حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم لکھنے کی تیاریاں جاری تھیں کہ احمد پور شرقیہ سے برادر عزیز سید محمد علی رضا کاظمی کے وائس نوٹ نے سترہویں صدی میں لے جاکھڑا کیا۔ سید زادے نے معروف قانون دان سید افضل حیدر کی کتاب ’’فرید نانک بلھأ‘‘ میں سیدی بلھے شاہؒ والے باب کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھجائے۔
مجھے اعتراف کرتے بنی کہ ان سوالات کی روشنی میں سیدی بلھے شاہؒ اور بندہ سنگھ بیراگی والے قصے کو ازسرنو دیکھنا پڑے گا۔
کچھ دیر قبل استاد مکرم اور مرشد کریم بلھے شاہؒ کے عاشق صادق جناب اکرم شیخ سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی۔ اب کچھ نئے انکشافات ہیں سید افضل حیدر کی کتاب اور مندرجات بارے۔ چلیں کچھ چیزیں مطالعے کے لئے دوستوں اور بالخصوص استاد مکرم سے منگوائی ہیں انہیں پڑھ لیں تو پھر اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ کچھ عرض کرسکوں گا ۔
تاریخ بہرطور پر ہمیشہ سے تحقیق کا مضمون ہی ہے طالب علم پر ہر چند دن یا کچھ عرصہ بعد کسی واقعہ، شخصیت اور اس سے بندھے معاملات کے حوالے سے نئے در وا ہوتے ہیں۔ اسی سبب طالب علم تاریخ کو ایک تحقیق طلب مضمون کے طور پر ہی لیتا سمجھتا ہے اسے عقیدہ یا دین نہیں بناتا۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے خطے میں جن صوفیاء نے عام زمیں زادوں اور طالب علموں کے دلوں میں نسل در نسل جگہ بنائی ہمارے مرتبین اور محققین نے ان کی شاعری پر تو بہت کام کیا لیکن ان کی ذات و نظریات اور زندگی کے ماہ و سال کی پرعزم جدوجہد کا اس طور تذکرہ نہیں کیا جیسا کیا جانا ضروری تھا
بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ یہ ہمارے بزرگوں ملامتی صوفی قرار پائے بزرگوں کا حق تھا۔
ہم اسے تاریخ کا جبر بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنی ہی تاریخ (اس خطے کی) سے تو کوئی دلچسپی نہیں لیکن ایران، توران، ترکی، خراسان، بلاد عرب اور غرناطہ وغیرہ کی تاریخ کے ایسے محقق وارث بنے پھرتے ہیں کہ ان تاریخوں کے اصل مالک وارث بھی چیخ اٹھتے ہیں۔ فقط چیخ ہی نہیں اٹھتے بلکہ پوچھ بھی لیتے ہیں ’’برادر ہندی تمہارا اس سے کیا لینا دینا؟‘‘
اندھی جنونیت، بلاوجہ کی مرعوبیت اور خودساختہ عالمگیریت کے شوق نے جتنا ہمیں (ہندی مسلمانوں کو جواب تین ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں) رسوا اور بے شناخت کیا شاید ہی کوئی اتنا رسوا ہوا ہو۔
عجیب لوگ ہیں اس رسوائی پر بھی شاداں ہیں اور خودساختہ عالمگیریت پر ایسے اتراتے ہیں کہ بس کچھ نہ پوچھیں۔
حالت یہ ہے کہ یہاں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر بھی ایک خدا ترس، پرہیز گار نمازی و تہجد گزار کے طور پر معروف اور لائق احترام ہے۔
اس پر ستم وہ دو متھیں ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ قرآن پاک کی خطاطی کرتا تھا، دوسری ٹوپیاں سیتا تھا یہی اس کی گزراوقات کا ذریعہ تھا۔
ان دونوں متھوں پر ہنسی آتی ہے اور بے اختیار آتی ہے۔
کیا پرہیز گار، خدا ترس، نمازی اور تہجد گزار بادشاہ ہے۔ بقول ابن انشا اور دوسرے چند دوسرے بزرگوں کے ’’اورنگزیب عالمگیر نے کوئی نماز چھوڑی نہ کوئی بھائی زندہ رہنے دیا‘‘۔
تاریخ کا مطالعہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ برصغیر میں پہلے سے موجود مسلم ہندو بُعد کے بڑھاوے میں سب سے زیادہ اورنگزیب عالمگیر کا حصہ ہے اسی کے دور میں مسلمانوں میں فرقہ وارانہ عصبیتیں خاص انداز میں پروان چڑھیں۔
یہ اورنگزیب ہی تھا جس نے برصغیر کی اجتماعی دانش کے تین بڑے چراغ ’’تلوار‘‘ سے بجھائے۔ اس کے دامن پر داراشکوہؒ، سرمدؒ اور گورو تیغ بہادر کے خون کے چھینٹے ہیں۔
دارا شکوہ، مقامی دانش کا چراغ تھا۔ اکبر دی گریٹ کی طرح صلح کُل کا علمبردار، ایک ایسے سماج کا اور نظام کا قائل جو چھوت چھات،اقربا پروری اور عدم مساوات سے محفوظ ہو۔ سرمد ملامتی صوفیاء کا سرخیل جس کے علم و کلام اور فہم کی دھوم نے روایتی پاپائیت کی بنیادیں ہلاکر کر رکھ دی تھیں۔ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر اس کے میردفتری نواب انشاء اللہ خان نے سرمد پر لکھے دفتر میں جو تہمتیں باندھیں وہ حقیقت سے زیادہ حسد اور بغض سے عبارت ہیں۔
چند برس قبل ’’میں تو سرمدؒ کے ساتھ ہوں‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں تفصیل کے ساتھ نواب انشاء اللہ خان کے سرمدؒ پر لکھے گئے روزنامچے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ نواب انشا اللہ خان نے سرمد پر جھوٹ کے دفتر باندھے ان جھوٹوں کی سب سے پہلی تردید قاضی عثمان ٹھٹھوی کے مکتب سے ہوئی۔
سرمدؒ قاضی عثمان ٹھٹھوی کے شاگرد تھے۔ اس میں دو دلچسپ باتیں اور ہیں ایک یہ کہ سرمدؒ اس وقت کے برصغیر کے تین بڑے آدمیوں کے ذاتی دوست تھے۔ دارا شکوہ، حضرت میاں میرؒ اور موسیٰ پاک شہیدؒ کے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نواب انشا نے جو الزامات سرمد پر لگائے وہ خود ان برائیوں کا چلتا پھرتا نمونہ تھا اس کی ’’اغلام پسندی‘‘ کو شہرت حاصل تھی اس نے یہ الزام سرمد پر لگاکر اس کے کردار کو داغدار کیا۔
یہ فقط سرمدؒ کے ساتھ نہیں ہوا ہم صوفی شاہ حسینؒ کے باب میں بھی اس وقت کی مروجہ پاپائیت کا یہی چلن دیکھتے ہیں کہ کیسے لاہور کے شُدھ مذہبی حلقوں نے شاہ حسینؒ اور مادھو لال کے ناپسندیدہ تعلقوں کی کہانی گھڑی اور اس باکمال صوفی شاعر کو عوام الناس میں نیچ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن شاہ حسینؒ کی خانقاہ پر آج بھی عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے وہ صوفی ازم کی ملامتی اساس اور شاعری کی بدولت آج بھی پڑھنے والوں اور محققین کے لئے اہم موضوع ہیں مگر ان پر سوقیانہ الزامات لگانے والے مولویوں کی قبروں کے نشان بھی نہیں ملتے۔
حیران کن طور پر سرمد پر نواب انشاء اللہ خان کے گھڑے لگائے الزامات پر کسی نے بھی حضرت میاں میرؒ، دارا شکوہ اور موسیٰ پاکؒ کے حوالے سے تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی۔ سوال یہی ہے کہ کیا حضرت میاں میرؒ، موسیٰ پاک شہیدؒ اور دارا شکوہ جیسے اجلی فہم کے لوگ اپنے حلقہ یاراں میں شخصی کج رکھنے والے سرمد کو قبول کرسکتے تھے؟
کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔
سکھوں کے گورو، گورو تیغ بہادر اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر قتل ہوئے۔ سیدی بلھے شاہؒ گورو تیغ بہادر کو غازی تیغ بہادر کہتے ہیں۔ گورو تیغ بہادر سیدی بلھے شاہؒ کی ولادت سے لگ بھگ پانچ یا دس سال قبل قتل ہوئے۔ آخر کوئی تو ایسی بات تھی کہ بلھے شاہ انہیں غازی قرار دیتے ہیں۔
بندہ سنگھ بیراگی کی مغل شاہی کے خلاف مزاحمت شاہ عالم کے دور میں ہوئی شاہ عالم اورنگزیب کا پوتا ہے۔ وہی احمد شاہ ، شاہ عالم جس نے لاہور کا شاہ عالمی دروازہ بنوایا تھا۔
ادھر موسیٰ پاک شہیدؒ بذات خود ایک اہم کردار ہیں اپنی گورنری سے زیادہ ان کی شخصی اہمیت ان کی فہمیدہ فکر کی بدولت ہے۔ موسیٰ پاک شہیدؒ بھی اکبر کی صلح کل کی سوچ کے متاثرین میں سے ہیں۔
یہ ایک الگ موضوع ہے کہ گیلانی سادات کے موسیٰ پاک اور اپنے وقت کے چاریاری کٹھ حضرت میاں میر، دارا شکوہ اور سرمد کے چوتھے دوست موسیٰ پاک شہید ایک ہی شخصیت ہیں۔
کیونکہ اگر یہ ایک شخصیت ہیں تو پھر گیلانی سادات کی وہ متھ ٹوٹتی ہے کہ سید ابوالحسن جمال الدین عبدالقادر موسیٰ پاک احمد پورشرقیہ کے نواح میں لنگاہوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور وجہ قتل ان کا ’’دین اکبری‘‘ کی حمایت کرنا یا اس کا پرجوش داعی ہونا ہے۔
سچ یہ ہے کہ اس موضوع پر محققین کو جو کام کرنا چاہیے تھا وہ نہیں ہوپایا۔ سیدی بلھے شاہؒ کی شاعری پر یقیناً بہت کچھ تفصیل سے پنجاب کے دونوں حصوں میں کام ہوا مگر ان کے خاندانی پس منظر حسب نسب اور چند دیگر معاملات پر مغالطوں کی دھول پڑی ہوئی ہے۔
ایک ہی وقت میں گیلانی اور نقوی التجاری سادات انہیں اپنے شجرے کا حصہ بناتے ہیں اس حوالے سے سب سے اہم تصدیق (ان کے نقوی البخاری ہونے کی) سید فیض عالم نقوی التجاری دکنی ہیں یہ بزرگ نقوی البخاری سادات کے ایک روشن چراغ مخدوم سید حامد شاہ بخاریؒ کی اولاد میں سے ہیں۔ چند دیگر حضرات نے بھی انہیں بخاری سید لکھا۔ حسام الدین راشدی نے گیلانی قرار دیا لیکن وہ درست اسناد کی بجائے چند حوالے دے کر آگے بڑھ گئے یہ ان کے پیش کرفہ حوالہ جات ان کی زندگی میں بھی متنازعہ ہوئے اور اس پر سوالات اٹھائے گئے لیکن وہ تسلی بخش جواب نہ دے پائے دلچسپ بات یہ ہے کہ بلونت سنگھ آنند اور گوربچن سنگھ طالب کی مشترکہ تصنیف ” فرید نانک بلھا ” میں بلھے شاہ کو لاہور کے کسی جیلانی پیر کی اولاد قرار دیا گیا یہ ایک اور تاریخی مغالطہ ہے
بہرطور اصل موضوع یہی ہے کہ کیا مرشد سیدی بلھے شاہؒ نے کسی عسکری مزاحمت میں بھی شرکت کی تھی ۔ کی تو کیا یہ مزاحمت مغل دربار کے خلاف تھی یا اس دور میں مغلوں کے خلاف ابھرنے والی سکھ مثلوں کے خلاف ؟
اپنے اب تک کے مطالعے کی بنا پر میری رائے یہی ہے کہ مرشد سیدی بلھے شاہؒ کسی عسکری مزاحمت کا حصہ نہیں رہے۔ سید افضل حیدر کی کتاب ’’فرید نانک بلھا‘‘ میں اس حوالے سے جو لکھا گیا اس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
محض یہی نہیں بلکہ اس سارے معاملے کو ازسرنو دیکھنے سمجھنے کی بھی۔ اگلے چند دنوں میں اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ پڑھنے والوں کو آگاہ کروں گا۔ فی الوقت اتنا ہی ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ