یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکولوں میں پڑھانا پاکستانی پڑھی لکھی مڈل کلاس خواتین کے لیے ایک آسانی سے دستیاب پناہ گاہ ہے۔ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ صبح بچوں کے ساتھ جائیں گی، اپنے بچوں کی فیس بھی کم ہو جائے گی، اُنہی کے ساتھ گھر واپس بھی آ جائیں گی۔ لیکن اُنھیں معلوم نہیں ہوتا کہ ٹھوڑی پر ٹیکے لگوا کر بیٹھی ہوئی کند ذہن اور زوالِ عمر کے خلفشار میں مبتلا، بھدی اور اکتائی ہوئی پرنسپل وغیرہ اُن کی تعلیم، جوانی، خوابوں اور ذہنی سکون کو چوسنے کے لیے بیٹھی ہیں۔ اُن کی بچت صرف تبھی ہوتی ہے جب وہ خود بھی ایسی بننے کی کوشش شروع کر دیں اور پرنسپل وغیرہ کی جاسوس بن جائیں۔
کورونا کی وبا کے دنوں میں سکولوں نے پوری فیسیں وصول کیں، مگر گیم ٹیچر، لائبریری انچارج اور اسسٹنٹ ٹیچرز وغیرہ کو بڑی تعداد میں نکال دیا۔ لیکن اس کے علاوہ بھی جب کبھی اختلاف پیدا ہو جائے تو کسی روز اچانک بلا کر کہہ دیا جاتا ہے کہ کل سے مت آنا، یا آپ کی مزید ضرورت نہیں رہی۔ اور ضرورت اُن کی بطور ٹیچر سے زیادہ بطور انٹرٹینر ہوتی ہے۔ اُستادوں کی وجہ سے کوئی بچہ سکول نہیں چھوڑتا، بلکہ اِس کے برعکس ہوتا ہے۔ سرکاری سکولوں کی اُستانیاں جب ٹرانسفر کروانے جاتی ہیں تو وہ الگ کہانی ہے۔ یہ سارا نظام بوسیدہ نہیں سڑاند زدہ ہے۔
میں کئی دوست ٹیچرز کو جانتا ہوں جن کا نروس بریک ڈاؤن ہوا۔ پڑھانا اُنھوں نے خاک ہے! اُن سے کہا جاتا ہے کہ آئندہ بچے کی شکایت نہیں آنی چاہیے۔ پراپرٹی ڈیلروں کے بچوں کے لیے سکولوں کا سارا ماحول ایک تفریح گاہ جیسا بنایا جاتا ہے، مگر گراؤنڈ کے بغیر۔ اگر کوئی سکول ’’انٹرنیشنل‘‘ کا ٹیگ استعمال کرے تو صوفے بھی مختلف ملکوں کے جھنڈوں کے پرنٹ والے ریکسین سے بنواتا ہے۔ پرنسپل فخر سے بتاتی ہے کہ یہاں کے بچے بیرون ملک پڑھنے کے لیے ’’تیار‘‘ کیے جاتے ہیں۔ ایک سکول اور یونیورسٹی پر مبنی ادارے نے ایک برانچ کا افتتاح کیا تو مجھے بھی جانے کا موقع ملا۔ مالک آناً فاناً آیا تو پہلے سے جاری تقریر روک دی گئی۔ وہ کسی ٹام کروز کی طرح بہت بڑی گاڑی سے نکلا، گارڈز نے حلقہ بنا لیا، ایک نوکر کوٹ لے کر آیا اور اُسے سب کے سامنے پہنایا، وہ اپنی پونی والے بالوں اور شام کے باوجود گہرے رنگ کے چشمے کے ساتھ تھری پیس میں اِٹھلاتا ہوا سٹیج پر گیا، پتا نہیں کیا تقریر کی اور جیسے آیا تھا ویسے ہی جلدی جلدی چلا گیا۔
کیسا رعب پڑا ہو گا نہ بچوں پر؟ بچوں کے والدین کے لیے بہت عمدہ کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سٹیج پر گھٹیا گانے پیش کرنے کے لیے ایک پست گروپ ہائر کیا گیا تھا۔ تعلیم بہت دور کی چیز ہے۔
تعلیمی نظام پر یہ تحریریں ایک کیتھارسس ہی نہیں، بلکہ خفگیوں کو منظم اور معقول انداز میں سوچنے کا مقصد بھی پورا کرتی ہیں۔ یہ محض واویلا نہیں، ہماری گراوٹوں کی شعوری نشان دہی ہے۔ ایسی باتیں شیئر کرنے سے آپ ہم خیالوں کو اکٹھا کر کے تھوڑی شیئرنگ کر سکتے ہیں تاکہ ہم دانستہ یا نادانستہ اِس بہیمیت کا نشانہ چاہے بنتے رہیں، شکار نہ بنیں۔
(نوٹ: اس تصویر کے بھونڈے اور کاٹنے کو دوڑتے ہوئے رنگ بہت کچھ بتا رہے ہیں)
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر