نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنتے چلے آئے ہیں کہ انصاف اندھا ہوتا ہے مگر اب پتہ چلا کہ انصاف کا دل بھی ہوتا ہے جو دھڑکتا ہی نہیں تڑپتا بھی یہ تڑپ پنجاب میں صوبائی انتخابات کرانے کی خواہش تھی اور یہ خواہش ایک ایسے لاڈلے کی تھی جس کے کنسرٹ شو میں جج صاحبان کی فیملیز بھی جاتی ہیں جس کا برملا اقرار سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس بھری عدالت میں کر چکے ہیں ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ تاریخ کی ہر بڑی ناانصافی عدالت کی دہلیز پر ہوئی ہے مگر ہم نے عدالتوں کو مقتل گاہ اور ججوں کو جلاد کے روپ میں دیکھا ہے ۔ میں نے دنیا عدالت میں تاریخ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا پھر بھی خلق خدا کو کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ عدلیہ کا احترام کرو جو باشعور قوموں پر انتہائی ظالمانہ جبر اور غیر انسانی سلوک ہی کہا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ کے اس اعتراف جو انہوں نے ٹی وی چینل پر کیا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی غلط تھی جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ کا شمار ان ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی، جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ نے انٹرویو میں بتا دیا تھا کہ اگر عدالت بھٹو صاحب کو پھانسی نہ دیتی تو جنرل ضیا عدلیہ کو ہی ختم کر دیتے، انتہائی پریشان کن بات یہ ہے ہماری عدلیہ اپنے وجود پر بھٹو صاحب کے خون کے نشانات ہونے کے باوجود چاہتی ہے کہ اس کے سامنے سر جھکا کر پیش ہوں ۔ سچی بات یہ ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے بےگناہ ہونے کا عدلیہ سے سرٹیفکیٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تاریخ انہیں اپنا ھیرو قرار دے چکی ہے ،قدرت بھی ان پر مہربان ہے ان کے مزار پر کروڑوں انسان حاضر ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، درود شریف کا تحفہ بھیجتے ہیں، آنسوؤں کا خراج پیش کرتے ہیں ، دکھی انسان ان کےمزار پر مرادیں مانگتے ہیں معاف کیجئے گا انہیں کسی جج سے بے گناہی کا سرٹیفکیٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر ضرورت ہے تو عدلیہ کو جو اپنے جرم کا کفارہ ادا کرے ۔
مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے ہماری عدلیہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرتی ہوتی نظر نہیں آتی ، ایک منصف افتخار محمد چوہدری بھی ہوا کرتا تھا مگر انہیں جرات نہیں ہوئی کہ آئین شکن پرویز مشرف کو کٹہرے میں لائے مگر آئین سے وفاداری پر ثابت قدم عوام کےمنتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا، کوئی بابا رحمتہ بھی آیا تھا جو سندھ میں ہسپتال پر تو چھاپہ مارتا تھا مگر نیب کی تحویل میں ہلاک ہونے والے قیدیوں کا خیال تک نہیں آیا حالانکہ بعد از مرگ قیدیوں کے لاش زنجیروں میں جکڑے کی تصاویر میڈیا پر آئین، کوئی گلزار بھی آئے جس نے غریبوں کی جمع پونجی جو کسی فلیٹ کی صورت میں تھی وہ زمین بوس کرکے اپنی روح کو تکسن دی اب بندیال صاحب ہیں کوئی فاروق بندیال نامی مجرم ان کے وجود کا حصہ ہیں، حق بات یہ ہے کہ اگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد میثاق جمہوریت کے روح کے مطابق ججوں کی مقرر کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا جاتا تو آج یہ صورتحال ہر گز نہ ہوتی ۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ