عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھاکہ میں 31 اکتوبر 2015ء کو شاہ باغ کے نزدیک ایک بازار میں اپنے دفتر میں قتل ہونے والے ” جاگرتی پروکاشنی ” اشاعت گھر کے مالک اور دانشور فیصل عارفین دپن کو ڈھاکہ کے مرکزی قبرستان عظیم پور میں کل رات دفن کردیا گیا ، ان کی نماز جنازہ ڈھاکہ یونیورسٹی کی مرکزی جامع مسجد میں ادا کی گئی
فیصل عارفین کی عمر 45 سال تھی اور وہ ایک ایسی فیملی میں پیدا ہوا جوکہ روایتی مڈل کلاس بنگالی فیملی تھی ، اس کا والد ابوالقاسم فضل الحق ڈھاکہ یونورسٹی میں ” بنگلہ زبان ” کے شعبے کے استاد رہے ہیں اور وہ ایک مانے تانے ادیب خیال کیے جاتے ہيں ، بنگلہ دیش بنا تو فیصل کی عمر بمشکل ایک سال ہوگی اور اس کے والد اس وقت جوان تھے اور بنگال کی آزادی کی تحریک میں شامل تھے اور وہ اس وقت بھی بنگالی لیفٹ تحریک کے سرکردہ تھے ، فیصل عارفین جب ڈھاکہ یونیورسٹی پہنچا تو بھی اس کا تعلق اور رشتہ سیکولر ، لبرل ، لیفٹ ڈیموکریٹک حلقے سے بنا اور اس کی نظریاتی لڑائی ” اسلامی جمعیت طلبہ ” کے ” مودودیائی خیالات ” کے ساتھ رہی اور اس کی عروج کی طالب علمی کے دنوں میں ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان کے اندر اگر ضیاء الحق کی آمریت کی رات چھائی تھی تو وہآں پر جنرل ارشاد کی آمریت کے سائے طویل ہوتے جاتے تھے اور یہی وہ زمانہ ہے جب افغانستان میں ” جہاد ” کی برکات شروع ہوئیں تھیں اور اس کے ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں سعودی فنڈز سے نت نئے مدارس کا جال بچھنا شروع ہوگیا اور جنوبی ایشیاء میں تیزی سے دیوبندی – سلفی ریڈیکل آئیڈیالوجی ” اسلام ” کے نام پر جنوبی ایشیاء کے کثیرالمذھبی ثقافتی سماجوں میں اپنی یک نوعی ، یک رخی اور فرقہ پرستانہ ظالمانہ فطرت کے ساتھ داخل ہوگئی
جنوبی ایشیاء میں بنگلہ دیش بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں لبرل ڈیموکریسی ” معاشی مساوات ” کے نعرے کو ” عمل ” میں نہ ڈھال سکی اور کرپشن ، بدعنوانی ، نیولبرل سرمایہ دارانہ ماڈل کے ظالمانہ نفاذ اور محنت کی تقسیم کے گہرے ہونے نے بے روزگاری ، غربت ، بھوک میں تو اضافہ کیا ہی بلکہ اس نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کی ساکھ اور اعتبار کو عام جنتا میں بہت خراب کیا اور یہ وہ دور ہے جب بنگلہ دیش میں بھی ریاست بتدریج نجکاری ، سٹرکچرل ایڈجسمنٹ پروگرام کی طرف جارہی تھی اور سوشل ڈیموکریٹ لبرل ڈیموکریٹ بننے جارہے تھے اور وہ غریب عوام کی پرواہ بھی چھوڑتے جاتے تھے ، اس دوران سعودی عرب سمیت دیگر گلف ریاستوں سے ” وہابی آئیڈیالوجی سے لتھڑا ہوا سرمایہ ” بنگلہ دیش بھی آنا شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے جماعت اسلامی سمیت مذھبی جماعتوں کے سماجی خدمات کے شعبے اور ایجوکشن سیکٹر کا سائز بڑھنا شروع ہوگیا اور آج بنگلہ دیش میں مذھبی دائیں بازو کے کے کیمپ میں سب سے زیادہ سوشل سیکٹر اور تعلیمی سیکٹر میں اگر کوئی جماعت سب سے زیادہ فعال ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے ، پھر روایتی مذھبی مدارس میں سب سے زیادہ مدرسے دارالعلوم دیوبند انڈیا سے وابستہ ادارے ہیں ، پھر سلفی ادارے ہیں اور بنگلہ دیش میں تبلیغی جماعت کا دائرہ کار بہت بڑھ گیا ہے – لیکن جماعت اسلامی ہو یا بنگلہ دیش کی کوئی اور سیاسی پارلیمانی مذھبی پارٹی وہ بنگلہ دیش کی پاور پالیٹکس میں اب بھی اس قابل نہیں ہے کہ عوامی لیگ یا خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی جگہ لے سکے اور ریاست پر پارلیمنٹ کے راستے قبضے میں ناکامی کی وجہ سے جماعت اسلامی ، دیوبندی اور سلفی مدارس سے ایسے ” مجاہد ” تیار ہوئے ہیں جو ” خنجر ، چاقو ، زنجیروں ، دستی بموں ” سے لیس ہیں اور سلفی – دیوبندی وہابی فاشزم کو یہ اسلام کے نام پر زبردستی پورے بنگلہ دیش کا چہرہ بنانا چاہتے ہیں – یہ اسکول ، کالجز ، یونیورسٹیز خاص طور پر ڈھاکہ یونیورسٹی کو ” فتح ” کرنا چاہتے ہیں اور ” سیکولر ازم ” کو دفن کرنے کے خواہش مند ہیں
شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوہاب نجدی ، ، سیدقطب ، ابوالاعلی مودودی ، اسامہ بن لادن ، ایمن الازھراوی سمیت اسلافی فسطائیوں کے نظریات سے لیس یہ لوگ کسی مکالمے کے قائل نہیں ہیں ، اور یہ ” نظریات ” کی جنگ قلم سے نہیں بلکہ ” خنجر ، چاقو ، چھری ، پستول ، بم ، خودکش جیکٹ ” سے لڑنے کے قائل ہیں ، بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں جن لوگوں نے پاکستان کی فوج کے ساتھ ملکر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ، لوٹ مار کی ، بنگالی عورتوں کی آبرو لوٹی اور ان کا قتل کیا تو ان پر جنگی جرائم کی مد میں مقدمے چلانے اور ان کو سزا ہونے پر غضب ناک ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ سب کام ” انسانیت سوز جرائم ” نہیں بلکہ باعث ثواب تھے ،یہ اپنے مخالف روشن خیال لوگوں کو ” کافر ، مرتد ، واجب القتل خیال کرتے ہیں اور ان کے خیال میں بنگلہ دیش میں ” صوفی سنّی مشرک ، شیعہ مرتد ، سیکولر لبرل دانشور ملحد ہونے اور ہندؤ بت پرست ہونے کی وجہ سے قتل کے قابل ہیں اور ان کو زبح کرنا باعث ثواب ہے
یہ ان سب کتابوں اور بلاگ سے خوفزدہ ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ” اختلاف مذاہب ” کے باوجود مل جل کررہنا اور امن وشانتی سے زندگی گزارنے کی تلقین کرتی ہیں ، جو رقص ، موسیقی ، فلم ، آرٹ ، مصوری سے محبت کرنا سکھاتی ہیں اور مرد و عورتوں کی آزادی کا احترام کرنا سکھاتی ہیں ، جو یہ اصرار کرتی ہیں کہ بنگالیوں کا ایک اپنا کلچر ہے جو گلف ریاستوں سے درآمد کردہ نام نہاد ” اسلامی کلچر ” جتنا ہی متبرک اور مقدس ہے اور یہ کلچر یہاں رہنے والے مسلمانوں ، ہندؤں ، مسیحیوں ، شیعہ ، سنّی اور احمدی سب نے ملکر بنایا ہے اور اس کا کسی کلچر اور ثقافت سے کوئی تصادم نہیں ہے ، یہ ان تمام فرسودہ رسوم ، رواج اور ضوابط کے کے غیر معقول ہونے بارے بات کرتی ہیں جو عورتوں کے حقوق غصب کرلیتے ہیں
یہ ان سب لفظوں سے ڈرے ہوئے لوگ ہیں جو ” تاریک خیالی ” کے خلاف لوگوں مين شعور کو بیدار کرتے ہیں
بھلا آصف محی الدین کا قلم اتنا طاقتور تھا کہ وہ بنگلہ دیش میں اسلامی فاشسٹوں کی بہت بڑی میڈیا آؤٹ لیسٹ ، اخبارات ، ٹی وی چینل ، ہر دوسری تیسری گلی میں محلے اور بازار میں کھلے اسکول ، مدرسہ اور لاکھوں کی تعداد میں چھپنے اور تقسیم ہونے والی کتابوں سے پھٹتے پروپیگنڈے کو ” شکست ” دینے میں لگا ہوا تھا ، جس کی تحریریں ایک بلاگ کی شکل میں تھیں جس کو پڑھنے کا اعتراف اعلانیہ کوئی کرتا بھی نہیں تھا ، اور اس کی کتابیں دس سے بیس ہزار سے زیادہ چھپتی بھی نہیں تھين لیکن جنوری 2013ء میں اس کے قلم کے مقابلے میں یہ خنجر اور چھرے لیکر آئے اور اس کی گردن پر وار کئے اور اس کے قلم کی سیاہی کو اس کے خون سے منجمد کرڈالا ، یہ اننتا بجوئے داس کی تحریروں سے گبھراگئے اور اس کو اس کے اپنے خون مين نہلایا اور اسے اس کے فلیٹ کے سامنے ہی ماردیا گیا ، ان کو محمد راغب کے پولیٹکل ایکٹیوازم سے اتنا ڈر لگا کہ مارچ 2013ء میں اسے ماردیا ، پھر کتاب میلے میں آئے ابجیت رائے ان کے ہاتھ آیا اور خنجروں سے اس کو ادھیڑ کر رکھ دیا اور بیچ بازار میں لوگ تماشا دیکھ رہے تھے اور پولیس بھی سامنے تھی مگر ابجیت رائے کو کوئی بچآنے نہيں آیا ، اس کی بیوی نے جب اسے بچانا چاہا تو اسے بھی بلیڈ اور چھریوں کا سامنا تھا اور اس کا ایک انگوٹھا ہاتھ کا کٹ گيا اور سارا بدن اس کے اپنے اور ابجیت کے لہو سے بھرگیا ، سنا ہے اس کی بیوہ نے وہ خون آلود کپٹرے سنبھال کررکھے ہیں اور اپنے امریکہ کے فلیٹ میں ڈرائنگ روم ميں ٹاںگ رکھے ہیں
فیصل عارفین ” جاگرتی – جگانے ” کا کام کرنے کے لئے سینت سینت کر ایک ” اشاعت گھر ” بنانے میں کامیاب ہوا تھا – یہ اشاعت گھر کسی نے فنڈنگ دیکر اسے بنانے میں مدد نہیں دی تھی وہ نیتابازی سے پیسہ کمانا نہیں چاہتا تھا بلکہ ” لفظوں ” کو چھاپ کر روزی روٹی کمانا چاہتا تھا ، کونسے لفظ جو ” روشنی پھیلائیں ، امن کا درس دیں ، جو تکثیریت ، رواداری ، تحمل ، برداشت ، تعقل پسندی ، احترام انسانیت ” کا درس دیتے ہوں ، وہ ایسے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کی کتابیں شایع کرتا تھا جو ” مذھبی جنونیت ، نسل پرستی ، فسطائیت ” کے حلاف تھے جو کہیں بھی کسی خلافت کا جھنڈا گاڑنے کے خواہش مند نہ تھے جو ” آئیڈیالوجی ” کی بنیاد پر لوگوں سے جینے کا حق چھیننے کے خلاف تھے ، فیصل نے ابجیت رائے کو چھاپا جب اس بنگالی نوجوان کی تحریروں کو کوئی چھاپنے کو تیار نہیں تھا ، فیصل عارفین کا والد کہتا ہے کہ بہت مشکل سے یہ کتاب چھپی اور اس کی اصل قیمت سے کم پر اسے فروخت کرنا پڑا ، سبسڈی ابجیت نے خود دی ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فیصل عارفین ” کس قدر منافع بخش ” کاروبار سے منسلک تھا ، وہ بہشتی زیور چھاپنے یا اسامہ کے امریکیوں کے حلاف فتوی جہاد کو چھاپنے یا شیخ ابن باز کے ممجموعہ فتاوی کو چھاپنے کے حقوق حاصل کرلیتا تو یقین کریں لاکھوں کا فائدہ ہوتا اسے ، وہ تبلیغی نصاب کو چھاپتا تو بہت فائدے میں رہتا اور اس کے اشاعتی گھر کی شاخیں دیکھتے ہی دیکھتے پورے بنگلہ دیش میں پھیل جاتیں
مجھے نہیں پتہ کہ بنگالی ” بانو قدسیہ ، نسیم حجازی ، اشفاق احمد ، ہاشم ندیم ، عمیرہ احمد ” کون ہیں مگر ہوں گے ضرور کیونکہ جماعت اسلامی کے قدم جہاں پڑیں اور ماجد دریا آبادی و اشرف علی تھانوی کی پرچھائیں جہاں پڑے وہاں ایسے ” درویش ادیبوں ” کا جنم ضرور ہوتا ہے اور سعودی فنڈنگ سے سماج میں ایسی آئیڈیالوجی کے زیر اثر ایسا نام نہاد ادب ضرور تشکیل پاتا ہے جو ہر آدمی کو منافقانہ مذھبیت سے آراستہ ضرور کرتا ہے اور بقول کمیلشور وہاں ” انسانی خون ” کے بم پھٹتے ہیں اور اس سے سارے سماج کا چہرہ بھیگ جاتا ہے ،اور یہ ادب ” زندگی ، دوستی اور افزائش نسل ” کا دشمن ہوتا ہے اور ” کالی موت ” کا عاشق اور اپنے قاری کو بس اس کا اسیر کرلیتا ہے اور اس کے اثر میں ایسے ہی ڈرامے اور فلمیں بنتی ہیں تو فیصل عارفین اگر اپنے بنگالی ” نسیم حجازیوں اور طارق اسماعیل ساگروں ” کی کتابیں چھاپتا تو بہت فائدے میں رہتا اور آج زندہ بھی ہوتا
پاکستان میں ” روشن خیال ، لبرل اور بڑے کلغی والے ادیب ، شاعر ، دانشوروں ” کی اکثریت گوشہ عافیت میں جابیٹھی ہے اور یہاں پرانے ” ترقی پسند ” اصغر ندیم سید کی طرح ” دیار غیر ” میں جاکر ڈالر ، پاؤنڈ ، ریال کمانے والے محنت کش ادیب اور شاعروں کے الفاظوں کی قدر وقیمت کا تعین ان کے ” بہت محنت مانگنے والے کام ” کے سبب کرنے سے قاصر ہیں اور ادیبوں کے ” برہمن ” بنے بیٹھے ہیں ، ان کو ” جماعت اسلامی ، جماعت دعوہ ، جے یو آئی اور ان کی کلنگ مشین کو للکارنے کے تصور سے ہی خوف آنے لگتا ہے اور صحافیوں کی زبان بندی کے لئے صرف ایک دھمکی آمیز خط کسی خراسانی ، کسی جھنگوی کی طرف سے آنا کافی ہوتا ہے اور اتنے بودے ہیں یہ کہ سلمان تاثیر ، شہباز بھٹی کے قتل پر ، ایک مسیحی جوڑے کے زندہ جلائے جانے پر ان سے ایک حکومتی ایوارڑ یا اعزاز واپس نہیں کیا جاتا اور جناب ہزاروں شیعہ اور صوفی سنیوں کے لاشوں پر ان سے قاتلوں کا نام لیکر ” لعنت ” کرنے کا مطالبہ ہوتے ہی یہ اپنے بلوں میں جاچھپتے ہیں اور کچھ ایسے ” بے شرم اور بے غیرت ” ہیں کہ جب ” سماج ” کی بچی کچھی ” تکثیریت پسندی ، تھوڑا بہت سیکولر کلچر ” حملے کا نشانہ بنے تو یہ ” طاہر اشرفی ” کو مآڈریٹ اور امن کا پیامبر ثابت کرکے اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کو کہے ” قاتلوں کے پیچھے مت چھپو تو انہی جیسے دوسرے قاتلوں کی چلی گولیوں کا حوالہ دیکر مظلوم بننے کی کوشش کرتے ہیں
فیصل عارفین خوش قسمت تھا کہ وہ مرنے کے بعد ڈھاکہ کی سنٹرل مسجد کے اندر اپنی نماز جنازہ ہوتے دیکھنے کے قابل ہوا اور آج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اس کے گھر پر اس کی روح کو ایصال ثواب ” پہنچانے ” کے لئے اس کا سیکولر بنگالی مڈل کلاس گھرانہ جس میں ہر دوسرا شاعر ، ادیب ، لکھاری ہے رسم قل کررہا ہے ، دانوں پر کلمہ پڑھ کر اس کی روح کو ثواب بھیجا جارہا ہے اور ایک صوفی سنّی مولوی تھوڑی دیر ميں ” ختم خواجگان ” پڑھنے والا ہے ، زرا دیکھئے تو سہی جسے ” ملحد ، مرتد ، کافر ” کہہ کر مارا گیا وہ سفید براق کفن میں لپٹا ہوا لیٹا ہے اور اس کی لاش سے لپٹنے والی یہ عورت اس کی ماں ہے یا خالہ میں نہیں جانتا ، یہ تصویر ” روزنامہ اتفاق ” ڈھاکہ میں شایع ہوئی ہے ، اور میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ فیصل عارفین کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے بہیمانہ قتل پر اس کی ناشر برادری نے تین دن سوگ کا اعلان کیا اور اپنی دکانیں بند رکھیں اور آج ڈھاکہ پریس کلب کے سامنے وہ انسانی زنجیر بنانے والی ہے ، یہاں کیا ہوا ، سلمان تاثیر کا جنازہ پڑھتے وقت تو پھر بھی اس کی پارٹی کے کچھ لوگ موجود تھے لیکن ” رسم قل ” پر سب غائب تھے کیا وزیر ، کیا مشیر کوئی بھی نہیں تھا اور راشد کے جنازے پر چند درجن لوگ تھے اور سلمان کی طرح اسے کوئی مولوی جنازے کے ۂغے میسر نہ آسکا تھا اور کسی ادبی ، آرٹسٹ ، سائنس دانوں کی تنطیم کا کوئی احتجاجی مراسلہ پریس میں نہیں گیا تھا ، اسے کہتے ہیں اپنے ہی دیس میں غریب ہوجانا اور وہ بھی ” چند لفظوں ” کی خاطر
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر