رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ معلوم نہیں کل کیا ہوگا۔ بے یقینی کی کیفیت میں ہم نے ایک اور سال گزار دیا۔ اب جو شخص ملے اور جہاں ملے‘ یہ سوال ضرور پوچھتا ہے کہ آپ کے خیال میں اب کیا ہوگا؟ جواب میں کئی سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ خود اپنے آپ سے سوال کرلیں اور دل ہی دل میں جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں‘ کسی ملنے جلنے والے دوست اور دیگر احباب سے پوچھیں تو کوئی کچھ نہیں بتا سکے گا کہ آخریہ صورتحال کیا رُخ اختیار کرے گی۔ ان مختصر جملوں کے بعد میں نے لوگوں کو کچھ دیر کے لیے اپنے آپ میں گم ہوتے دیکھا ہے۔ گہری سوچ میں ڈوب جاتے ہیں‘ جو دراصل پریشانی اور مایوسی کی نشانی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے 365 دن ہم پر بہت بھاری گزرے ہیں۔ لوگ اب اپنے بارے میں پریشان ہیں‘ گزارہ کیسے ہوگا‘ امن و امان کی کیا صورت بنے گی‘ گاڑیوں اور گھروں کی بات چھوڑیں‘ روز مرہ استعمال کی چیزوں کی خریداری عام لوگوں کے ہوش اُڑا دیتی ہے۔ ہم اور ہماری قوم کئی سانحوں‘ المیوں اور بحرانوں سے گزری ہے‘ مگر تیرہ جماعتی سرکار نے معاشرے اور معیشت کو جس تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا‘ سوچتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جو کرتب گزشتہ سال آج کے روز ہوا‘ یہ سب اُسی کے مظاہر ہیں۔ دھڑلے سے ادھر اُدھر سے اکٹھے کرکے قوم پر مسلط کردیے گئے۔ ملک کی تاریخ میں بڑے بڑے یوٹرن دیکھے ہیں مگر کپتان کے مقابلے کے لیے سیاسی محاذ کی اشد ضرورت نے ماضی کے سب ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ یوٹرن تین رخی تھا۔ دوبڑی جماعتوں کی قیادت کا ایک دوسرے کے بارے میں بیانات اور بیانیوں کا‘ ووٹ کو عزت دو کی بے توقیری کا اور وہ سب جو معیشت کی تباہی کے ذمہ دار اور بڑے بڑے کرتبوں سے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی صف میں جگہ بنا چکے تھے‘ دوبارہ حکومت ان کے حوالے کرنے کا یوٹرن تھا۔ ایسا سہ رخی اتحاد ہم نے اپنی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا۔ جو کمالات اور ہنر مندیاں ایک سال کے اندر انہوں نے اپنے مقدمات‘ احتسابی قوانین اور حکومتی اداروں میں تعیناتیوں کے سلسلے میں دکھائی ہیں‘ وہ سب متحدہ محاذ برائے باہمی اعانت کی عنایات ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ہم تو بے بس ہیں اور عوام بھی اپنے جیسے بے بس جبکہ وہ جو کچھ اس ملک اور قوم کے مستقبل کی فکر رکھتے ہیں ان کو بھی بے بس پاتے ہیں۔ طاقت کے اس کھیل کے ہم تماشائی رہے ہیں۔ چاچا کرکٹ سے ہمارا کردار ایک لحاظ سے ملتا جلتا ہے کہ وہ قومی جھنڈے کے رنگ کا کرتا پہنے دنیا میں جہاں بھی قومی ٹیم میدان میں اترتی ہے وہ جوش او رجذبہ پیدا کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ہم بھی سیاست میں قومی ٹیم کے ساتھ ہیں‘ مگر ابھی تک ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں کہ کہیں نظر نہیں آرہی۔ کرکٹ اور سیاسی ٹیم میں بڑا فرق ہے۔ کرکٹ میں سلیکٹرز ہوتے ہیں‘ جنہیں ہم ماہرین کہتے ہیں۔ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر دستیاب کھلاڑیوں میں سے ایسی ٹیم منتخب کرتے ہیں جو میدان میں کامیابی حاصل کرے۔ قوم کی سیاسی ٹیم عوام چنتے ہیں‘ ماہرین نہیں۔ اس لیے تو ٹیم میں گیارہ کھلاڑیوں کے باوجود بھی‘ پورا سال بلے بازی کرتے رہنے کے بعد بھی سکور بورڈ پر صفر دکھائی دیتا ہے۔ مسلط کردہ ٹیم نے ہزاروں کی تعداد میں کرائے کے چاچا کرکٹ بھرتی کررکھے ہیں‘ لیکن ان کے حق میں کہیں کوئی تالی نہیں بجائی جا رہی۔ لوگ کہتے ہیں کہ جو انہوں نے ہمارا حال اور ہمارے ملک کا حشر کردیا ہے‘ اس سے تو ہماری چیخیں نکل گئی ہیں۔ اب تو زمانے بدل گئے ہیں۔ یہ اختیار عوام کا ہے اور سیاسی ٹیم سازی کا عمل جس کے بارے میں ہمارے آئین میں وضاحت سے لکھا ہوا ہے‘ یہ بات بھی واضح ہے۔ اور کہیں کوئی انگریزی میں لکھے ہوئے دستور کو سمجھنے میں ابہام پیدا ہوبھی جائے تو تشریح کے لیے عدالت کا دروازہ رات بارہ بجے کھلوایا جاسکتا ہے۔ یہ عوام کے احساسات ہیں۔ اگر ہم ذرا دل اور دماغ کو کھول کر محسوس کرنے کی کوشش کریں تو وہ ہمارے اندر جذب ہو کر فوری طور پر ہمارے دل میں جگہ بنا لے گا۔ چلیں چھوڑیں‘ یہ عوام کیا ہوتے ہیں‘زمینی مخلوق جن کی اہمیت غالب حکمران طبقوں کے نزدیک کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں۔ ہمارے ہاں تو ان طبقات پر جاگیرداری اور قبائلی نظام کی قلعی چڑھی ہوئی ہے۔ عا م آدمی کو احمق‘ بے ایمان‘ خود غرض اور ہر اخلاقی قدر سے محروم قرار دینا تمام استحصالی نظاموں کا شیوہ رہا ہے۔ اس بابت کچھ اور کہوں گا تو اپنا خو ن ہی جلانا ہے۔
اپنا خون تو ہم خود ہی پینے کے عادی ہوچکے‘ مگر عام آدمی کا خون جب کھولنا شروع کردیتا ہے تو اسے روکنا یا محدود کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس سے صرف غریبوں کے کپڑے ہی سرخ نہیں ہوتے‘ سب استحصالی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ یہ خون موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثر آئے دن آنے والے سیلابوں کی طرح ہوتا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ کیا رُخ اختیار کرے گا۔ کس کا گھر بہا لے جائے گا‘کب تھمے گا اور اپنے پیچھے کیا چھوڑ جائے گا۔ ایک عرصہ گزر گیا‘ ہم یہ لکھتے آئے ہیں کہ اب کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔ جو آنے تھے‘ آچکے۔ ہم اکیلے نہیں‘ اور بہت سے ہم جیسے سیاسیات کے استاد ہیں جو یہی بات کہتے رہے ہیں۔ لیکن اب عالمی حالات کے تناظر میں ہمارے جیسی ریاستوں کے اندر جو شدید تنائو اور کشمکش کے مناظر ہم دیکھ رہے ہیں‘ اس سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ہم اس لیے کہتے تھے کہ انقلاب نہیں آئیں گے کہ جمہوریت کی روایت ہر جگہ قائم ہورہی تھی۔ جو اقتدار کا سرچشمہ اصولی طور پر عوام کو قرار دیتی ہے۔ آزادیٔ فکر پنپ رہی تھی۔ سماجی معاشرہ منظم ہورہا تھا اور معیشت کی وہ حالت نہیں تھی جو ہم اب دیکھ رہے ہیں۔ اس سہ رخی یوٹرن اور کپتان کے خلاف سیاسی محاذ نے ہر جانب ٹکرائو کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ تصاد م ہمارے لیے کوئی نئی بات تو نہیں مگر اب یہ بھی سہ رخی ہوچکا ہے۔ آئینی اداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ اور کپتان کی بڑی سرکار کے ساتھ کم از کم بیانیے کی حد تک ٹکرائو کی کیفیت ہے۔ اس کے بارے میں چند سال پہلے تک ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ سب جہتیں ہمارے حال اور مستقبل کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ کھل کر بات کروں تو یہ خطرناک صورتحال ہے۔
ہم اس صورتحال سے نکل بھی سکتے ہیں۔ سیاسی منشا‘ سنجیدگی اور خلوص شرط ہے۔ سیاسی خزانے کی کنجی ایک ا ور صرف ایک ہی ہاتھ میں ہے‘ باقی کہانیاں ہیں۔ آنے والے دنوں کا جو بھی خاکہ بنے‘ فیصلے اسی جگہ پر ہوں گے۔ حالات کا رُخ جو بھی متعین ہو‘ ہر پاکستانی اور ہمارے جیسے سیاست کے طالب علموں کی نظریں اسی جانب اٹھیں گی۔ ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے باہمی اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ سہ رخی تنائو ہے تو سہ رخی مذاکرات بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کا انعقاد ضروری ہے۔ مقصد قومی ٹیم بنانا ہے۔ا س کی ذمہ داری عوام کی ہے‘ کسی اور کی نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ