حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ نرم سے نرم الفاظ میں مختلف الخیال سیاسی رہنماؤں کے پچھلے چند دنوں کے بیانات پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ سماجی وحدت اور سیاسی ارتقا کی رہنمائی کے لئے سیاسی عمل میں شریک قائدین کی اکثریت جب زبان کھولتی ہے تو ”پھول جھڑنے“ لگتے ہیں۔ اس صورتحال پر محض یہ کہہ کر دل کو تسلی نہیں دی جا سکتی کہ یہ تو ہماری مروجہ سیاست کے رنگ ڈھنگ ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ طرفین کے حامی نہ صرف ان زبان درازیوں کو درست سمجھتے ہیں بلکہ موقع بے موقع اس میں حصہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔
اس پر ستم یہ ہے کہ ہمارے سماج کے ادیب، اہل دانش اور دوسرے سماج سدھار بھی خاموش ہیں اس صورتحال پر فی الوقت تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ”جل جائے گا سماج تو پانی فراہم کرو گے“ ۔ ارباب سیاست سے زبان درازیوں کا کیا شکوہ، یہاں تو منبر پر جلوہ افروز خطبا ایسے ایسے ذومعنی جملے اچھالتے ہیں کہ سننے والوں کے دانتوں تک کو پسینہ آ جاتا ہے۔ محراب و منبر سے اصلاح معاشرہ اور اخلاقی اقدار کی ترویج کا کام لیا جانا تھا مگر اب وہاں بھی زبان دانی کے ایسے ایسے مظاہرے دیکھنے سننے کو ملتے ہیں کہ رہے نام خدا کا۔
سوال یہ نہیں ہے کہ اگر زبان دانیوں کے یہ فری سٹائل دنگل یونہی جاری و ساری رہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے بلکہ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں پر سماج سدھاری، انسان سازی، اخلاقی روایات کی ترویج سمیت دیگر فرائض عائد ہوتے ہیں وہ خاموشی کا روزہ کیوں نہیں توڑتے؟ ایک رائے یہ ہے کہ یہ طبقات خوف کا شکار ہیں انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے سماجی اخلاقیات و اقدار کے حق میں زبان کھولی تو مختلف الخیال جتھے ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔ سوشل میڈیا کے مادر پدر آزاد سینکڑوں اکاؤنٹس پر ان کے خاندانوں کی ناموس رولی جائے گی۔
یہ خطرہ بظاہر اپنی جگہ درست ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر مختلف آراء کا اظہار کرنے والے سیاستدانوں اور پارٹیوں کے حامیوں سے ہٹ کر جو اہل دانش اپنی نپی تلی رائے کا اظہار کرتے ہیں ان پر سیاسی حامیوں کی آڑ میں چھپے بدطینت افراد ایسے ایسے سوقیانہ جملے کستے اور الزام لگاتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔ اسلام اور اسلامی اقدار کی مالا جپنے والے بھی اب اسی رنگ میں رنگے دکھائی دیتے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اگر اس ساری صورتحال میں اصلاح احوال کے لئے سنجیدہ کوششیں نہ ہوئیں تو اس سے ایسی خوفناک انارکی جنم لے گی جو پورے سماج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گی۔ اصلاح احوال کی کوئی بھی صورت اسی طور کارگر ثابت ہوگی جب مختلف الخیال سیاسی رہنما اور واعظین منبر بھی ان سماجی و اخلاقی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھیں۔ یہاں تو لنکا میں سب باون گز کے مصداق ہے۔ اندریں حالات یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ بدزبانیوں اور دشنام طرازیوں کے اس مقابلے کو مروجہ سیاست کی ضرورت ہے کے طور پر پیش کرنے والے یہ امر بھی بطور خاص مدنظر رکھیں کہ ماضی میں جن لوگوں نے اسے اپنی سیاست کا رزق بنایا ان کا انجام کیا ہوا؟ ایک ایسے ملک میں جس کی مجموعی آبادی کا لگ بھگ 93 فیصد حصہ اس امر کا دعویدار ہو کہ وہ ایک ایسے دین کا پیروکار ہے جو اپنی تعلیمات و اقدار کی بنیاد پر اعلیٰ و ارفع ہے اس ملک کے معاشرے کو تو باقی ماندہ اقوام کے لئے مثالی ہونا چاہیے لیکن یہاں تو معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
ان حالات میں مٹھی بھر بد زبانوں کے خوف سے چپ کا روزہ رکھے ہوئے سماج سدھاروں، واعظین، سنجیدہ سیاسی کارکنوں، اہل علم و دانش کو آگے بڑھ کر نہ صرف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے بلکہ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ ہمارے سیاسی قائدین کو بھونڈی الزام تراشی اور صاحبان منبر کو فرقہ پرستی کے بڑھاوے سے گریز کرنا ہو گا۔ اس بات پر بھی غور کیا جانا ازبس ضروری ہے کہ نبی رحمت ﷺ کا کلمہ بھرنے والی امت کا پاکستان میں آباد حصہ اخلاقی طور پر کہاں کھڑا ہے۔ اسلام تو وحدت کا دین ہے پھر دین کے نام پر نفرتوں کا بیوپار کیوں۔
سیاسی عمل کا مقصد ایک ایسے سماج اور نظام کی تشکیل ہوتا ہے جو دیگر کے لئے مثالی ہو اور دوسری اقوام اس پر رشک کریں۔ ہماری دانست میں کج بحثیوں، فتوے بازی اور مخالف سیاسی جماعتوں و شخصیات کے لئے بدزبانی کو بڑھاوا دینے والوں کو اس فریب مسلسل سے نجات حاصل کرنا ہوگی کہ یہ سب کچھ تو ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ لازم نہیں کہ ماضی میں اگر کچھ لوگوں کو اندھے کنویں میں چھلانگ مارنے کا عمل ترقی کا زینہ دکھتا تھا تو اس کی پیروی کی جائے۔ کامل اطمینان اور شعوری ادراک سے یہ سوچا جانا چاہیے کہ من حیث القوم ہم جہاں آج کھڑے ہیں اس پر فخر کیا جاسکتا ہے؟
اس سوال کا دو لفظی جواب صرف یہی ہے کہ یہ قابل فخر مقام نہیں بلکہ باعث ننگ و آر والا مقام ہے بالخصوص اس صورت میں جب دعویٰ یہ ہو کہ ہم منتخب کردہ دین کے پیروکار ہیں اور انسانیت کی رہبری کے لئے ہمارا انتخاب ہوا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دعوؤں کی تکرار سے جی بہلاتے رہنے کی بجائے عملیت پسندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ ہر خاص و عام کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا تو ہماری آئندہ نسلوں کے حصے میں بربادیوں کے سوا کچھ بھی نہیں آئے گا۔ ہم امید ہی کر سکتے ہیں کہ ان معروضات پر بلا توقف غور و فکر کیا جائے گا۔ سماجی وحدت، اخلاقیات، اقدار اور سیاسی عمل کے ساتھ دینی روایات پر چاند ماری بہت ہو چکی، نفع نقصان کا حساب سب کے سامنے ہے۔
دیوار پر لکھے حساب سے آنکھیں چرانے کا کوئی فائدہ نہیں نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے کہ ابتر صورتحال کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا کر بری الذمہ ہو لیا جائے۔ اس سماجی بربادی کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہر شخص نے اس بربادی میں بساط کے مطابق حصہ ڈالا ہے۔ اپنی اپنی اصلاح کے ساتھ اصلاح معاشرہ پر توجہ دینے کی ضرورت دوچند ہو چکی ہے۔ بگاڑ کو بڑھاتے جانے کی بجائے اصلاح اور تعمیر نو میں حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت سے انحراف کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ”ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں“
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ