز نہیں لے جائے گی۔ روسی ویسے کم کائیاں نہیں، مستزاد یہ کہ گورباچوو ویسے بھی یوکرینی النسل ہیں جن کا زیرک پن مشہور ہے کم از کم روسیوں میں مگر انہوں نے نہ جانے کس خوش فہمی میں یا کس غلط فہمی کے سبب اس زبانی وعدہ پر اعتبار کر لیا۔ پھر پے در پے ایسے واقعات ہونے لگے تھے جن کا ہونا ایک بڑی حد تک اچنبھا تھا۔

 

دیوار برلن ڈھا دی گئی تھی، اس جرمنی میں جہاں جنگ عظیم دوم کے آخری مراحل میں ہملر Himmler کے نمائندہ جنرل کے ساتھ، سوئٹزرلینڈ کے شہر برن میں، امریکی اپنے اتحادی ملکوں سے نظریں چرائے، بعد از جنگ جرمنی میں حکومت، گسٹاپو کے سربراہ کے حوالے کیے جانے سے متعلق خفیہ مذاکرات کر رہے تھے۔ جب معروف زمانہ سوویت جاسوس شٹرلٹز Scheterlitz نے سوویت حکام کے لیے ان خفیہ مذاکرات کو افشا کر دیا تو فسطائیت کو شکست فاش دینے کی خاطر دو کروڑ انسانوں کو بھینٹ دینے والے ملک سوویت یونین کو بہت تاؤ آیا تھا اور سوویت یونین کے امور خارجہ کے سربراہ مولوتوو نے برطانیہ کے سفیر کو سوویت دفتر خارجہ میں طلب کر کے انہیں امریکیوں کی اس کارروائی بارے مطلع کیا تھا کیونکہ جرمنی کی پولینڈ پر چڑھائی سے پہلے سٹالن اور ہٹلر کی حکومتوں کے درمیان ”مولوتوو ربن ٹروپ معاہدہ“ ہوا تھا یوں سوویت حکام جنہیں مطلق العنان خیال کیا جاتا تھا وہ جرمنی کی بعد از جنگ حکومت، معتدل مزاج جرمن سیاستدان ربن ٹروپ کو سونپنا چاہتے تھے جس کے برعکس امریکی مبینہ جمہوریت پسند حکمران، ہملر جیسے سفاک فسطائی کو جرمنی میں برسر اقتدار لانا چاہتے تھے۔

ان کے خیال میں برائی اور اچھائی، رحم اور ظلم ایسے متضاد عوامل بارے سوچنا محض نرم مزاج دانشوروں کا کام ہوتا ہے جب کہ حکمرانوں کا کام منفی اور مثبت عوامل میں توازن قائم کرنا ہونا چاہیے۔ اسی کشاکش میں جرمنی دولخت ہو گیا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا کا طوطی بولنے لگا تھا کیونکہ وہاں کی سرزمین پر بندوق تو کیا پستول کی بھی ایک گولی نہیں چلی تھی۔ پورا یورپ طویل جنگ کے سبب معاشی طور پر گھٹنوں پر آ چکا تھا۔

 

امریکا نے اپنی عسکری اور معاشی برتری کو جاری و ساری رکھنے کی غرض سے نیٹو نام کی تنظیم تشکیل دے ڈالی تھی۔ اس کے جواب میں سوویت یونین نے معاہدہ وارسا کے تحت مشرقی یورپ کے ملکوں کو اپنی چھتری تلے اکٹھا کیا تھا مگر دیوار برلن کے ٹوٹتے ہی مشرقی جرمنی کے انہدام سے یہ معاہدہ ایک ٹانگ پر گولی کھائے سپاہی کی طرح زمین پر آنے سے پہلے لنگڑا کر چلتا رہا۔ دوسرا وار اس سپاہی کو جان بلب کرنے کو کافی تھا جو بحیرہ بالٹک سے منسلک منحنی سوویت ریاستوں کا اعلان آزادی تھا۔

اور تیسرا وار گمزاہوردیا کی سربراہی میں سوویت یونین کی ”اناج کی بوری ” کیونکہ وہاں گندم بہت ہوتی تھی، سوویت یونین کی ایک اور ریاست جارجیا یعنی گروزیا کا اعلان آزادی تھا۔ معاہدہ وارسا دم توڑ چکا تھا لیکن اس کی لاش تب تک نہ دفنائی جا سکی تھی جب تک سوویت یونین بذات خود تمام نہیں ہو گیا تھا۔ جب مدمقابل ہی باقی نہیں رہا تو پھر نیٹو کو جرمنی کی سرحدوں سے آگے وسعت نہ دیے جانے کے زبانی کلامی وعدے یا سمجھوتے کی اہمیت ہی کیا تھی۔

نیٹو کا سیاسی ہتھیار یورپی اتحاد ہے جو پھیلتے پھیلتے مشرقی یورپ کے ملکوں کے ساتھ ساتھ بحیرہ بالٹک کے ساتھ کی تین منحنی ریاستوں کو بھی اپنے سائے تلے لیتا چلا گیا۔ روس کی تسلی کے لیے بالآخر مئی 2002 میں، روم میں ہونے والے نیٹو کے اجلاس میں روس نیٹو کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا کیونکہ اس سے پہلے، نیٹو کی چھتری تلے سربیا پر کیے گئے امریکی حملے سے روس انتہائی تشویش میں مبتلا ہو چکا تھا۔ روسی حکومت نظریہ کے فقدان کے سبب مشرقی یورپ کے چند ممالک کو نسلی یا مذہبی حوالے سے اپنا حلیف تصور کرتی ہے۔

 

سربیا بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں پر اسلاوین یعنی آرتھوڈوکس عیسائیت اکثریتی مذہب ہے۔ ٹوٹی پھوٹی حیثیت والی عظیم طاقت روس پر نیٹو کا یہ پہلا وار تھا۔ روس پر دوسرا بڑا وار تب خوش حالی سے عاری ہو جانے والے ملک جارجیا میں ساآکاش ولی کی قیادت میں نام نہاد ”انقلاب گلاب“ کے ذریعے روس دوست ایدوارد شیوردنادزے کی حکومت تمام کروا کے کیا گیا۔ اس سے پہلے جارجیا کے روسی النسل آبادی کی اکثریت والے خطوں جنوبی اسیتیا اور ابہازیا میں مسلح شورشیں شروع کروائی گئی تھیں۔

اگرچہ ان دونوں شورشوں کا آغاز گمزاہوردیا کے دور میں ہوا تھا مگر شیوردنادزے نے بھی ان کو فرو کرنے میں کوئی کردار ادا نہ کیا تھا البتہ ان علاقوں میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں روس اور جارجیا کے امن دستے تعینات کر دیے گئے تھے۔ مسلح لڑائیاں رک گئی تھیں مگر سا آکاش ولی کے برسر اقتدار آنے کے بعد روس کے خلاف نفرت پھیلانے والا پروپیگنڈا بڑھتا چلا گیا تھا۔ اس اثناء میں سوویت یونین کی ایک اور سابقہ اہم ری پبلک یوکرین میں روس دوست مگر متنازع صدر لیوند کچما کی حکومت کو وکتر یو شینکو اور یولیا تماشینکو کی سرکردگی میں برپا کرائے گئے نارنجی انقلاب Orange Revolution کے ذریعے چلتا کیا گیا تھا۔

جارجیا اور یوکرین دونوں ہی بحیرہ اسود سے منسلک ہونے کے باعث بے حد تزویراتی اہمیت کے حامل ملک ہیں۔ نیٹو کی ان دونوں ملکوں پہ نظریں تھیں اور ہیں۔ ان دونوں ممالک کو اگلے مرحلے میں یورپی اتحاد میں شامل کیا جانا اور آخر کار نیٹو میں ضم کر کے اس عسکری تنظیم کو روس کی سرحدوں تک لے آیا جانا امریکا کا مطمح نظر رہا اور ہے۔ 2008 کے موسم گرما میں نیٹو نے جارجیا کے ساتھ مل کر جارجیا کی سرزمین پر فوجی مشقیں کی تھیں جبکہ چند سال بعد جارجیا نے ”کاویرووسک“ نام کے اس پہاڑی علاقے پر اپنی عملداری جتانا چاہی تھی جہاں روس کے مطابق چیچن دہشت گرد پناہ لیے ہوئے تھے، مستزاد یہ کہ مذکورہ علاقہ انتظامی طور پر روس کا حصہ ہے۔

 

اس وجہ سے روس اور جارجیا کے سفارتی تعلقات ٹوٹ گئے تھے جس کی وجہ روس کو جارجیا کے دارالحکومت تبلسی کے نزدیک اپنا فوجی اڈہ معاہدے کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی خالی کرنا پڑا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب باہمی تعلقات معمول پر آنے ہی لگے تھے کہ جارجیا کے تب کے صدر سا آکاش ولی نے نیٹو کے ساتھ مل کر کی گئی فوجی مشقوں کے اثر کے زعم میں، غیر تسلیم شدہ اور اپنے طور پر آزاد کہلائی جانے والی ری پبلک جنوبی اسیتیا پر 8 اگست 2008 کی رات دھاوا بول دیا تھا۔

دنیا چین میں ہونے والی گرمائی اولمپک کھیلوں کی شاندار افتتاحی تقریبات دیکھنے میں مگن تھی۔ نہ جانے جارجیائی حکام نے یہ کیوں جانا کہ روسی افواج اور حکام اپنے پراسلاوین بھائیوں کی سلامتی سے آنکھیں موندے، آب جو نوش کرتے ہوئے ٹی وی پر تقریبات دیکھ رہے ہوں گے اور ہم اندھا دھند قتل عام کر کے علیحدہ کہلانے والے خطے کو آرام سے اپنی سرزمین میں ضم کر لیں گے۔ روسی فوج نے اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا تھا۔ جارجیا کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔

ان دنوں یورپی اتحاد کی سربراہی فرانس کے پاس تھی۔ تب فرانس کے صدر سارکوزی میدان میں کودے۔ جنگ تو چار ہی روز میں تمام ہو گئی تھی لیکن روس کے امن دستوں کے جوانوں کے ساتھ ساتھ تقریباً تین ہزار عام شہری بھی مارے گئے تھے۔ سا آکاش ولی نے روس کو اپنا جانی دشمن بنا لیا تھا۔ روس نے جلد ہی ان دونوں ری پبلکوں یعنی جنوبی اسیتیا اور ابہازیا کو تسلیم کر لیا تھا۔ اس چار روزہ جنگ میں جس کی ابتدا جارجیا کے ناعاقبت اندیش حکمران نے کی تھی، نیٹو نے روس پر ”غیر متناسب طاقت کے استعمال“ کا الزام لگا کر روس نیٹو کونسل کی آئندہ کی سرگرمی کو منجمد کر دیا تھا۔

 

اس کے کچھ عرصہ بعد استونیا کی وزارت دفاع کے شعبہ سلامتی کے سربراہ ہرمن سم Herman Simm کو اس الزام میں حراست میں لے لیا گیا تھا کہ وہ نیٹو کے راز چرا کر روس کو دے رہا تھا پھر اسے جلد ہی اس جرم کی پاداش میں بارہ برس قید کی سزا دے دی گئی تھی۔ اس عمل کے دو ماہ بعد نہ جانے نیٹو کے ارباب کے ذہن میں کیا بات آئی کہ برسلز میں نیٹو کے ہیڈکوارٹر میں کام کرنے والے روس کے وفد کے دو اعلٰی سفارتی عہدہ دار افراد کو ناپسندیدہ قرار دے کر انہیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔

ان دو اشخاص میں سے ایک سفارت کار واسیلی چیزہوو Vasily Chizhov تب یورپی اتحاد میں روس کے زیرک سفیر ولادیمیر چیزہوو کے بیٹے تھے اور دوسرا سفارت کار وکتور کوچوکوو Victor Kichukov روسی وفد کے سیاسی شعبہ کے سربراہ تھے۔ یہ مذموم کارروائی تب کی گئی تھی جب آٹھ ماہ کی بندش کے بعد روس نیٹو کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا۔ وفد کے سربراہ دمتری رگوزن نے اجلاس کے فوراً بعد اس بارے میں نیٹو کے جنرل سیکریٹری کو نہ صرف آگاہ کیا بلکہ احتجاج بھی کیا تھا۔

نیٹو کے نئے جنرل سیکریٹری کے انتخاب کے موقع پر بھی روس نے ڈنمارک کے وزیراعظم کو یہ عہدہ سونپے جانے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا کیونکہ وہ پیغمبر اسلام کے مذموم خاکوں کی اشاعت کی حمایت کرنے کی وجہ سے متنازع شخصیت قرار پائے تھے مگر پھر بھی انہیں چن لیا گیا۔ 6 مئی 2009 کو ایک بار پھر جارجیا کی سرزمین پر نیٹو نے جارجیا کے ساتھ مل کر فوجی مشقوں کا آغاز کیا۔ روس اس بارے میں پہلے سے احتجاج و انتباہ کرتا رہا تھا۔

 

جواب میں روس نے نہ صرف ماسکو میں نیٹو کے انفارمیشن بیورو کے کینیڈا نژاد ڈائریکٹر Isabel Francois بلکہ ایک اور کینیڈا نژاد سفارتکار کو ملک سے نکل جائے کا حکم دے دیا تھا اور ساتھ ہی احتجاج کے طور پر روس نیٹو کونسل کی آئندہ کارروائیوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ 8 مئی 2009 کو یورپی اتحاد نے پراگ میں ”شرکائے شرق“ Eastern Partners نام کی ایک سمٹ کی جس میں سوویت یونین کی سابقہ ری پبلکوں آرمینیا، یوکرین، مالدووا، بیلاروس، جارجیا اور آذربائیجان کو مدعو کیا گیا تھا، اس پر روس کے وزیر برائے امور خارجہ سرگئی لاوروو کو کہنا پڑا تھا کہ نیٹو سابقہ سوویت ری پبلکوں میں دخل اندازی بند کرے۔

جان بش جونئیر کے دور میں پولینڈ کی سرزمین پر امریکی ضد میزائل نظام کی تنصیب اور چیک ری پبلک میں حملہ آور میزائلوں کی نگرانی کرنے کی خاطر ریڈیولوکیٹنگ سٹیشن کی تعمیر کے منصوبے پر یورپی اتحاد کا دوہرا معیار روس کے لیے جھنجھلاہٹ کا موجب بنا۔ نیٹو روس کے دل میں اٹکی وہ پھانس ہے جس کو چھیڑ کر درد کو تند کیے جانے کا کام یورپی اتحاد کے ذمہ ہے۔ یہ مضمون مئی 2009 میں لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد نیٹو اور امریکہ کی روس مخالف سرگرمیوں کا ذکر ہم اپنے گزشتہ مضامین میں تفصیل سے کرتے رہے ہیں اور فروری 2022 میں ہوئے یوکرین روس تنازعہ میں شدت آنے کے اعمال و عواقب بھی ایک گزشتہ مضمون میں لکھ چکے ہیں اگر اب بھی احباب، روس کو جارح اور نیٹو کے حواری یوکرین کو بے قصور چھوٹا سا روس کے زیر عتاب آیا ملک سمجھتے ہیں تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author