نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انگریز گورنر‘ جرمن بیگم…۔۔۔||رؤف کلاسرا

وارن ہیسٹنگز نے جرمن خاوند کو بہت دولت مند کر کے یورپ واپس بھیجا جو وہ نوابوں کے پورٹریٹ بنا کر کبھی نہیں کما سکتا تھا۔ طلاق کے عمل میں کچھ دیر ہوگئی اس دوران وارن ہیسٹنگز جرمن خاتون کے ساتھ ایک گھر میں رہا۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفدر عباس سید جب لندن سے پاکستان آتے ہیں تو ان کے پاس میرے لیے پرانی اور نایاب کتابیں ہوتی ہیں۔ اس دفعہ ان کی پوٹلی میں واقعی کمال کی پرانی کتابیں تھیں۔ ایک کتاب تو مشہور مورخ ٹائن بی کے لکھے خاکوں کی ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں آنے والے اہم لوگوں کے بارے لکھی تھی۔ اس کتاب میں دلچسپ باب وہ ہے جو انہوں نے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو پر لکھا ہے۔ نہرو بارے لکھتے ہیں: ایک دفعہ وہ لندن آئے تو ان کے ایک دوست نے دعوت کی۔ نہرو تازہ تازہ انڈیا سے جیل کاٹ کر آئے تھے۔ جب وہ اس دعوت میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں سامنے سے ایک انگریز افسر چلتا آرہا ہے۔ نہرو اور اس گورے افسر نے ایک دوسرے کو دیکھا تو ایک سین پیدا ہوا گیا۔ پتا چلا وہ انگریز افسر چند دن پہلے ہی ہندوستان سے لندن آیا تھا۔نہرو بھی جیل سے چھوٹ کر ابھی ابھی آیا تھا۔ اس گورے افسر نے ہی نہرو کو انڈیا میں جیل میں ڈالا تھا۔ اب یہ عجیب سی صورتحال پیدا ہوگئی۔ ایک قیدی اور ایک اس کا جیلر ہندوستان سے ہزاروں میل دور سلاخوں کے بغیر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے۔ اب وہ کیا بات کریں۔تاہم ٹائن بی کاکہنا ہے کہ اب اس بات کا پتا نہ چل سکا کہ میزبان کو واقعی علم نہ تھا کہ نہرو اور اس انگریز افسر کے درمیان ہندوستان میں کیا کچھ ہوا تھا‘ لہٰذا اس نے دونوں کو کھانے پر بلالیا تھا‘ یا یہ محض ایک اتفاق تھا یا پھر واقعی میزبان کو اس پوری کہانی کا علم تھا لہٰذا اس نے چسکا لینے کے لیے دونوں کو بلا لیا کہ دیکھتے ہیں ایک دوسرے سے یہاں مل کر انہیں کیسا محسوس ہوتا ہے۔ خیر صفدر عباس سید کی لائی ان کتابوں میں ایک کتاب تو بہت شاندار ہے۔ یہ کتاب ہے:Warren Hastings and British India۔ 1947ء میں چھپنے والی اس غیرمعمولی کتاب کے مصنف ہیں پینڈرل مون‘ جو ہندوستان میں لمبا عرصہ کمشنر رہے۔ پینڈرل مون نے ایک اور شاہکار کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا: Strangers in India،جو میرے خیال میں ہر پاکستانی بیوروکریٹ اور جج کو پڑھنی چاہیے۔خیر ایمانداری کی بات ہے‘ مجھے وارن ہیسٹنگزکے بارے زیادہ علم نہ تھا لیکن پینڈرل مون میرا فیورٹ لکھاری رہا ہے؛ لہٰذا میں نے ویسے ہی شروع کی تو پھر یہ کتاب نیچے نہ رکھی گئی۔
وارن ہیسٹنگز ہندوستان میں‘ برطانیہ کہیں یا ایسٹ انڈیا کمپنی کا‘ 1772ء میں بنگال کا پہلا گورنر لگایا گیا تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال فتح کرچکی تھی‘ کلائیو کی فورسز نے نوابوں کی سلطنتیں ختم کر دی تھیں۔ بنگال کے نوابوں کی آپس کی لڑائیوں کا فائدہ اٹھایا گیا تھا‘ میر جعفر کو مہرہ بنا کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکمرانی شروع کر دی تھی؛ تاہم اس دوران میر قاسم اور نواب شجاع الدولہ نے جس طرح انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی وہ اپنی جگہ بہادری کی مثالیں تھیں جنہوں نے وارن ہیسٹنگز کو بہت متاثر کیا تھا۔ جن دنوں بنگال میں یہ جنگیں لڑی جارہی تھیں وارن وہیں ایسٹ انڈیا کمپنی میں کلرک کے طور پر بھرتی ہو کر لندن سے آیا ہوا تھا‘ لہٰذا اس نے وہ سارا دور قریب سے دیکھا تھا۔ وارن کی لائف بچپن سے ٹریجک رہی تھی۔ برطانیہ میں وارن کا خاندان نواب تھا۔ اپنا محل تھا‘ جائیدادیں تھیں۔ پھر بدقسمتی شروع ہوئی۔ وہاں بادشاہ کے خلاف بغاوت ہوئی۔ سول وار شروع ہوئی تو اس کی لپیٹ میں وارن کا خاندان بھی آیا۔ محل اور جائیدادیں چھن گئیں۔ اس دوران وارن کی ماں فوت ہوگئی‘باپ نے دوسری شادی کر لی۔ باپ بھی کچھ عرصے بعد فوت ہوگیا۔ وارن کو اس کے دادا نے پالنا شروع کیا۔ وہ اپنے محل سے ایک گھر میں شفٹ ہوئے تو زندگی مشکل ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد اس کا انکل لندن سے ملنے آیا تو اسے یہ بچہ ذہین لگا۔ وہ اسے ساتھ لے گیا کہ اگر اسے اچھے سکول میں پڑھایا جائے تو بہت نام پیدا کرے گا۔ دو‘ تین سال بعد اس انکل کی بھی موت ہوگئی تو انکل کے دوست نے سترہ سال کے اس لڑکے کو ایسٹ انڈیا کمپنی میں کلرک بھرتی کرادیا۔وہ کچھ عرصہ بعد ہندوستان بھیجا گیا جہاں اس نے کئی برس گزارے۔ ٹریجڈی نے یہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ پہلے بیوی فوت ہوئی تو بیٹے کو لندن بھجوا دیا۔ کچھ عرصہ بعد بیٹا بھی فوت ہوگیا۔اس دوران اس کا بنگال میں کئی ایشوز پر کمپنی سے اختلاف ہونا شروع ہوا تو اس نے چار سال بعد استعفیٰ دے دیااور لندن چلا گیا۔ لیکن دوسرے گورے افسران کی طرح اس نے ہندوستان میں پیسہ نہیں بنایا تھا۔ اس کے پاس صرف 30 ہزار پاؤنڈز تھے۔ اگرچہ وارن نے بنگال میں کئی انقلاب دیکھے تھے لیکن اس نے دوسروں کی طرح وہاں سے بڑا مال نہیں بنایا۔
دو سال میں وہ سارا پیسہ ختم ہوگیا۔ ایک تو وہ پیسہ خرچ کرنے میں احتیاط نہیں کرتا تھا،دوسرا‘ وہ اپنے ضرورت مند رشتہ داروں کو انکار نہیں کرتا تھا۔جس رشتہ دار نے اس سے پیسے مانگے اس نے دیدیے۔ یوں جلد اس کی جیب خالی ہوگئی۔خیر‘ اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال میں بگڑتے حالات دیکھ کر ایک اچھے افسر کی ضرورت پڑی تو ان کو وارن ہیسٹنگز یاد آیا جسے بنگالی اور اردو زبان آتی تھی‘ جو اس نے ہندوستان میں رہ کر سیکھی تھی۔یوں اسے گورنر جنرل بنا کر بنگال بھیج دیا گیا۔ اس زمانے میں لندن سے ہندوستان بحری جہاز چھ ماہ میں پہنچتے تھے۔ کچھ راستے میں ڈوب جاتے۔وارن کو اس جہاز پر ایک جرمن جوڑا ملا۔ جرمن خاتون اپنے دو بیٹوں اور اپنے خاوند کے ساتھ سفر کررہی تھی۔ اس کا خاوند ایک پینٹر تھا جو اس لالچ میں ہندوستان جارہا تھا کہ وہاں وہ بنگال‘ لکھنؤ یا کلکتہ کے نوابوں کے پورٹریٹ بنا کر پیسہ کمائے گا۔اس جرمن جوڑے سے وارن ہیسٹنگز کی اچھی دعا سلام ہوگئی‘ جب انہیں پتا چلا کہ وہ بھی ہندوستان میں اعلیٰ عہدے پر لگ کر جارہا ہے۔ اس دوران وارن ہیسٹنگزجہازپر سخت بیمار ہوگیا تو اس جرمن خاتون نے اس کا بہت خیال رکھا۔ تیمار داری کی۔ اس دوران پتا نہیں کب دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوگئی اور جہاز پر ہی فیصلہ کیا کہ وہ ایک دوسرے سے شادی کریں گے۔ جب اس کے خاوند کو بتایا گیا تو اس نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا۔ اسے پیسے چاہیے تھے۔اسے ان دونوں کی شادی پر اعتراض نہ تھا۔ وارن ہیسٹنگز اور اس جرمن خاتون کے خاوند کے درمیان بڑے اچھے طریقے سے سب معاملات طے ہو گئے‘ لیکن شادی میں کچھ رکاوٹ تھی۔ جرمنی سے میرج کنٹریکٹ ختم ہونا تھا۔سب سے پہلے تو جرمن شوہر نے وارن ہیسٹنگز سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں اعلیٰ عہدہ لیا۔اب وارن‘ جرمن خاتون‘ اس کا خاوند اور ان کے دو بچے وارن ہیسٹنگز کے ساتھ اس کے بنگلے میں دو سال تک اکٹھے رہے۔ پہلے مدراس اور پھر کلکتہ۔ اس دوران جرمن خاوند کو کمپنی نے لندن بلا لیا۔ طے ہوا کہ جرمن کی بیوی ہندوستان میں وارن کے ساتھ رہے گی۔ اس دوران خاوند جرمنی جا کر طلاق کا عمل مکمل کرائے گا اور اس کے سب سفری اور دیگر اخراجات وارن ہیسٹنگز ادا کرے گا۔ جرمنی میں طلاق کی وجہ یہ بتائی جائے گی کہ میاں بیوی کا مزاج نہیں ملتا لہٰذا وہ مزید اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
وارن ہیسٹنگز نے جرمن خاوند کو بہت دولت مند کر کے یورپ واپس بھیجا جو وہ نوابوں کے پورٹریٹ بنا کر کبھی نہیں کما سکتا تھا۔ طلاق کے عمل میں کچھ دیر ہوگئی اس دوران وارن ہیسٹنگز جرمن خاتون کے ساتھ ایک گھر میں رہا۔ 1772 ء میں جو بحری جہاز پر محبت شروع ہوئی اس کا انجام 1775ء میں شادی پر ہوا۔ وارن اپنی جرمن بیوی سے بہت محبت کرتا تھااور اس خاتون کا اثر ساری عمر اس پر رہا۔ اس جرمن خاتون کے پہلی شادی سے دو بیٹے تھے جن کو وارن ہیسٹنگز نے اپنے خرچے پر پڑھایا اور ان کی بہترین پرورش کی۔اس دن وارن ہیسٹنگز کو پتا چلا کہ اس کی خوبصورت جرمن خاتون جو اَب ہندوستان کے گورنر کی بیوی تھی ‘ ہندوستانیوں سے اپنے خاوند کے ذریعے کام کرانے کے بدلے بڑے بڑے تحائف اور تگڑے پیسے لے رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author