نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیا، پرانا، سب سے پہلے، اور ’’ہمارا پاکستان‘‘ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قومی اسمبلی کے ہال میں، قومی سلامتی کمیٹی کے اِن کیمرہ سیشن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ طاقت کا محور عوام ہیں اور اختیار منتخب نمائندوں کا، یہ بھی کہا کہ نئے اور پرانے پاکستان کی بحث چھوڑیئے کہ اب ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے۔

اِن کیمرہ سیشن میں سول قیادت اور عسکری نمائندوں نے اور بھی باتیں کیں۔ دلچسپ، سبق آموز، کچھ سوالات بھی اٹھائے گئے۔ ان کے جوابات ملے یا گل فیر تے پے گئی؟ ہم آگے چل کر ان پر بات کرتے ہیں۔

فی الوقت یہ کہ نئے اور پرانے پاکستان کے ساتھ سب سے پہلے پاکستان والے سارے تجربے بہت تلخ ثابت ہوئے۔ عوام طاقت کا محور ہیں والی بات بظاہر کانوں کو بہت بھلی لگتی ہے مگر حقیقت میں اس ملک میں طاقت کا محور کون اور کہاں ہے یہ راز تو نہیں۔ طاقت کے محور سے ہوئے تجربات نے ہمیں جہاں لاکھڑا کیا پہلے اس کا حساب کرلیا جائے تو مناسب رہے گا۔

یقیناً فرد ، محکمہ اور ادارے سبھی کو آئین اور پارلیمان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ زبانی کلامی کھڑا ہونا ہے تو وہ پچھتر سال سے کھڑے ہیں۔اب عمل کی ضرورت ہے اور عمل کا مطلب تقاریر اور وعدہ نہیں عملی طور پر اظہار ہے۔

پرانے پاکستان میں ہوئے تجربوں اور گھٹالوں کی بات اگر جولائی 1977ء کے بعد سے ہی کرلی جائے تو غنیمت ہے۔ اصل میں تو حساب بٹوارے کے اس دن سے شروع ہونا چاہیے جو مسلم فلاحی جمہوری ریاست کے ٹرک کے پیچھے لگانے والوں کی وجہ سے مسلط ہوا۔

پھر اس ٹرک کو قرارداد مقاصد کے کنٹینر میں ڈال دیا گیا۔ جغرافیائی سرحدوں کی جگہ نظریاتی سرحدوں کا سودا، بھلا اس خوانچہ گیری کا فائدہ کس کو ہوا اور نقصان وہ تو ظاہر ہے لوگوں کا ہوا۔

معاف کیجے گا عوام تو اس ملک میں ہیں ہی نہیں عوام ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ قرارداد مقاصد نظریاتی سرحدوں، حب الوطنی، عظیم دفاعی صلاحیت، دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اور اس جیسی دوسری بہت ساری باتوں نے رعایا کو عوام بننے سے روکا۔

کون چاہتا تھا کہ رعایا عوام نہ بننے پائے؟

کیا اس سوال کا جواب سطح سمندر کے نیچے سے کھود کر لانا ہے یا مریخ سے؟ ارے صاحب جواب سامنے دیوار پر لکھا ہے۔ پڑھنے کی ہمت کیجئے۔

ہم سیدھے سبھائو آگے بڑھ ہی نہیں سکتے جب تک خودساختہ مالکان اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ کریں۔ اپنے تجربوں کے بھیانک نتائج پر لوگوں سے معافی نہ مانگیں۔ ان کیمرہ سیشن میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قومی اتفاق رائے پر زور دیا گیا لیکن پہلے یہ تو بتائیں کہ یہ دہشت گرد کس کی تخلیق تھے۔ تخلیق کی وجہ اور ضرورت؟ کیا ہم ان کا احتساب کرپائیں گے جو عشروں ہمیں یہ باور کراتے رہے کہ یہ مسلح جتھے نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں یہ نظریاتی سرحدیں کیا ہوتی ہیں ماسوائے ایک قسم کے دھندے کے۔

دنیا میں کہیں اور بھی نظریاتی سرحدیں پائی جاتی ہیں؟ کم از کم ہم سا طالب علم تو اس سے ناواقف ہے۔

چلیں ہم پرانے اور نئے پاکستان کی بحث نہیں کرتے ’’ہمارا پاکستان‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ کیا ہمارے پاکستان کا حق ملکیت ہم عامیوں کے پاس ہوگا؟

یعنی ہمیں فیصلہ سازی کی آزادی ہو ہر شخص اور ادارہ دستور و قانون کے تابع ہو عام آدمی ماچس خریدنے پر ٹیکس دیتا ہو تو کسی کو ٹیکس فری کاروباری ایمپائر کھڑی کرنے کا حق نہ دیا جائے۔

جس کا جو کام ہے وہ کرے۔ مثال کے طور پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانا ماہرین تعمیرات کا کام ہے سرکاری محکموں کا نہیں۔ دودھ، دلیہ، سیمنٹ وغیرہ بنانا یا بینک چلانا یہ تو کاروبار ہیں۔ کاروبار کاروباری لوگوں کو کرنے چاہئیں اسے بھی چھوڑیں کوئی یہ بتائے کہ کس ملک میں مسلح افراد کے افسروں کو ریٹائرمنٹ پر جدید اپارٹمنٹ، ڈی ایچ اے کے پلاٹ اور زرعی اراضیوں کے ساتھ نئی ملازمتیں بھی دی جاتی ہیں؟

مثال کے طور پر دنیا بھر میں معلم (استاد) سب سے زیادہ لائق احترام ہوتا ہے تنخواہ بھی معقول ہوتی ہے یہی استاد ہمارے یہاں کس حیثیت کا حامل ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس کے خاندان پر کیا گزرتی ہے کیا ایک پرائمری ٹیچر ریٹائرمنٹ پر اپنے بچوں کو چھت دے پاتا ہے؟

معاف کیجئے، پرانے پاکستان، نئے پاکستان اور مشرف والے سب سے پہلے پاکستان کی طرح دستیاب ” ہمارے پاکستان ” میں ایک جیسے حالات ہیں بے نظیروں کے۔

کیا ان لوگوں کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے لسانی اور مسلکی عسکری تنظیمیں بنوائیں۔ دہشت گردوں کو عشروں تک اثاثہ قرار دیا۔

چلیں اسے بھی چھوڑیں کیا ہم اپنے افغان پالیسی سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاسکتے ہیں۔ بہت ادب کے ساتھ عرض کروں یہ ہمارا پاکستان بھی، نئے پرانے اور سب سے پہلے پاکستان والے ٹرکوں جیسا ایک ٹرک ہے لیکن حضور ہم میں اب ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے کی سکت نہیں رہی اب اگر کسی کو اس ملک کی رعایا سے ہمدردی ہو ہی گئی ہے تو دو کام کیجئے، بلاوجہ کے بھاری بھرکم دفاعی اخراجات میں کمی کیجئے۔ بیرون ملک اور اندرون ملک دشمن گھڑنے کا کارخانہ بند کرادیجئے۔

آپ ایک دو قدم نہیں بلکہ اپنی حد میں پہنچ کر اپنے پیشہ ورانہ فرائض پر توجہ دیجئے۔ ماضی کی غلطیوں پر معذرت سے آپ کی ناک نیچی ہوتی ہے تو نا کیجئے ہم بھی ماضی کو بھول جاتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔

لیکن اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ پھر ہمارے کانوں میں بلڈی سویلین کے انگارے کوئی نہیں ڈالے گا۔ کوئی ہمیں کسی ملاقات پر یہ نہیں کہے گا

’’یو نو آئی ایم انڈر سٹینڈ آل پرابلم دس نیشن اینڈ کنٹری ، بٹ یو ڈونٹ انڈرسٹینڈ‘‘۔

حضور اعتماد سازی کا فقدان ہے اس کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ عوام کے ملازم عوام کے ملازم ہیں۔ حاکمیت اعلیٰ عوام کی ہے عوام کے نمائندے جو دستور اور قانون بناتے ہیں اس کی پاسداری اور اس پر عمل سب کا فرض ہے۔

کیا ہمیں سوویت یونین کے تحلیل ہونے سے یہ سبق سیکھ نہیں لینا چاہیے تھا کہ جدید ہتھیاروں کے ذخائر اور بڑی فوج جغرافیہ قائم رکھنے کی ضمانت نہیں ؟

بہرحال اب ضرورت اس بات کی ہے کہ طاقت کا محور ہونے کے زعم کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کے سراب سے نجات حاصل کی جائے۔ ہر شخص اور محکمہ اپنا اپنا کام کرے اپنے فرائض بجالائے۔ مزید تجربے کرنے کے شوق کو دفن کردیا جائے۔

لاریب دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ 80ہزار افراد قربان کرکے جو تھوڑی بہت کامیابی ملی تھی اس کا سودا کس نے کن مقاصد کے لئے کیا۔ اس امر کو بھی اب یقینی بنایا جائے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بجٹ لینے والا کوئی محکمہ اور ادارہ عوام کے منتخب نمائندوں کی پارلیمان میں حساب کتاب دینے کو توہین نہ سمجھے۔

اسی طرح کسی بھی محکمے کے ریٹائر افسر کو ریٹائرمنٹ پر نئی ملازمت نہ دی جائے تاکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نئی نسل کو موقع ملے وہ اپنی صلاحیتوں کا تعمیر نو کے عمل میں شریک ہوکر مظاہرہ کرے ۔

دشمن گھڑنے کی پالیسی بھی ترک کردی جائے۔ محرومیوں کی شکایات کرنے والے طقبات سے حکومت بیٹھ کر بات کرے ان کی شکایات دور کی جانی چاہئیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ملکی قوانین کا یکساں اطلاق ہو۔

ڈومیسائل کے امتیاز سے پیدا ہوئے مسائل کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستانی فیڈریشن پانچ قومی اور ظاہری طور پر چار صوبوں کی فیڈریشن ہے۔ وفاقی ادارہ کوئی بھی ہو اس میں نمائندگی کے حوالے سے موجود عدم توازن کو کم سے کم وقت میں دور کیا جانا ازبس ضروری ہے۔

اسی طرح ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار کا ازسرنو جائزہ لے کر اسے دنیا بھر کی طرح معقول بنایا جائے چند چیمبرز اور خاندانوں کی نسل در نسل بالادستی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

چلیئے ہم نئے اور پرانے پاکستان کی بحث ترک کردیتے ہیں سب سے پہلے پاکستان والے دور میں لگے زخموں کو بھی بھول جاتے ہیں اب بتایئے ہمارے پاکستان میں ہم زمین زادوں کا حق ملکیت تسلیم کیا جائے گا۔

ہماری حاکمیت اعلیٰ کے حق کو بھی؟

حرف آخر یہ ہے کہ باتیں ہم نے بہت سنں لیں تجربوں کے نتائج بھی بھگت لئے اب بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلیں باوقار انداز میں زندگی کو انجوائے کریں اور محرومیوں کا طوق گلے میں ڈالے قبروں میں نہ اتریں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author