یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوروکریسی کے ہر افسر کو ماہانہ پٹرول اور پتا نہیں کس کس مد میں لاکھوں روپے ملتے ہیں، بیرونِ ملک دوروں اور تربیتی کورسز پر کروڑوں روپے خرچے جاتے ہیں۔ مزید افسوس یہ کہ ایک ایک پی ایچ ڈی پر کروڑوں روپے لگائے جاتے ہیں۔ نہر کے کنارے جشنِ بہاراں ’’منانے‘‘ کے لیے پلاسٹک کے بے ہنگم گملوں اور چینی لائٹوں سے سجاوٹ پر بھی کروڑوں لگائے جائیں گے۔ کسی لیڈر کے استقبال کی خاطر فلیکس اور بڑے بڑے بورڈز بھی کروڑوں کا کھیل ہیں۔
مگر کتابوں پر شکنجہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بے وقوف معاشرے کی نشانی ہے۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی میں بھی ایک کتاب میلہ لگا کرتا تھا، جسے جمعیت کھا گئی۔ لے دے کر ایک لاہور ایکسپو کا سالانہ بُک فیئر بچا ہے۔ وہاں 10×10 کے ایک سٹال کا پانچ روزہ کرایہ اب 70 ہزار روپے کر دیا گیا ہے جس میں صرف ایک کرسی میز ہی لگتا ہے۔ چنانچہ درمیانے درجے کے پبلشر یا بُک سَیلر کو کم ازکم تین چار سٹال لینا پڑتے ہیں۔ چنانچہ اُسے دو تا تین لاکھ کرایہ دینا پڑتا ہے۔ کتابیں ڈھونے، عملے کے اخراجات، کھانے پینے وغیرہ پر بھی ایک لاکھ لگ جاتا ہے۔ اگر کوئی شہر سے باہر کا پبلشر ہو تو اُس کا خرچ دو تین لاکھ تک ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہر پبلشر کا خرچ چار تا چھے لاکھ ہو چکا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ وہ دس پندرہ لاکھ کی سیل کرتے ہوں گے جو منافع کما سکیں؟ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ کتاب میں منافع ہے، لیکن اتنا بھی نہیں۔
نتیجتاً بہت سے چھوٹے پبلشرز اب شرکت سے گریز کرنے لگے ہیں۔ پھر بھی اِس معاشرے کو زندہ رکھنے کے لیے یہ تھوڑی بہت کاوش ابھی جاری ہے۔ ہم جیسوں کے لیے اِس بے وقوف معاشرے میں اب یہی ایک تہوار بچا ہے۔
یاد رہے کہ اوپری منزل پر بنی کینٹین والے کتاب بیچنے والوں سے زیادہ منافع کماتے ہیں۔ وہاں چائے کا ایک کپ سو روپے کا، بریانی کی ننھی سی پلیٹ 380 روپے، ایک پیزا سلائس 200 روپے کا ہے۔ یعنی اگر آپ ایک بریانی کی پلیٹ کے ساتھ پانی بوتل لیں اور بعد میں چائے پئیں تو چھ سو روپے لگیں گے۔ صرف ایک کپ چائے اور ایک پانی بھی دو سو روپے میں پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر