دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گاؤں کے منظور قریشی کا شکریہ…۔۔۔||رؤف کلاسرا

منظور قریشی‘ جو ایک پرانے سیاسی ورکر ہیں اور ہمیشہ پیپلز پارٹی کے حامی رہے ہیں‘ کچھ حیران ہوئے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ میری اس بات پر کیا ردعمل دیں۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر دفعہ گائوں بدلا ہوا ہوتا ہے۔ اب تو گائوں کے اپنے پرائے لوگوں سے گلہ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ شاید گلہ بنتا بھی نہیں۔ وہ لوگ مستقل وہیں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنا اچھا یا برا فیس کرنا ہے۔ ویسے تو گائوں کا کلچر بڑے عرصے سے بدل رہا تھا لیکن اس دفعہ محسوس ہوا کہ اب پورا گائوں بہت جلد دکانوں میں بدل جائے گا۔ ہر طرف دکانوں کی بھرمار ہورہی ہے۔ میں نے ہنس کر کسی سے پوچھا: سوہنڑا جتنی دکانیں یہاں بن رہی ہیں‘ کیا اتنے گاہک بھی اس گائوں میں موجود ہیں؟ دکانیں تو کھل رہی ہیں‘ گاہک کہاں سے آئیں گے؟ وہ بولے: فکر نہ کریں جناب‘ گاہک بھی بہت ہیں۔ بڑا پیسہ ہے۔
گائوں میں بجلی‘ گیس‘ سڑکیں اور سکولز ہونے کی وجہ سے زمینوں کی قیمتیں اچانک بڑھ گئی ہیں لہٰذا اکثر کا اب بیچنے پر زور ہے جبکہ باقی گائوں والوں نے ان زمینوں پر دکانیں بنا کر بیچنے یا کرائے پر دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ جہاں گائوں میں کوئی خالی جگہ نظر آتی ہے اگلی دفعہ جاتا ہوں تو وہاں دکان بن چکی ہوتی ہے۔ اب یہ دکانیں باہر کے لوگ کرائے پر لے رہے ہیں۔ کچھ نے وہاں زمینیں خریدنی شروع کر دی ہیں۔ یوں مجھے سمجھ میں آنے لگا ہے کہ ریڈ انڈینز کا تصور‘ جو امریکہ سے نکلا تھا‘ کبھی پرانا نہیں ہوتا‘ یہ ہر جگہ‘ ہر دور اور ہر زمانے پر لاگو ہوتا ہے۔ ایک مرحلے پر مقامی لوگ دھیرے دھیرے اقلیت میں بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ باہر سے آنے والے اکثریت میں بدلتے ہی مقامیوں پر حکومت شروع کر دیتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی جہاں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں وہیں جرائم پیشہ بھی پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چھوٹے محلوں سے گائوں سے شہروں سے ہوتا ہوا ملکوں تک پھیل جاتا ہے۔
اب گائوں میں کوئی خالی جگہ نہیں رہی۔ شروع میں میں نے اپنے کچھ رشتہ دار نوجوان عزیزوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ گائوں کا حلیہ برباد نہ کریں۔ آپ لوگوں نے یہاں رہنا ہے‘ اس کی خوبصورتی تباہ نہ کریں۔ آپ لوگوں کو پیسے کی کمی نہیں ہے‘ آپ لوگ خود بھی نوکریاں کرتے ہیں‘ بیویاں بھی جاب کرتی ہیں‘ زمینوں سے سالانہ لاکھوں کا ٹھیکہ بھی آ جاتا ہے۔ لالچ میں نہ پڑیں‘ اپنی سرسبز زمینیں رہنے دیں لیکن انسانی مزاج ہے‘ جب تک یہ نوجوان رشتہ دار آپ پر انحصار کررہے ہوں تو وہ آپ کی باتیں سنتے اور مانتے ہیں لیکن جونہی انہیں لگے کہ اب وہ خودکفیل ہوگئے ہیں تو پھر رویہ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ یہی رویہ مجھے دیکھنے کو ملا۔ کبھی ضلعی ٹائون پلاننگ کا محکمہ ہوتا تھا‘ وہ مردہ محکمہ تو اب شہروں میں نہیں رہا بھلا گائوں تک کہاں اس کا اثر ہوتا لہٰذا جس کا جہاں جی چاہتا ہے وہ دیوار‘ گھر یا دکان ڈال لیتا ہے۔ یوں پہلے شہر تباہ ہوئے اور اب گائوں تباہ ہورہے ہیں۔ خیر میں نے دلچسپی لینی چھوڑ دی کہ اگر آپ کی باتیں کسی کو سمجھ نہیں آرہیں تو کل کو خود ہی معاملات ہینڈل کریں گے۔ خود ہی بھگتیں گے۔
ہمارے اس گائوں کے اندر سے ایک فارم ٹائپ سڑک پر راتوں کو آئل ٹینکرز‘ کنٹینرز اور بڑے ٹرک گزرتے ہیں۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ بڑا حادثہ نہ ہو کہ کوئی آئل ٹینکر الٹ نہ جائے اور پورا گائوں لپیٹ میں نہ آجائے۔ میں نے کچھ عرصہ قبل لیہ ضلعی انتظامیہ سے ریکویسٹ کی تھی کہ اس سلسلے کو بند کرائیں۔ گائوں کی آبادی خطرے میں ہے کہ یہ سڑک فارم سے مارکیٹ تک ہے‘ کوئی شاہراہِ عام نہیں ہے۔ محض شارٹ کٹ کے چکر میں آئل ٹینکرز گائوں کے اندر سے تیزی رفتاری سے گزر رہے ہیں‘ کوئی بڑا جانی نقصان ہوگا۔ ضلعی انتظامیہ کی مہربانی کہ ٹیم بھیج کر چیک کرایا تو شکایت جینوئن لگی۔ انہوں نے فوری طور پر اقدامات شروع کیے کہ یہاں سے آئل ٹینکرز یا کنٹینرز اور بڑے ٹرک نہیں گزریں گے۔ جونہی گائوں کے کچھ لوگوں کو پتا چلا تو وہ احتجاج کرنے پہنچ گئے کہ جناب جو ٹریفک گزرتی ہے‘ وہ گزرتی رہے کیونکہ ہمیں اس سے بزنس مل رہا ہے۔ کسی نے سگریٹ لی‘ کسی نے چائے پی یا تیل ڈلوا لیا۔ میری بیوی نے کہا: تمہیں کیا تکلیف ہے‘ وہ سب خوش ہیں کہ دن رات گائوں کے اندر سے آئل ٹینکرز یا کنٹینرز گزریں تو گزرنے دو‘ تم کیوں ان کی بھلائی چاہتے ہو اور برے بن رہے ہو؟ ایک دن تو گائوں بڑی تباہی سے بچ گیا جب ایک ﷰبڑا آئل ٹینکر ریلوے پھاٹک کے باہر لگے سوئی گیس کے سٹیشن سے ٹکرا گیا۔
دوسری طرف زمینیں بیچنا ایک نیا ٹرینڈ بن گیا ہے۔ ایک ایک انچ پر لڑائیاں ہورہی ہیں لیکن میرے اپنے دیہاتی گھر کے سامنے ایک خوبصورت کھیت ابھی تک قائم ہے جہاں پر اس دفعہ گندم اُگی ہوئی تھی۔ مجھے یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگلی دفعہ گائوں جائوں گا تو یہاں بھی دکانوں کی قطار لگی ہوگی۔ زمین بہت مہنگی ہے‘ ورنہ میں خود خرید کر اس سرسبز کھیت کو یوں ہی آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ جاتا۔ ایک دفعہ تو خریدنے کا سوچا تھا لیکن قیمت سن کر پیچھے ہٹ گیا۔ میں گھر سے باہر نکل کر گندم کے اس خوبصورت کھیت کی تصویریں کھینچ کر اپنے موبائل میں محفوظ کررہا تھا کہ اس سرسبز کھیت کے مالک منظور قریشی صاحب اچانک ملنے آگئے۔ وہ ہمارے بزرگوں کے دوست ہیں۔ اچھے محنتی انسان ہیں۔ میں نے انہیں گلے لگایا اور کہا: سر جی میں نے آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ وہ حیران ہوئے کہ وہ ایسا کیا کام کر بیٹھے ہیں جس پر میں ان کا اسلام آباد سے باقاعدہ شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ ہمسائیگی کے علاوہ دوسرا بڑا تعلق یہ بھی ہے کہ منظور قریشی صاحب کے بڑے بیٹے اشتیاق قریشی کے ساتھ گائوں میں بڑا عرصہ اکٹھے کرکٹ کھیلی ہوئی ہے۔ اگرچہ مجھ سے کافی چھوٹا ہے لیکن اچھی کرکٹ کھیلتا تھا۔ وہ اب لیہ پولیس میں جاب کرتا ہے۔ ایک مہذب اور سمجھدار نوجوان۔
میں نے کہا: قریشی صاحب آپ اندازہ نہیں کر سکتے جب میں گائوں آتا ہوں تو آپ کے اس سرسبز کھیت کو دیکھ کر مجھے کتنا سکون ملتا ہے۔ آپ نے ہماری بچپن کی ان یادوں کو بگڑنے نہیں دیا۔ آپ کا یہ کھیت ہی بچ گیا ہے جو مجھے میرے پرانے گائوں کی فیلنگ دیتا ہے ورنہ تو اب پورا گائوں کب کا دکانوں میں بدل چکا ہے۔ آپ کی بڑی ہمت ہے کہ اس دور میں جب میرے اپنے کھاتے پیتے رشتہ دار نوجوان اس بات سے بے نیاز کہ ان کی نسلوں کا کیا بنے گا‘ گائوں کی شکل بگاڑتے جارہے ہیں‘ آپ نے پھر بھی یہ کھیت دکانیں بنانے کے لیے بیچنا شروع نہیں کیا۔ میں نے ہوش سنبھالا تو یہی کھیت دیکھنا شروع کیا بلکہ مجھے یاد ہے کہ گرمیوں میں گندم کی کٹائی کے بعد اس کھیت میں گائوں کے کچھ نوجوان وی سی آر کرائے پر لاتے تھے اور ہم سارے بچے یہیں چارپائیوں تلے چھپ کر بھارتی فلمیں دیکھتے تھے۔ رات کی تازہ تازہ ہوا اور اوپر صاف ستھرا آسمان اور فلموں کے ڈائیلاگز ہمارے دل گرماتے تھے۔ میری سب یادیں اس گائوں اور سب سے بڑھ کر اپنے گھر کے سامنے اس کھیت میں ہیں۔ آپ نے ابھی تک اس کھیت کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ آپ کا شکریہ۔
منظور قریشی‘ جو ایک پرانے سیاسی ورکر ہیں اور ہمیشہ پیپلز پارٹی کے حامی رہے ہیں‘ کچھ حیران ہوئے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ میری اس بات پر کیا ردعمل دیں۔ کچھ دیر بعد انہیں میری بات سمجھ آئی تو وہ مسکرا پڑے اور بولے: کوشش تو کررہا ہوں یہ کھیت گندم ہی پیدا کرتا رہے۔ میں نے آگے بڑھ کر منظور قریشی صاحب کو گلے لگایا اور شکریہ ادا کر کے اسلام آباد لوٹ آیا۔ جب گائوں کے کھاتے پیتے‘ پڑھے لکھے چھوٹے بڑے نوجوان مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پورے گائوں کے سرسبز کھیت ختم کرکے انہیں ایک بڑی دکان بنا دیا جائے‘ وہاں منظور قریشی کا اپنے گندم کے کھیت کو زندہ رکھنا جہاں ایک بڑی نعمت سے کم نہیں وہیں میرے جیسے پردیسیوں پر ان کا ذاتی احسان بھی ہے‘ جن کا سب کچھ وہیں دفن ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author