حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی پانچ دہائیوں سے سیاست ، ارباب اختیار کے طرز حکمرانی، نظام انصاف کی مختلف چھتریوں کے نیچے پناہ، عدالتی فیصلوں اور صحافتی معاملات کو ایک طالب علم کے طور پر دیکھنے سمجھنے کے عمل نے اتنی توفیق عطا کی تھی کہ نظام انصاف کی حدود میں لگنے والے حالیہ تماشوں بارے تواتر کے ساتھ ان سطور میں عرض کرتا رہا کہ جو معاملات دو صوبوں کے ہائیکورٹس میں زیرسماعت تھے ان پر غیرمتعقلہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان کا چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینے کے لئے نوٹ لکھنا سیاسی حکمت عملی میں حصہ ڈالنے کے مترادف تھا۔
یہ بھی کہ اس کے دو نقصان ہوں گے اولاً صوبائی عدالتوں (ہائیکورٹس) کے اختیارات میں مداخلت تنازعات کو جنم دے گی۔ ثانیاً ملک کی سب سے بڑی عدالت کا تماشا لگ جائے گا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ ازخود نوٹس کیس کے 9رکنی بنچ کے ایک رکن جسٹس اطہر من اللہ نے 25 صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ وہ بنچ سے الگ ہوئے نہ انہوں نے اس کا عندیہ دیا بلکہ انہیں تو 27فروری کو چائے کے کمرے میں کہا گیا کہ وہ بنچ میں شامل ہیں۔
پھر بنچ میں شامل نہ کرنے کا تحریری آرڈر دیا گیا نہ بنچ میں شامل کیا گیا۔
ہماری دانست میں اس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ چیف جسٹس پانچ رکنی بنچ کے ساتھ سماعت کرنے پر اس لئے مُصر تھے کہ انہیں اندازہ تھا کہ اگر اطہر من اللہ بنچ میں ہوئے تو ایک طرف فیصلہ تین تین سے کھٹائی میں پڑجائے گا بلکہ چار تین کے تناسب سے ازخود نوٹس مسترد ہونے کا جواز مضبوط ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ، خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے دو جج صاحبان کی سفارش پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس والے 9رکنی بنچ کا حصہ تھے۔ اس بنچ کے دو جج صاحبان حکومت، سیاسی جماعتوں (ان میں پی ٹی آئی شامل نہیں) اور بار کونسلوں کے اعتراض پر بنچ سے ابتدا ہی میں الگ ہوگئے تھے ان دو میں سے ایک جج پر اضافی دبائو سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف دائر کردہ ریفرنس تھا۔ ازخود نوٹس کیس کے فیصلے اور بعدازاں عدالتی حکم سے انحراف کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست کی شنوائی کے لئے مقرر ہونے کے معاملے پر جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی حکمت عملی میں سہولت کاری کا تاثر ہی نہیں ابھرا بلکہ چار تین کے فیصلے کو بلڈوز کرکے سپریم کورٹ کو سیاست میں دھکیل دیا گیا۔
یہ بھی کہا گیا کہ ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیرضروری طور پر سیاسی تنازعات سے دوچار کردیا انہوں آرٹیکل 63 اے پر آئین نویسی کے معاملے کی بھی گرفت کی اور کہا یہ غلط کیا گیا
اختلافی نوٹ کے پیرا 18اور 19میں انہوں نے خود کو بنچ سے الگ کرنے کی تحریری وجہ نہ دیئے جانے اور دیگر ساتھیوں کی آراء کو نظرانداز کرکے ایسا فیصلہ دینے پر سوالات کے ساتھ چند مزید باتیں بھی کیں۔
ان کا سادہ ترجمہ کیا جائے تو انہوں نے چیف جسٹس پر غلط بیانی کا الزام لگایا۔ ان کے خیال میں سپریم کورٹ کو ایک ایسی سیاسی جماعت کے مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا جو پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دیتی ہے اور پھر استعفوں کی منظوری کے عمل میں پارلیمانی قواعد کے تحت عدم شرکت پر استعفے منظور ہوجانے پر عدالتوں سے رجوع کر کے عدالتوں کو اپنی سیاست کا حصہ بناتی ہے
بلکہ اس سے پہلے عدالتوں میں یہ درخواست لے کر بھی جاتی ہے کہ ہمارے استعفے منظور کیوں نہیں کیئے جارہے ۔
انہوں نے دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سیاسی معاہدوں اور ترجیحات و دبائو کے لئے اسمبلیاں توڑ کر آئین کی خلاف ورزی کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت کو درخواست ہی نہیں دیکھنا ہوتی بلکہ درخواست گزار کی نیک نیتی کے ساتھ اس کے ماضی اور طرز عمل کو بھی دیکھنا چاہیے۔
ان کے نزدیک درخواستوں اور ازخود نوٹس کو خارج کرنے کی تین وجوہات ہیں۔ فل کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 184 تھری کے استعمال کے بنیادی اصولوں کی پابندی بنچ پر لازم تھی۔ عدالت کو بھی اپنی غیرجانبداری کے لئے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنی چاہیے تھی۔ درخواست گزاروں کا رویہ اس بات کا متقاضی نہیں کہ 184/3کا اختیار سماعت استعمال کیا جائے۔
ان کے خیال میں ازخود نوٹس چار تین سے مسترد کردیا گیا تھا۔ اب جو کیس موجود ہی نہیں تھا اور نہ فیصلہ تو پھر کیسے عدالتی حکم سے انحراف کی درخواست قابل سماعت قرار پائی اور تنازعات کا دروازہ کھول دیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دو اہم باتیں بھی کیں اولاً یہ کہ سیاسی جماعتیں اپنے معاملات خود طے کرنے کی بجائے انہیں عدالتوں میں لے کر آتی ہیں جہاں کوئی جماعت جیت جاتی ہے اور کوئی ہار لیکن سپریم کورٹ ہمیشہ ہارتی بھی ہے اور متنازعہ بھی ہوتی ہے۔
ثانیاً یہ کہ سپریم کورٹ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اپنے اختلافی نوٹ میں انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ ازخود نوٹس چار تین کے تناسب سے خارج کیا جاچکا تھا‘‘۔
جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ کے اہم نکات آپ پڑھ چکے، ازخود نوٹس جو بعدازاں فیصلے سے انحراف کے خلاف درخواست کی سماعت و فیصلے پر ان سطور میں جو معروضات پیش کی تھیں انہیں باردیگر عرض کرنا ضروری نہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس اختلافی نوٹ نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کی غیرجانبداری اور چند جج صاحبان کی سیاسی دلچسپیوں پر سوالات اٹھوادیئے ہیں۔
مثلاً یہ امر واضح ہوگیا کہ ازخود نوٹس لینے کی سفارش ایک سیاسی جماعت کی سیاسی حکمت عملی میں پرجوش حصہ ڈالنے کی کوشش تھی۔ کیا یہ پرجوش حصہ بلاوجہ تھا؟
ازخود نوٹس لئے جانے پر قبل ازیں عرض کرچکا کہ اس میں چند خاندانوں کی سیاسی وابستگی، جلسوں، دھرنوں اور جلوسوں میں شرکت اور لنگر تقسیم کرنے کے علاوہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی صاحبزادی کو تحریک انصاف کے دور میں پیمرا میں اہم منصب اہلیت نہ ہونے کے باوجود عطا کرنا تھا۔
صاحبزادی سے استعفیٰ اس وقت دلوایا گیا جب سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اور صدارتی فرمان پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا نوٹس لیا تھا۔
یہ سارے امور بہت واضح اور سب کے سامنے ہیں ان کی بنیاد پر تجزیہ نہ بھی کیا جائے تو جو سوالات جسٹس اطہر من اللہ نے اٹھائے اور جن وجوہات کا انہوں نے ذکر کیا اس پر لگی لپٹی کے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کی سفارش کرنے والے جج صاحبان کے سیاسی مقاصد تھے۔
چلیں ساعت بھر کے لئے مان لیتے ہیں کہ سیاسی مقاصد اور مفادات نہیں تھے اور ازخود نوٹس کی سفارش درست تھی لیکن اس پرغور کرنا پڑے گا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے تین رکنی بنچ نے دو ایک کے تناسب سے ازخود نوٹس کیسوں پر جو فیصلہ دیا اسے چیف جسٹس نے اپنے تیین رکنی بنچ میں غیرضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے سامنے وہ معاملہ ہی زیرسماعت نہیں تھا جس پر تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیا۔
اب سوال یہ ہوگا کہ کیا جن دو جج صاحبان نے ازخود نوٹس کی سفارش کی تھی ان کے سامنے دو اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ زیرسماعت تھا یا ایک پولیس افسر کے تبادلے کا؟
بدقسمتی سے افتخار چودھری، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، ثاقب نثار کے بعد یہ حالیہ برسوں میں پانچواں موقع ہے جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ایک سیاسی جماعت کا پشت بان بنائے جانے کا تاثر ابھرا اس تاثر میں جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ نے جو رنگ بھرا ہے یہ کیسے اترے گا؟
ایک آسان اور سادہ سا جواب ہے وہ یہ کہ اختلافی نوٹ میں چیف جسٹس کے عمل بارے جو کہا گیا اس کے بعد کسی تاخیر کے بغیر انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سینئر ترین جج کی سربراہی میں ایسا بنچ بنادیا جائے جس میں ازخود نوٹس لینے کی سفارش کرنے والے جج اور خود چیف شامل نہ ہوں۔
تیسری امکانی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فل کورٹ کی تشکیل کی طرف بڑھا جائے۔ تینوں میں سے کیا ممکن ہے۔ غالباً یہی کہ فل کورٹ یا پھر ایک لارجر بنچ جس میں چیف جسٹس نہ ہوں کیونکہ ان کی دیانت پر سوال اٹھ گیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاسی ترجیحات پر دیئے گئے فیصلوں نے پچھلے دس بارہ برسوں میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے لئے رائے عامہ میں جو رائے پختہ کی ہے وہ اچھی بہرحال نہیں۔ حالیہ فیصلے نے پہلی بار سپریم کورٹ اور پارلیمان کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
ہم اگر اس رائے سے اتفاق نہ بھی کریں کہ موجودہ سپریم کورٹ کے بعض ججز اور کچھ اور عدالتوں کے ججز آج تحریک انصاف کے لئے ویسی ہی گرم جوشی دیکھارہے ہیں جیسی 2011ء سے 2018ء تک اسٹیبلشمنٹ نے دیکھائی تھی تب بھی جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ کے نکات اور خصوصاً پیرا 18اور 19 کو یکسر نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے۔
بظاہر ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ سارا معاملہ فل کورٹ میں لے جایا جائے اس کے علاوہ ہر راستہ انتشار کو بڑھانے کا موجب بنے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ