یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’غیرت‘‘ کا مظاہرہ متنوع اور متعدد طریقوں سے ہوتا ہے۔ ایک دوست کو اپنی بیٹی کی کسی ہم جماعت سے دوستی کا پتا چلا تو شادی کروا دی، نوجوان نہایت غیر ذمہ دار نکلا، طلاق ہو گئی مگر بیٹی نے چند ماہ میں شوہر کے کہنے پر سیگریٹ نوشی شروع کر دی۔ طلاق کے بعد ایک روز غیرت اور شک نے تلاشی پر اکسایا تو بیٹی کے کمرے سے گولڈ لیف کی ڈبی ملی۔ غیرت نے بہت جوش مارا، بڑا مسئلہ ہوا، جواب میں بیٹی کی فیمنسٹ غیرت بھی بھڑک اُٹھی کیونکہ وہ اچھا کماتی تھی۔
میرے ایک دوست نے بیوی کو مرد ڈاکٹر کے ہاتھ لگنے سے بچاتے ہوئے تقریباً اُسے موت سے دوچار کر دیا۔ اُس کی غیرت کے اپنے ہی تقاضے تھے، اور یقیناً اُس کے خیال میں بیوی کو مرد ڈاکٹر سے ’’چیک‘‘ کروانے والے بے غیرت ہی ہوں گے۔
لاہور میں ایک بہت مشہور مرد الٹراساؤنڈ سپیشلسٹ ہے جہاں برقع پوش گھریلو، ان چھوئی خواتین بھی لائن میں لگی ہوتی ہیں، وہ کلینک کے اندر جاتیں اور میموگرافی کرواتی ہیں۔ اُن کے شوہروں کو میل ڈاکٹر پر اعتراض نہیں ہوتا ہو گا کہ ’’چلو وہ تو ڈاکٹر ہے۔‘‘
ہم ایسے بھی کیس جانتے ہیں کہ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے شوہر نے اپنی بیوی کے متعلق کسی کولیگ کا تبصرہ سن کر اُس کا گریبان پکڑ لیا یا غصے میں آ گیا۔ یا متعدد کیسز میں کسی نے اپنی بہن یا بیٹی کو سکول سے صرف اِس لیے اٹھا لیا کہ کسی نے راستے میں اُسے چھیڑا تھا اور اُن کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ لڑکی کو باہر جانے دیں۔
غیرت، عزت، حیا، شرم وغیرہ علاقے، موسم، گروپ، حالات، گردوپیش اور وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔ سعودی مسلمان چہرہ چھپاتی ہیں، ایران مسلمان چہرہ کھلا رکھتی ہیں، ہندوستانی مسلمانوں میں برقع اور پردہ طوائفوں اور نوابوں کی دین تھا۔ اٹک پار سے نکاح کے لیے لڑکی خریدی جا سکتی ہے، یہ اُن کی غیرت ہے۔ لداخ کے ایک علاقے میں ایک عورت کے متعدد شوہر بھی ہوتے تھے، 1920ء کے آس پاس ضلع سیالکوٹ میں بیوی خریدی جاتی تھی۔
نوجوان بہن کی گالی سننے پر غیرت میں آ جاتے ہیں، لیکن دوست آپس میں اُسی طرح ایک دوسرے کو بہن کی گالی دیتے ہیں جیسے یونیورسٹی کی لڑکیاں بِچ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔
ہم تضادات اور رنگوں سے بھرپور ہیں، ہم انسان ہیں۔ نہ یہ تضادات دائمی ہیں اور نہ اِن تضادات کو دبانے کے لیے اختیار کردہ ضابطے۔ شاید اِس سب میں ’’میری مرضی،‘‘ ’’میرا اختیار‘‘ اور possession جیسے جذبے بھی کارفرما ہیں۔ possession سے زیادہ غلط فہمی والی اصطلاح کوئی نہیں، جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ یہاں مقصد ابدی اور ازلی سمجھے گئے ’غیرت‘ کے واہموں کو جھنجھوڑنا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر