حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدالت بمقابلہ حکومت یا پارلیمان سے پیدا ہوئے بحران کے اولین دن سے یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ عدالتوں کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے جرگہ و پنچایت گیری یا مصالحتی امور سرانجام دینا ہرگز نہیں۔
اس لئے جب ہم حکومت یا حکمران اتحاد پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے احکامات نہیں مان رہے اور اس کے ساتھ اس خواہش کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ اب وزیراعظم اور کابینہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے تو ہم میں سے (خواہش مندوں کی بات ہے) اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جس فیصلے کی بنیاد ایک غیر قانونی طور پر ہوئے تجاوز کے زمرے میں آنے والا ازخود نوٹس ہواسے کوئی بھی معقول شخص نہیں مانے گا
آگے بڑھنے سے قبل باردیگر دو تین سوال آپ کے سامنے رکھے دیتا ہوں۔ گو یہ سوال آپ ان سطور میں ایک سے زائد بار پڑھ چکے پھر بھی مزید پڑھ لینے میں امر مانع کوئی نہیں۔
اولین سوال یہ ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سفارش کرنے والے بنچ کے سامنے الیکشن سے متعلق کیس تھا یا ایک پولیس افسر کے تبادلے کا کیس؟
یاد کیجئے کہ الیکشن کے معاملے میں تین دو کے تناسب سے فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا تھا ازخود نوٹس کی سماعت معطل کرنے سے متعلق قاضی فائز عیسیٰ والے بنچ کا فیصلہ قابل اطلاق نہیں کیونکہ یہ معاملہ ان کے بنچ میں زیرسماعت نہیں تھا۔
چیف کے ارشاد سے ملتا جلتا فیصلہ اس 6رکنی بنچ نے بھی دیا جس کی ہنگامی تشکیل پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ جس بنچ نے 5منٹ سے بھی کم وقت میں فیصلہ سنادیا تھا ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا جب سپریم کورٹ کا ایک بنچ ازخود نوٹس لینے کی سفارش چیف جسٹس کو بھجوارہا تھا اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ہائیکورٹس میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر فریقین کی درخواستیں زیرسماعت نہیں تھیں؟ سپریم کورٹ نے کس قانون کے تحت ایک ایسے معاملے میں ازخودنوٹس لے لیا جو متعلقہ صوبوں کی ہائیکورٹس میں زیرسماعت تھا۔
اس اقدام سے تو ملکی آئین و قانون کے ساتھ عدالتی دائرہ اختیار سے بھی کھلواڑ ہوا اور ایک بری نظیر قائم ہوگئی۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ ازخود نوٹس کی ابتدائی سماعت اور فیصلہ تک اس بنیادی سوال کو کیوں نظرانداز کیا گیا کہ کیا کسی پیشگی معاہدہ کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کےلئے وزیراعلیٰ کی سمری قانونی طور پر درست ہوگی نیز یہ کہ وزیراعلیٰ کسی غیرمتعلقہ شخص سے اسمبلی کی تحلیل کا معاہدہ کرسکتا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کسی کو وزیراعلیٰ بناتے وقت اسمبلی کی تحلیل کا پیشگی معاہدہ کرلیا جائے۔
یہ وہ تین سوال ہیں جن کا جواب الیکشن والے معاملے پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں میں موجود نہیں۔ ان سوالات پر عدالت کو متوجہ کرنے والے وکلاء کے ساتھ بنچ اور بالخصوص چیف جسٹس کا رویہ حیران کن تھا۔
ان تین کے علاوہ بھی ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ 2023ء کے عام انتخابات نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہونے ہیں ، سپریم کورٹ نے غیراعلانیہ طور پر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو کیسے بائی پاس کرکے الیکشن کیس میں نہ صرف اس نکتہ کو نظرانداز کیا پھر یہ بھی کہ پنجاب میں تو 14مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے دیا اور خیبر پختونخوا کے لئے کہہ دیا کہ فریقین متعلقہ عدالت میں جائیں۔
اب اگر ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے یا سپریم کورٹ آف پنجاب تو اس پر چیں بچیں کی ضرورت ہے نا آنکھیں نکالنے کی کیونکہ عدالت نے اپنے عمل اور فیصلے سے سوالات کے لئے گنجائش پیدا کی ہے
آگے بڑھئے سپریم کورٹ کو انتخابات کے لئے 90روز کی آئینی مدت پنجاب کی حد تک تو "اولاد” سے بھی زیادہ پیاری ہے جیسا کہ فیصلے سے ظاہر ہے لیکن یہی 90روزہ آئینی مدت خیبر پختونخوا کے لئے کیوں نہیں؟
کیا خیبر پختونخوا پاکستانی فیڈریشن کا حصہ نہیں؟
مزید یہ کہ سپریم کورٹ نے الیکشن شیڈول کس قانون کے تحت جاری کیا۔ یہ تو الیکشن کمیشن کا کام ہے اور اگر یہ کام بھی الیکشن کمیشن کی بجائے سپریم کورٹ نے کرنا ہے تو الیکشن کمیشن کو بند کرواکر عملے کو گھر بھیجیں فضول قومی خزانے پر بوجھ بنا ہوا ہے۔
سپریم کورٹ سے مسلسل یہ تاثر کیوں دیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کو راضی کرلیں پھر 90دن والے معاملے میں گنجائش نکالی جاسکتی ہے؟
یہ گنجائش نکالنے کا حق آئین کے کس آرٹیکل کے تحت عدالت کے پاس ہے۔
کیا پھر سے 63اے کی طرح اس معاملے میں بھی آئین پر عمل کرانے کی بجائے عدالت آئین سازی کا اختیار سنبھال لے گی؟
اس بحران کے آغاز سے ہی ایک فریق کے علاوہ سبھی یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فل بنچ بنالیا جائے تاکہ بحران اور ٹکرائو سے بچا جاسکے تو کیوں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ بحران گھبمیر ہو تو ہو ۔ ٹکرائو شدید کچھ بھی ہوجائے ہوگا وہی جو ’’ہم‘‘ چاہتے ہیں۔
یاد رکھئے یہ ’’ہم‘‘ چاہتے کہ پس منظر کو تقویت فراہم کرتی آڈیو لیکس ہمارا موضوع ہرگز نہیں۔ ہمارا سوال بہت ساد ہے وہ یہ کہ اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پانچ سالہ مدت کے لئے ہیں تو پھر ان کے انتخابات پر مشترکہ مفادات کونسل کے مردم شماری اور حلقہ بندیوں والے فیصلے کا اطلاق ہوگا۔
یاد رہے کہ یہ فیصلہ فیڈریشن نے چاروں اکائیوں یعنی صوبوں کے ساتھ مل کر کیا اس فیصلے کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔
اس آئینی تحفظ کے برعکس جو معاملات ہورہے ہیں کیا یہ فیڈریشن کے مفاد میں ہیں؟ کیا فیڈریشن کے ایک صوبے میں من پسند شخص کی جماعت کو اقتدار دلوانے کے لئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے؟
یہاں مکرر ایک سوال دہرائے دیتے ہیں سپریم کورٹ پاکستانی فیڈریشن کی سپریم کورٹ ہے یا پنجاب کی؟
اس عدالتی بحران کے آغاز کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے ججوں کے اختلافات (اس معاملے اور دیگر امور پر) کا پنڈورا باکس جس طرح کھلا اس سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کی نیک نامی میں اضافہ ہوا؟
حضور ! عدالت کا کام آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ آئینی اداروں سے تصادم کی صورت حال پیدا نہ ہونے پائے۔
عجیب بات ہے کہ ازخود نوٹس کے فیصلے پر عدم عمل کے خلاف دی گئی درخواست کی سماعت پر تو مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو سننے سے انکار کرتے ہوئے ان پر طنزیہ جملے اچھالے گئے
لیکن پھر ایک شخص کی درخواست کو قابل سماعت قرار دے کر سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کروادیئے گئے اب کیا سیاسی جماعتیں ’’عمرہ‘‘ کرکے پارسا ہوگئی تھیں؟
آئین کی کتاب کا وہ ورق اور آٹیکل کہاں ہے جس پر لکھا ہے کہ عدالت پنچایت کا کردار اپنا کر ثالثی کروانے کی ذمہ داری سنبھال لے گی ۔
ثالثی بھی ایسی کہ رواں رواں بال بال لفظ لفظ یہ تاثر دے رہا ہو ’’جے تو سانوں منانا تے پہلے عمران نوں منا‘‘۔
یہ کیا بات ہوئی۔
اندریں حالات بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ جو ہورہا ہے یہ درست نہیں۔ عدالت کے ایک حصے یا پوری عدالت کو سیاسی تعلق کی جذباتیت کا تاثر اجاگر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح یہ سوال بھی درست ہے کہ جو ادارہ اپنی عمارت کے اندر متحد نہیں اختلافات کا پنڈروا باکس کھل چکا اور نوبت اس تردید تک پہنچ گئی کہ جج صاحبان میں عمارت کے اندر یا باغیچہ میں تلخی کی خبریں بے بنیاد ہیں کیا یہ قابل غور نہیں کہ اس تردید کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
اب ایک اور سوال 63اے پر عدالت کی جانب سے کی گئی آئین نویسی کے خلاف دائر اپیل کی سماعت اب تک کیوں نہیں کی گئی؟
جبکہ آئین نویسی کے اس شوق نے سیاسی عدم استحکام کے بڑھاوے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تو عمران خان کا یہ اعترافی بیان بھی ویڈیو کی صورت میں موجود ہے کہ مجھے صدر علوی کی موجودگی میں جنرل باجوہ نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہو تو اپنی دونوں صوبائی حکومتیں گرادو۔
عمران خان کے اس اعتراف کو پچھلے برس کے نومبر میں راولپنڈی میں منعقدہ جلسہ میں دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے اعلان سے کیسے الگ کرکے دیکھا جائے گا؟
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا ’’میں نے دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے البتہ اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ کا اعلان ہم مشاورت کے بعد کریں گے” ۔
اسمبلیاں قانونی طور پر وزرائے اعلیٰ نے توڑنی تھیں تو سیاسی جماعت کے سربراہ نے عوامی اجتماع میں اعلان کیوں کیا؟ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اس سے کچھ دیر بعد سپریم کورٹ میں الیکشن والے معاملے اور سیاسی جماعتوں کی باہمی مشاورت کے حکم پر سماعت شروع ہوگی نتیجہ کیا ہوگا قبل از وقت عرض کرنا مناسب نہیں البتہ یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ آئین اور نظام پر خودکش حملوں سے گریز کیا جائے تو یہ سب کے مفاد میں ہوگا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ