عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیٹھ اپنی سرمایہ دارانہ ایمپائر کو بڑھانے کے لیے ہر ہتھکنڈا اپناتا ہے – چاہے وہ مذھب کا ہتھکنڈا ہو یا لبرل جمہوریت کا، پارلیمنٹ کی بالادستی کا، وہ ہمیشہ اپنے کاروباری مفادات کو سب اصولوں پر مقدم رکھتا ہے – جب کبھی سرمایہ دارانہ معشیت بدترین کساد بازاری کا شکار ہو تو وہ فاشزم کو بھی گلے لگا لیتا ہے –
24 نیوز چینل، 42 سی ،روہی جیسے چینلز کی ملکیت رکھنے والا سیٹھ بھی اس سے خالی نہیں ہے –
اُسے اپنے مفادات سب سے مقدم لگتے ہیں – اُس نے بھی اپنے میڈیا چینلز پر مذھبی تڑکا خوب لگایا، یہی نہیں کہ اُس نے شیعہ مذھب کے معروف برانڈز کو استعمال کیا بلکہ اُس نے عمران خان کے سب سے بڑے مذھبی وکیل دیوبندی مولانا طارق جمیل کو بھی اپنی سکرین پر پرائم ٹائم دیا –
نواز شریف کمپنی جب پوری طرح زیر عتاب تھی تب اُس نے سیاسی ٹاک شوز کا پرائم ٹائم زیادہ تر نسیم زھرہ، مالک اور ایسے صحافی ہوسٹ کے سپرد کیا جو اُس وقت انتہائی طاقتور اور غالب ہائبرڈ رجیم کے لاڈلے کو گلوریفائی کرنے میں مصروف تھے
کویڈ سے زرا پہلے اس چینل کے سیٹھ نے عراق، ایران، شام میں زیارات سے جڑے ٹریولنگ، ویزہ اور وہاں پر ہوٹلنگ کے بزنس میں نیے امکانات دیکھ کر سرمایہ کاری کی اور نام نہاد نامور صحافیوں کے ایک بڑے قافلے کی صورت میں محسن نقوی خود عراق پہنچا – عراق، ایران اور شام میں اُس نے ہوٹلوں کی ایک چین قائم کی – اس دوران اس کا چینل عمران خان کی کابینہ میں شامل علی زیدی، زلفی، یاور عباس بخاری، اور تحریک انصاف کی اتحادی ایم ڈبلیو ایم کے راجا عباس ناصر کی بڑی پروجیکشن کررہا تھا اور ایم ڈبلیو ایم کے واببستگان نوجوانوں کو جو میڈیا سے وابستہ تھے بڑی تعداد کو رپورٹرز کے طور پر بھرتی بھی کررہا تھا – یہ سب اقدامات سیٹھ محسن نقوی اپنی کارپوریٹ آرگنائزشن کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دینے کے لیے کررہا تھا –
سیٹھ محسن نقوی کے لاہور چھاؤنی کے ہر آنے والے کورکمانڈر، ڈی جی رینجرز پنجاب، ڈی جی ایم آئی پنجاب اور ڈی جی آئی ایس آئی پنجاب سیکٹر سے تعلقات اور قربت کی کہانیاں بھی زبان زد عام تھیں، یہاں تک کہ ٹی ایل پی کو بھی بھرپور کوریج دی جارہی تھی- اس دور میں کہیں بھول کر بھی 24 نیوز چینل پر اینٹی اسٹبلشمنٹ اور ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ مرکزی پالیسی میں غالب نظر نہیں آتا تھا –
تبدیلی کب آئی؟
2019ء کے آخر میں اُس نے جب یہ دیکھا کہ ہائبرڈ رجیم چلانے والے سلیکٹرز کے اندر تقسیم ہورہی ہے تو اُس نے اپنا رخ بدل کر کمرشل لبرل میڈیا گروپوں کی طرف کرلیا، اُسے نواز شریف مظلوم لگنے لگا اور اس دوران مریم نواز شریف کی ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ پرویز رشید سے کہہ رہی ہیں کہ مسلم لیگ نواز کا میڈیا فنڈ کن چینلز کو دینا ہے اور کن کو نہیں دینا، جن کو دینا تھا اُن میں ایک چینل 24 نیوز بھی تھا – اُسی دوران پیمرا نے 24 نیوز چینل کی پاکستان میں نشریات بند کیں اور وہ بقیہ عمرانی دور میں یو ٹیوب کے زریعے ہی دیکھا جاتا رہا – محسن نقوی نے بھی اپنے چینل پر پیمرا کی پابندیوں کو "صحافت پابند سلاسل” کے بیانیہ سے جوڑ کر خود کو مظلوم میڈیا گروپ میں شمار کیا –
اس دوران سیٹھ محسن نقوی کے نواز شریف کے ساتھی سمجھے جانے والے سرمایہ کاروں میں سے ایک بڑا نام میاں منشاء سے بڑھتی قربتوں کی کہانیاں بھی مقتدر حلقوں میں گردش کرنے لگیں –
24 نیوز چینل نے جیو نیوز، ڈان نیوز کی طرح لندن میں نواز شریف کو میڈیائی میدان میں ٹف ٹائم دینے والے عمرانی میڈیا کے مقابلے میں اپنی خدمات پیش کیں –
پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد 24 نیوز چینل نہ صرف پیمرا کی پابندی سے آزاد ہوا بلکہ اس پر سرکاری اشتہارات کی بارش بھی ہوئی – اور اس دوران 24 نیوز چینل نے نواز-مریم نواز کیمپ کے نقطہ نظر کو ہی سب سے زیادہ کوریج دی – اور جب عمران خان کی جانب سے جنرل قمر باوجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی وغیرہ حملوں کی زد میں آئے تو اس نے اُن کے دفاع کی پالیسی کو اولیت دی، آج کل 24 نیوز چینل اپنی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سیٹھ محسن نقوی وردی و باوردی اسٹبلشمنٹ کے طاقتور نوکر شا بابوؤں میں قابل اعتماد سیٹھ خیال کیا جاتا ہے اور نگران سیٹ اَپ میں اسی لیے چوہدری پرویز اللہی کی طرف سے بھی کوئی خاص مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی –
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نام نہاد مین سٹریم میڈیا میں نواز شریف کے حامی میڈیا گروپ ہوں یا پھر عمران خان کے حامی میڈیا گروپ ہوں دونوں میں 24 نیوز چینل کے میڈہا ڈسکورس کی بنیاد پر سیٹھ محسن نقوی کے جھکاؤ کو دکھانے کی بجائے اُسے آصف زرداری کا فرنٹ مین بناکر پیش کیا جارہا ہے، یہ ایسے ہی جیسے دونوں کیمپ نقیب اللہ محسود کے قاتل ڈی ایس پی کو آصف زرداری کا فرنٹ مین بناکر پیش کررہے تھے لیکن اُس کی جان عدالتی اسٹبلشمنٹ سے چھڑانے والے کون نکلے تھے؟ آج سب کو پتا ہے
اگر 24 نیوز چینل، 42 سی چینل اور روہی کا سیاست پر میڈیا ڈسکورس کا جائزہ لیا جائے تو وہ بنیادی طور پر مریم نواز شریف کے کیمپ کا لگتا ہے – پی ٹی آئی کے دور میں 24 نیوز چینل پر پابندی عائد ہوئی تو وہ نواز شریف کی 3تقاریر نشر کرنے پر لگی تھی ناکہ پیپلزپارٹی کو پروجیکشن دینے پر-
پی ڈی ایم کے اپوزیشن میں ہون اور مارچ 2019ء میں سینٹ الیکشن کے دوران 24 نیوز چینل کی بلیٹن اور سیاسی ٹاک شوز کا جو اسکرپٹ ہوا کرتا تھا اس میں غالب ڈسکورس مسلم لیگ نواز کے میڈیا سیل کا پروپیگنڈا غالب تھا جو پی پی پی اور آصف علی زرداری کی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کے پروپیگنڈے پر مشتمل ہوا کرتا تھا – جبکہ 24 نیوز چینل پر کی ڈائریکٹر نیوز افیئرز نسیم زھرا کا رجحان واضح طور پر پی ٹی آئی اور سلیکٹرز کے حق میں تھا – اسی 24 نیوز چینل پر نجم سیٹھی کا پروگرام بھی نواز شریف کیمپ کے لیے ہرقسم کے پروپیگنڈے کو فروغ دینے کا مرکز تھا – اور اگر ہم مسلم لیگ نواز کے دور 2013 تا 2018ء میں چلے جائیں تو سی 42 نیوز کا واضح طور پر جھکاؤ میاں محمد شہباز شریف کو ایک عبقری کامیاب چیف منسٹر کے طور پر پیش کرنا اور اُن کے نام نہاد ترقیاتی ماڈل کی تعریف کرنے کی طرف تھا – جبکہ اسحاق ڈار کو ایک بہترین معاشی مدبر بناکر پیش کیا جاتا تھا –
سندھ میں پی پی پی کی حکومت کی طرف 24 نیوز چینل کا ڈسکورس دوسرے ٹی وی چینلز سے مختلف نہیں تھا-
آصف علی زرداری کی طرف 24 نیوز چینل کی پالیسی کا اظہار آپ کو آصف علی زرداری کے خلاف نیب میں چل رہے نام نہاد بوگس لھاتوں کا ریفرنس بارے رپورٹنگ اور تجزیوں سے ہو جائے گا- اس لیے یہ کہنا 24 نیوز چینل کا محسن نقوی پی پی پی کے آصف علی زدرداری صاحب کا فرنٹ میں ہے مجھے اس لیے محض پروپیگنڈا لگتا ہے کہ محسن نقوی کا میڈیا گروپ اپنی ادارتی پالیسی میں کہیں نواز لیگ تو کہیں پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتا نظر آیا –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر