دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھٹو کی پھانسی بنتی تھی ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4اپریل ہے بھٹو صاحب (ذوالفقار علی بھٹو) کی پھانسی کا دن۔ معاف کیجئے گا بھٹو کی پھانسی بنتی بھی تھی۔

اس پھانسی کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔ 1973ء کا آئین ایک وجہ ہے۔

ایٹمی پروگرام دوسری، روزگار کے ذرائع پیدا کرنا اور لاکھوں افراد کو اندرون و بیرون ملک روزگار دلوانا، یہ جو زندگی میں پہلی بار پاکستان کی سرحدوں سے باہر نکلے روزگار کے لئے ان کی کمائی سے پچھلوں کے دن پھر گئے۔

 

دن پھرتے ہیں تو خدا یاد آتا ہے خدا یاد آئے تو بندے کا دل کرتا ہے مذہب کی خدمت کرے، عبادتگاہیں بنوائے۔

بھٹو کے خلاف 1977ء والی تحریک میں سارے وہ طبقات شامل تھے جنہیں کسی نہ کسی طرح بھٹو کے دور میں فائدہ ہوا تھا۔

بھٹو نے تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لئے، بڑا جرم کیا۔ 80 اور 120روپے لے کر 150سے 300روپے تک کی رسید پر دستخط کرنے والے استادوں کی ملازمت کو قانونی تحفظ مل گیا پھر انہوں نے یونین بنائی

سب سے پہلے جماعت اسلامی کے ہم خیال اساتذہ کی تنظیم بنی۔

آپ پاکستانی تاریخ کے 4اپریل 1979ء سے قبل کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے پھر اس میں سے بھٹو کا حصہ۔ ہر صفحہ آپ کو گواہی دے گا اس کی پھانسی بنتی تھی۔

جی ایچ کیو میں نوجوان افسروں کے ہاتھوں ذلت اٹھاکر بھٹو کو اقتدار سونپا گیا۔ خوشی سے نہیں مجبوری سے۔

 

اس ذلت کا غصہ بھٹو کو پھانسی چڑھاکر اور اس کی بیٹی کو سڑک پر مرواکر بھی کم نہیں ہوا۔ اونٹ جیسا کینا ہے، ختم ہی ہونے کو نہیں آرہا۔

چند ساعتوں کے لئے رک جایئے۔

بھٹو کی پھانسی اس لئے بھی بنتی تھی کہ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو سیاست کوبی ڈی ممبروں کے گھروں سے نکال کر گلی کوچے میں لائے۔ لاریب وہ انسان تھے ولی کامل یا آسمانی اوتار ہرگز نہیں ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں مگر معاف کیجئے گا وہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے نہیں خوبیوں کی وجہ سے پھانسی چڑھے۔

ویسے اچھا ہوا پھانسی چڑھ گئے۔ سپریم کورٹ انہیں بری کردیتی تو کیا ہوتا۔ کوئی خودکش ان کی جان لے لیتا اس کی بھی وجوہات گھڑی جاتیں۔

بھٹو سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اقتدار میں آئے۔

آئے نہیں لائے گئے۔ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت کے ’’بڑے‘‘ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بچے کھچے پاکستان کے اقتدار کی بندربانٹ کے لئے صلاح مشورہ کررہے تھے، نوجوان افسر بپھر گئے۔ اقتدار بھٹو کو منتقل کرنا پڑا۔

ملک ’’ایل ایف او‘‘ کے ذریعے چل رہا تھا۔ ایوب نے 1956ء کے آئین کو کوڑے دان میں پھینکا اس کے صدارتی آئین کو یحییٰ خان نے اٹھاکر پھینک دیا۔ لیگل فریم ورک آرڈر آیا۔ 1970ء کے انتخابات بھی اسی کے تحت ہوئے تھے ون یونٹ ختم کرکے صوبے بھی ایل ایف او نے بحال کئے۔

بھٹو اقتدار میں آئے۔ بلاشبہ وہ مغربی پاکستان کے مقبول ترین رہنما تھے۔ بھارت سے 90ہزار قیدی واپس لانا بھی ایسا جرم تھا کہ ان کی پھانسی بنتی تھی۔ ان کے رفقا جرنیلوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے خواہش مند تھے مگر بھٹو کا خیال تھا کہ اگر ایسا ہوا تو نیا پنڈورا باکس کھلے گا۔ بھارت سے جنگی قیدی رہا کروانے میں تاخیرہوجائے گی۔

بھٹو خوبیوں اور خامیوں میں گندھے انسان تھے آپ کے نزدیک خامیاں زیادہ ہوں گی میرے نزدیک خوبیاں زیادہ تھیں۔ آراء کا اختلاف سماجی شعور کا حُسن کہلاتا ہے۔

وائے ہو ان پر جو آراء کے اختلاف پر کھٹ سے گالی بھونکتے ہیں۔ بھٹو کو کون سی گالی ان کے مخالفوں نے نہیں دی۔ پھانسی چڑھاکر مسلمانی کی تصدیق بھی کی تھی۔

مسلمانی کی تصدیق کے لئے بھی پھانسی بنتی تھی۔

بھٹو نے اردن کے شاہ حسین کی سفارش پر جنرل ضیاء الحق کو آٹھویں درجہ سے اٹھاکر آرمی چیف بنایا پھانسی کے لئے یہی جرم کافی و شافی تھا۔

انہوں نے بی ڈی ممبروں کی غلامی کا طوق پہنے پھرتی رعایا کو ووٹ کا حق دلوایا اس پر ڈبل اور بے زبانوں کو زبان دینے پر ٹرپل پھانسی بنتی تھی۔

4اپریل 1979ء کی صبح بھٹو پھانسی چڑھادیئے گئے۔ واقعی بھٹو پھانسی چڑھ گئے؟

جیل میں لکھی اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ میں وہ کہتے ہیں ’’میں جرنیلوں کے ہاتھوں مر کر تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں‘‘۔ ایسا ہی ہوا، بہت سارے تھڑدلے بونے بوزنے۔ پھبتی کستے ہیں سب مرگئے بھٹو زندہ ہے۔

جی بالکل۔ بھٹو زندہ ہے، آپ ایک کام کیجئے اسے پھر سے پھانسی چڑھائیں شاید اس بار مر ہی جائے۔

بھٹو اور ان کی پارٹی کے خلاف اس ملک میں سب سے زیادہ غلیظ پروپیگنڈہ ہوا۔

عدالتی قتل کے معاونین کے ساتھ اس کے ورثا ایم آر ڈی میں بیٹھے تین دن لنگر تقسیم کرنے والوں کے ساتھ اے آر ڈی میں۔ ظرف کے اس مظاہرہ نے بھٹو کو زندہ رکھا۔

بھٹو نے اس سماج کے کچلے ہوئے طبقات کو زبان دی۔ یہ بھی ایک جرم تھا سنگین جرم۔

بالائی سطور میں عرض کرچکا ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ وہ واحد رہنما تھے جو ملائیت کے فتوے کو روند کر آگے بڑھے اور کامیاب ہوئے (1970ء کے انتخابات میں انہیں ووٹ دینے کو کفر قرار دیا گیا تھا ایک فتویٰ میں) بھٹو کی پھانسی بنتی تھی کیونکہ انہوں نے ستمبر 1976ء میں امریکی سفیر کو جنوبی ایشیا میں اگلے چند برسوں میں آنے والی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے امریکی پٹھو بننے سے انکار کردیا تھا۔

ان کی جگہ جنرل ضیاء الحق نے یہ خدمات سرانجام دیں وہ پہلے اردن میں ایسی ہی خدمات سرانجام دے چکے تھے وہیں سے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی نگاہوں میں آئے تھے۔

بھٹو نے اچھا کیا معافی نہیں مانگی، جلاوطنی کا معاہدہ نہیں کیا۔ ہمارے چار اور کے لوگ اسے غلط سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ زندہ بچ جانا کمال ہے جان ہے تو جہان ہے۔ اپنی اپنی سوچ ہے۔

بھٹو نے جو سوچا اس پر عمل کیا۔ 4اپریل کی صبح پھانسی چڑھے اسی دن سخت پہرے میں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں دفنادیئے گئے۔ جنازے میں مشکل سے بارہ پندرہ لوگ تھے

ان کے قاتل کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ بعض قاتلوں کے جنازے بہت بڑے ہوتے رہے اور ہوئے بھی۔

پتہ نہیں لوگوں کو کیا بیماری کے قاتلوں کی بجائے مقتولوں کی قبروں پر میلہ لگائے رکھتے ہیں۔

بھٹو کی پھانسی، بنتی تھی کیونکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو تھا اور وہ تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بننے کی بجائے تاریخ میں زندہ رہنے کا خواہش مند بھی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author