اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی سے ملتان واپسی!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی سے کل ملتان واپس پہنچا ، صبح کی افسوسناک خبر یہ تھی کہ ملتان کے نامور صحافی اے پی این ایس کے سابق نائب صدر اور روزنامہ آفتاب کے چیف ایڈیٹر ممتاز احمد طاہر اللہ کو پیارے ہو گئے، اللہ پاک مغفرت فرمائے، مرحوم بہت اچھے انسان تھے، اپنے اخبار میں زبان و ادب کی خدمت کے حوالے سے بہت عرصہ تک سرائیکی ادبی صفحہ شائع کرتے رہے۔ دل بہت اُداس ہے، اخبارات میں کوئی خیر کی خبر پڑھنے کو نہیں ملی، کہیں سیاسی عدم استحکام کی خبریں ہیں تو کہیں آٹے کے حصول کیلئے لوگوں کی موت کی خبریں۔ سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ عدالتی بحران سے بھی قوم پریشان ہے۔ ایک خبر کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت کے تھانہ صدر کے قریب دھماکے کے نتیجے میں ڈی ایس پی اقبال مہمند سمیت چار پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔ لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان ملحقہ علاقے ہیں، ان علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات آئے روز رونما ہو رہے ہیں، گزشتہ روز بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں چھ سے زائد دہشت گردوں نے نکواڑہ پولیس کی چیک پوسٹ پر راکٹ لانچر سے حملہ کیا جس پر پولیس نے بھر پور جوابی کارروائی کی اور دہشت گرد زخمی ساتھیوں کو اٹھا کر فرار ہو گئے، خیبرپختونخوا کے مذکورہ اضلاع میں دہشت گردی کے خاتمے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ ٹانک و ڈی آئی خان کو وسیب کا حصہ بنایا جائے اور درہ گومل جو کہ دہشت گردوں کی آمد و رفت کا دروازہ ہے کو بند کیا جائے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں نے برسوں سے پاکستانی قوم کے خون سے ہولی کھیلی مگر سابق نالائق وزیر اعظم نے دہشت گردوں کو معافی دی اور سابق حکمرانوں نے دہشت گردوں کو واپس لاکر پاکستان میں بسایا ۔لیکن اب مسئلہ سابق حکمرانوں کو دوش دینے سے زیادہ فوری اقدامات کا ہے ، افغانستان کے عدم استحکام، بھوک اور غربت سے خانہ جنگی کا خطرہ ہے، خدانخواستہ افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو بہت بڑے نقصان کا خطرہ اس بناء پر بھی ہے کہ اب طالبان کے پاس امریکہ کے چھوڑے ہوئے جدید ہتھیار ہیں، ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن کو تصادم سے ہر صورت گریز کرنا چاہئے اور جمہوری تبدیلی لانی چاہئے، حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان سے گریز کرنا چاہئے، جمہوری نظام چلتے رہنا چاہئے، جمہوریت کا پہیہ پٹڑی سے اترا تو یہ بہت بڑی بد قسمتی ہو گی کہ جمہوریت ہزار خرابیوں کے باوجود بہتر ہے اور آمریت کی ہزار خوبیوں کو ختم کرنے کیلئے ایک لفظ آمریت ہی کافی ہے۔ کراچی کے دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے بہت محبتیں دیں اور بندہ ناچیز کے اعزاز میں مختلف علاقوں میں تقاریب کا اہتمام کیا، سرائیکی رہنما جام اظہر نے نوری آباد انڈسٹریل ایریا کا وزٹ کرایا جہاں تقریباً ڈیڑھ سو صنعتی یونٹ کام کر رہے ہیں اور ان میں نوے فیصد لیبر سرائیکی وسیب کی ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ جونیجو دور میں نوری آباد ، گدون امازئی اور ایک صنعتی زون بستی ملوک ملتان کیلئے تجویز ہوا تھا ، نوری آباد اور گدون امازئی تو قائم ہوگئے مگر بستی ملوک ملتان کیلئے تجویز صنعتی زون کو چونیاںمنتقل کر دیا گیا۔ ملاقات کے دوران میں نے کہا کہ خام مال اور افرادی قوت سرائیکی وسیب میں ہے مگر انڈسٹری دوسرے علاقوں لگی ہوی ہے، اگر وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون قائم ہو جائے تو پورے ملک کی غذائی ضروریات کے ساتھ ساتھ گندم برآمد بھی کی جا سکتی ہے اور ٹیکسٹائل مصنوعات سے اتنا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے کہ پاکستان قرضوں سے آزاد ہو کر قرض دینے والا ملک بن سکتا ہے۔ کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے ، ملک کا کوئی شہر یا گائوں ایسا نہیں جس کے افراد کراچی میں نہ بستے ہوں۔ کراچی کو غریبوں کی ماں اس لئے کہا جاتا ہے کہ ملک بھر کے غریبوں کو یہاں روزگار ملتا ہے، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کا شہر اس لئے ہے کہ کراچی میں تمام بولیاں بولنے والے لوگ آباد ہیں،کراچی میں غربت بہت ہے تو امارت بھی ہے، کراچی میں روزگار ہے مگر سکون نہیں۔ کراچی پہنچنے پر میرے بیٹے طاہر محمود نے مجھے بتایا کہ سٹریٹ کرائم کی شرح میں بہت اضافہ ہو چکا ہے، راہ گیروں سے موبائل ، نقدی اور عورتوں سے پرس چھیننا معمول بن چکا ہے، شہر کی کوئی گلی ایسی نہیں جہاں روزانہ ایک دو وارداتیں سرزد نہ ہوتی ہوں ۔ دراصل وہ مجھے خطرے سے باخبر کر رہے تھے کہ میں اکثر گلشن اقبال کی گلیوں میں نکل جاتا ہوں اور بے پروائی سے موبائل فون کا استعمال کرتا ہوں۔ شہریوں کے تحفظ کیلئے کراچی میں پولیس کے علاوہ رینجرز بھی موجود ہے ، یہ بد امنی سوالیہ نشان ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ سینئر صحافی اور پیارے دوست سعید خاور اور منظور شاہ نے درست کہا کہ سٹریٹ کرائم میں اضافے کی وجہ مہنگائی اور بیروزگاری بھی ہے، حکومت کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ، کرنل (ر) اقبال ملک نے کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول کے ساتھ ملک میں نئے صنعتی شہر آباد کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو کہ درست بات ہے ، بڑے شہروں کے مسائل سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ دیہی علاقوں میں صنعتی بستیاں قائم کی جائیں۔ اس وقت 50 لاکھ کے لگ بھگ سرائیکی کراچی میں مقیم ہیں، ان میں تقریباً 25 لاکھ مرد اور 25 لاکھ خواتین اور ان کے معصوم بچے ہیں۔ اپنے وسیب میں اناج کے انبار ہونے کے باوجود یہ لوگ اپناگھر چھوڑنے پر مجبور کیوں ہوئے ؟ یہ آج کا بڑا سوال ہے۔ ان مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ وسیب میں صنعتی بستیاں آباد کی جائیں تاکہ لوگ اپنے وسیب اور اپنے گھروں میں رہ کر کام کر سکیں۔

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: