یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا آپ نے کبھی بچوں کے سکول ماہانہ میٹنگ کے دوران ٹیچر یا پرنسپل یا دیگر انتظامیہ سے یہ پوچھا ہے کہ وہ کونسی تعلیمی تھیوری پر عمل کر رہے ہیں؟ کیا وہ behaviorism کے تحت چلتے ہیں یا cognitivism کے مطابق یا constructivisim یا ہیومنزم کے مطابق؟
شرطیہ طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بے چاری ٹیچر سے لے کر پرنسپل تک کسی کو بھی معلوم نہیں ہو گا۔ بہت سے سکولوں کی مختلف برانچز کے معیار بھی مختلف ہیں۔ مثلاً بیکن ہاؤس جوہر ٹاؤن اور بیکن ہاؤس ڈی ایچ اے میں فرق ہو گا۔ اُن کے گراؤنڈز، بچوں کو دی جانے والی سہولیات، حتیٰ کہ ٹیچرز کے لباس بھی فرق ہوں گے۔ روٹس اور ایل جی ایس، سٹی سکول اور لاکاس میں بھی ایسا ہی ہے۔ پھر اِن سب کے اپنے اپنے ’’کم آمدنی‘‘ والوں کے لیے اضافی اور ضمنی ’’سکول سسٹم‘‘ بھی ہیں۔ جیسے مٹن چنے میں بوٹی نہ ڈلوانی ہو تو سادہ چنے کی پلیٹ ایک چوتھائی سے بھی کم قیمت پر مل جاتی ہے۔
یہ سب مالکوں کی خباثتیں ہیں جو بچوں میں سرایت کر جاتی ہیں۔ ان خباثتوں کی پہلی سیڑھی عموماً پرنسپل، وائس پرنسپل اور کوآرڈی نیٹرز کے انتخاب میں جھلکتا ہے۔ عام طور پر اِن عہدیداروں نے ہی سکول کو منظم کرنا اور چلانا ہوتا ہے، اور مزے کی بات یہ کہ اِن کا ٹیچنگ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ صرف ٹیچرز کو کھینچ کر رکھنے اور کاروباری و احمقانہ پالیسی لاگو کرنے کے لیے دنیا میں آئی ہوتی ہیں۔ اُن کے عمومی خواص کچھ یوں ہوتے ہیں: شوہر سے علیحدہ یا بیوہ یا کسی اور طریقے سے دور، عمر 45 تا 60 سال، خود ڈرائیونگ کرنا، سکول سے واپس جانے کے وقت کی پروا نہ ہونا، اپنی ہفتہ وار چھٹی نہ کرنا تاکہ دوسروں کی زندگی اجیرن کر سکیں، ٹیچرز کے بدتمیزی، سازشیں، اپنے بچے بیرونِ ملک یا دیگر سکولوں میں زیر تعلیم ہونا، فیشن اور بددماغی، چرچڑا پن، جھوٹی مسکراہٹ۔ میں ایک ایسی کوآرڈی نیٹر یا سیکشن ہیڈ کے متعلق بھی جانتا ہوں جس کے باعث ایک جوان حاملہ ٹیچر کا حمل گر گیا۔ اور ایک کوآرڈی نیٹر نے تو او لیول کی بچیوں اور بچوں کی جنسی سرگرمیوں کو اُبھارنے کے لیے خود بھی شریک ہونا چاہا۔ جب شکایت پرنسپل اور مالک تک گئی تو اُسے مزید ترقی دے دی گئی۔
آپ سکول میں جا کر جس طرح بچے کی ٹیچر سے کبھی کبھی بحث کرتے ہیں، وہ لاحاصل ہے۔ اُن کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا سکول کے انتظامات میں۔ وہ صرف بھگتنے کے لیے بیٹھی/بیٹھے ہوتے ہیں۔ اُن کی کامیابی بس اِسی میں ہوتی ہے کہ آپ کو وہیں سے سمجھا بجھا کر چلتا کر دیں۔ بہت سے سکولوں میں تو اُنھیں تنخواہیں بھی وقت پر نہیں ملتیں۔
فرنچائز برانچز میں کچھ مزید عذاب ہیں۔ مثلاً بلڈنگ مہیا کرنے والا پراپرٹی ڈیلر نما ان پڑھ مالک بطور ’ڈائریکٹر‘ خود بھی سکول میں دفتر بنا لیتا اور اپنا جاہلانہ ایجنڈا بھی لاگو کرتا ہے۔
اِس حوالے سے اتنا کچھ ہے کہ شاید پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ بس اتنا جان لیں کہ سکول والے آپ کو بچے کے والدین اور بچے کو سٹوڈنٹ کے طور پر نہیں بلکہ ’’کلائنٹ‘‘ کے طور پر لیتے ہیں۔ آپ اُن کے لیے پچیس تا چالیس ہزار روپے ماہانہ کے گاہک ہیں اور بس۔ اسی لیے آپ بچوں کے گریڈز کو ’’خریدی ہوئی چیز‘‘ کی طرح لیتے اور اُن کا سیکھنے کا عمل نظر انداز کر دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر