یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ سڑک پر اپنی بیوی یا بہن وغیرہ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ کوئی بدتمیز، گھٹیا شخص اُسے چھو کر گزرتا ہے یا قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ اُسے گلے سے پکڑ لیتے اور بہت مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ غیرت مند ہیں۔ اگر وہ آپ جتنا ہی تنومند ہے تو اُسے زبان سے برا بھلا کہتے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ آپ اب بھی غیرت مند ہیں۔ وہ آدمی آپ سے زیادہ تگڑا اور جارحانہ ہے، آپ چپ کر کے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتے اور دل میں بُرا کہتے ہیں، آپ حتیٰ کہ اب بھی غیرت مند ہیں۔
غیرت کا تصور تشدد سہنے یا کرنے کے ساتھ قریبی تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا یہ عموماً وہیں متحرک ہوتی ہے جہاں طاقت کا توازن آپ کے حق میں ہو۔ چنانچہ دفتر میں آئی ہوئی اپرنٹس اور اپنی باس کے ساتھ آپ کا غیرت کا چکر مختلف سمتوں میں چلتا ہے، بیوی بیٹی کی تعلیم اور سمجھ داری کے ساتھ بھی بدلتا ہے۔
آپ ہر وقت دوسروں کو غیرت دلاتے اور خود کو غیرت مند ثابت کرتے نہیں تھکتے۔ کبھی اِس کو کھول کر دیکھیں، اور سوچیں کہ دنیا بھر میں غیرت کا تصور خصوصاً برصغیر میں ہی کیوں ہے۔ کہیں پر یہ قبیلے اور ذات کے ساتھ منسلک ہے اور کہیں پر عہدے اور اثرورسوخ کے ساتھ۔ اور اِن تمام صورتوں میں عورت ہی اِس کا محور ہے۔
جن ذاتوں کو انگریز نے جھگڑالو یا جارحانہ قرار دیا تھا (فوجی مقاصد کے تحت) وہ اِس مغالطے کا زیادہ شکار ہیں۔ مثلاً راجپوت۔ لیکن ہم نے غیرت کی اور بھی بہت سی شکلیں پال لی ہیں۔ یہ سب جارحیت کا بہانہ ہیں۔ ہمارے ہاں غیرت جس چیز کو کہتے ہیں، وہ صرف حملہ آور ہونے کی خواہش ہے۔ چنانچہ ہم ایک قومی غیرت میں بھی مبتلا ہیں۔ دوسرے یہ قانون کی عدم موجودگی کا ثبوت ہے۔ آپ جتنے مہذب ہوں گے، قانون کا سہارا جتنا زیادہ ہو گا، سماجی تحفظ جتنا زیادہ ملے گا، آپ اُتنے ہی ’’بے غیرت‘‘ بن جائیں گے۔ غیرت جارحیت اور تشدد کی اولین کھیتی ہے جس میں ہمارے ہاں ہمیشہ فصلیں لہلہاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر