رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت عرصہ گزرگیا‘ بہت تماشے دیکھ لیے‘ کئی گھڑ سوار خاک اڑاتے آئے اور پیوندِ خاک ہوئے۔ ایسے سیاسی گھرانے بھی ابھرتے دیکھے کہ جب طاقت ہاتھ لگی تو ہم سب کو کیڑے مکوڑے سمجھا۔ ہر نوع کی سیاست بازی‘ طرزِ حکومت‘ انتخابی دھاندلی اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کے خلاف گندی زبان سے لے کر غداری کے مقدمات اور ان جماعتوں کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دینا بھی دیکھا۔ انقلاب‘ ترقی‘ استحکام‘ خوشحالی کے نعرے لگاتے کتنے مقدر کے سکندر قوم کا مقدر سدھارنے وارد ہوئے۔ مجموعی طور پر تیس سال سے زیادہ عرصہ تک تو تین نے ہماری حالت بدلنے کے لیے ہم پر اپنی رہبری مسلط کی۔ سیاسی خدمت گزاروں کی کمی نہ تھی۔ صفوں میں جمہوریت کی مالا جپنے والے دست بستہ کھڑے رہتے‘ جس پر نظرِ عنایت پڑتی‘ اسے بھرتی کر لیا جاتا۔ سب نے اپنی دانشوری کا سکہ جمانے کی کوشش کی جیسے صرف وہی پاکستان کے مسائل اور ان کا حل جانتے ہوں۔ اور یہ حل اسی صورت ممکن ہے جب وہ ایوانِ صدر میں اپنا دربار سجائیں۔ تاریخ کے دریچوں سے بہت سے چہرے آپ کو نظر آجائیں گے۔ اب روایتیں پختہ ہو چکی ہیں کہ اقتدار کسی کی سرپرستی اور دستِ شفقت سے حاصل ہوتا ہے‘ اس لیے خواہ مخواہ انتخابات کا بکھیڑا کیوں کیا جائے ۔ قوم کی خدمت ہی کرنی ہے‘ وہ اس طرح بھی کر لی جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ اس دستِ شفقت کی بھی وہی تاثیر ہے جو کبھی فرمانِ شاہی میں ہوتی تھی۔ بس ایک اشارہ اور خدمت گاروں کی قسمت بدل جاتی۔ ”شعور و آگہی‘‘ کی اس سند کے ساتھ بھرتی کے لیے منتظر رہنے والوں کی صف لمبی ہونے لگی‘ بالکل اسی طرح جس طرح آج کل مفت آٹا لینے والوں کی قطاروں کے مناظر ہیں۔ ایسی کسی بات پر حیرانی ہمارے ذہنوں سے کب کی رخصت ہو چکی۔
جو بھی‘ جس جنس کے گھوڑے پر بھی سوار ہوکر ہمارے اوپر حکومت کرنے کے لیے مقرر ہوئے‘ وہ سب طاقتور تو تھے ہی‘ عقل و دانش اور علم و حکمت کے سب دروازے بھی اُن پر کھلتے اور انہی پر بند ہوتے۔ یہ ان کی صوابدید تھی کہ اس روشنی کا فیض کسے نصیب ہو۔ جس پر ایسے آقائوں نے ہاتھ رکھ دیا‘ وہ معتبر ٹھہرے اور ان کی آواز کا غلغلہ ہوا۔ مزاحمت میں زبان کھولنے‘ آئین اور قانون کی حکمرانی یا ملک اور قوم کے مفاد کی بات کرنے والوں کو قید و بند اور سزائوں کا مستحق دیکھا۔ استاد دامن‘ جو اپنے وقت کے پنجابی کے بہت بڑے شاعر اور سچے دانشور تھے‘ ایک حاکم کے دوغلے پن پر ایک نظم لکھ بیٹھے۔ ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو آج برسوں بعدہم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ تب یہ درویش جامعہ پنجاب میں شعبہ سیاسیات میں استاد تھا۔ غالباً 1976ء کی بات ہے۔ جامعہ کی ایک طلبہ تنظیم نے انہیں دعوت دی تو فرشی نشست کھلے لان میں سجی۔ جو آپ بیتی منظوم انہوں نے سنائی‘ ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔ حبیب جالب اور بے شمار سیاسی کارکنوں کی ہم کیا بات کریں‘ جو ان کے ساتھ بیتی‘ اکثر تو اپنا مقدر سمجھ کر تہہِ خاک چلے گئے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں۔ ظالم اور مظلوم اس ملک میں تبدیل ہوتے رہے۔ اس ہے حیران کیوں ہوں گے کہ زبان کھولنے کی پاداش میں مقدمہ مختلف صوبوں میں درج ہوتا ہے۔ باری باری اس صوبے کی پولیس اس مقدمے کی تفتیش کے لیے سیاسی ملزم کو حراست میں لیتی ہے اور اپنے صوبے جا کر کسی دور دراز کے مقام پر وہ سلوک کرتی ہے جس کے بارے میں گزرے ہوئے ادوار میں ہم نے صرف سنا اور دیکھا تھا۔ آج کل ایسے محترم صحافی ہیں یا تحریک انصاف کی قیادت۔ اب اربوں کھربوں کی کرپشن مستند اور مشہور عالمی اخبارات اور رسائل میں لوٹ مار کے قصے اور دنیا میں پھیلی ہوئی لوٹی قومی دولت کی واضح نشانیاں کوئی جرم نہیں۔ بادشاہ کو کبھی کسی نے ملزم قرار دیا ہے اور نہ دے سکتا ہے۔ اب تو یہ کہنا بھی جرم ہے کہ مجھے کس سے خطرہ ہے۔ اس لیے تو ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ اس ملک میں جو سیاسی شعبدہ بازی ایک سال پہلے دکھائی گئی‘ اس سے دنیا کا اعتبار ہماری صلاحیتوں سے اٹھتا جا رہا ہے۔ دنیا کی فکرمندی میں تو اضافہ ہوا ہے کہ مالی اور اقتصادی طور پر یہ ملک کس طرف جا رہا ہے مگر یہاں تو سب خوش ہیں۔ ان کی خوشحالی میں روزانہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ گوکہ مہنگائی ہے‘لیکن دستِ قدرت رکھنے والوں کی دیہاڑی میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
ہمیں تو حیرانی بھی نہ تھی کہ سب پرانے سیاسی حریف اکٹھے ہو جائیں گے‘ یا یوں کہہ لیں‘ آئین اور جمہوریت کی حفاظت کے لیے متحد کر دیے جائیں گے۔ اس کے بعد عمران خان کو کیسے ہٹایا جا سکتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ عوام کو بھی معلوم تھا کہ ہر اول دستہ تحریک انصاف سے نکل کر اپنی ہی جماعت کی قیادت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرے گا۔ انہیں کیوں حیرانی ہوتی جب یہ ملک کی تاریخ میں بارہویں بار ہورہا تھا۔ ہم تو سمجھ گئے تھے‘ کپتان کے ستاروں پر کسی نے کمند ڈال کر ان پر جادو کا اثر کر دیا ہے۔ معلوم تھا کہ یہ بلند پرواز کون ہے اور ایسا کیوں کررہا ہے۔ اسی لیے تو انہوں نے سیاسی میدان کا رخ کرتے ہوئے اپنا مقدمہ پاکستانی عوام کے سامنے رکھا ہے بلکہ اس وقت دنیا‘ جو ہمیں قریب سے بغور دیکھ رہی تھی‘ کی سماعت کے لیے بھی بہت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔
مجھے تو اس بات پر بھی حیرانی نہیں ہوئی کہ پاکستانی عوام‘ خصوصاً نوجوان گھسی پٹی باتوں پر دھیان دینے کے لیے تیار نہیں۔ بے شمار سیاسی اور غیرسیاسی تجربہ کار فنکار ہر شام سکرینوں پر جلوہ افروز ہوکر کیا کیا آڑھی ترچھی دانشور ی ارزاں کرتے ہیں مگر اس زبان و کلام کا اثر تو دور کی بات ہے‘ عام لوگ بھی ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ گھوڑا پرانا ہو چلا ہے۔ سوار بھی کوئی نئے نہیں۔ رنگ ڈھنگ کا معمولی سا فرق ہے اورپیادے تو نجانے کب سے نسل در نسل خدمت کررہے ہیں۔ زمینی حقیقت جو ہمیں صاف نظر آرہی ہے‘ ان پیادوں کے لیے عوام کے نزدیک وہی مقام ہے جو صرف پیادوں کو حاصل ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسی دن عرض کردیا تھا کہ کچھ پتا نہیں‘ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ اندھے بھی دیکھ رہے تھے کہ پنجاب اور کے پی میں جسے بھی مفادات کا نگران ٹھہرایا ہے‘ وہ پیادوں کو کچھ نہیں دلا سکیں گے۔ حالات مزید خراب ہوں گے‘ بے یقینی اور بڑھی گے۔ ایک دفعہ انتخابات کا اعلان کر دینے کے بعد یہ قلا بازی۔ تو دوبارہ ایسا کیوں نہیں ہوگا؟ کچھ بھی کر لیں‘ عوام اس وقت ان کے ساتھ نہیں جنہیں ہم روایتی موروثی سیاسی گھرانے کہتے ہیں۔ وہ اقتدار میں اب شاید جمہوری راہ سے نہ آ سکیں۔ ان کے اندازے کم از کم اپنے بارے میں درست ہیں۔ اس لیے آئین شکنی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلوں سے کھلے انحراف میں عافیت تلاش کررہے ہیں۔ ان رویوں پر ہمیں کیا حیرانی ہوگی؟ یاد نہیں‘ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ کیا ہوا تھا اور ان کے پیچھے کون تھا؟ ایک حیرانی البتہ باقی ہے۔ کپتان‘ پھر کپتان ہی ثابت ہوا ہے۔ کوئی سامنے ٹھہرتا نظر نہیں آرہا۔ دوسری طرف عوام بھی اس کے کھیل کو دیکھ رہے ہیں۔ باقی سب کچھ میچ فکسنگ ہے۔ کھیل جاری ہے۔ دیکھیں اس حیرت کدے میں ہمارا کیا حشر ہوتا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ