وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منیر نیازی ہر اچھے تخلیق کار کی طرح اٹھتے اور گرتے پردوں کی تیز رفتار آنکھ مچولی میں روپ بہروپ کی حیرت میں ڈال دینے والی تمثیل تھے۔ ان کی لفظیات محبت کی نرم رو ہواﺅں میں جھکورے لیتی ہے، ان کا طرز احساس یاد کی باز آفرینی میں ڈوبی گہری اداسی سے عبارت ہے۔ منیر کی آرزو مندی میں ایک خوبصورت شہر کے امکان کی جھلک ہے ۔ اس کے شب و روز کا اشاریہ مرتب کریں تو وارفتگی کے لال ڈوروں سے بنی ایک لطیف چادر کا سائبان تاحد نگاہ سایہ کیے ہوئے ہے۔ منیر کی مجلس آرائی میں ایک یگانہ خود آگہی کی فضا ہے۔ فن کار کی اتنی بہت سی پرتیں فریب کاری نہیں ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ مشاہدے کے جہاں تہاں سے اٹھائے ٹکڑوں، واردات دروں کے نشانات اور شعور کی احتیاط سے چنی روشنیوں کو فن کی کٹھالی میں ڈالنے کے بعد فنکار خود بھی جہان حیرت کے غبار میں اوجھل ہو جاتا ہے۔ کائنات کی وسعتوں میں بنتے بگڑتے نادیدہ نمونوں سے کیا تصویر سامنے آتی ہے، تخلیق کار اگر خود جانتا تو محض اہل حرفہ میں شمار ہوتا۔ میر نے خود کو صناع قرار دیا تھا لیکن صناعی کا یہ ہنر تخلیق کے اس مرحلے میں کام آتا ہے جہاں مائیکل اینجلو کو پتھر میں چھپا مجسمہ بے نقاب کرنے کے لیے فالتو پتھر ہٹانا ہوتے ہیں۔ لکھنے والے کے لفظ اور مصور کی لکیر کا یہ شعوری معجزہ تخلیق کا معیار متعین کرتا ہے۔ طالب علم کی رائے میں منیر نیازی نے پاکستان کی نصف صدی کو دستاویز کیا ہے۔ ہماری جگر چاکی، ناکامی اور رائیگانی کو لفظ بخشا ہے۔ ایک شاعر تخلیقی سطح پر اس رفعت سے آگے کیا کر سکتا ہے۔ اہل سیاست کا منصب مگر کچھ اور ہے۔ سٹالن نے پاسٹرناک کے بارے میں کہا تھا کہ وہ بادلوں میں رہتا ہے۔ سیاست دان کو زمین پر پاﺅں جما کے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ اس کا ہر قدم اہل زمین کے شب و روز پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ سیاست میں آمریت اور جمہوریت کے دو دھاروں کے بیچ ایک غبار آلود منطقہ مقبولیت پسند سیاست کا ہے۔ ہم خاک کے پتلے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آمریت انسانی مساوات اور انصاف کے خلاف ایک ایسی جنگ ہے جس کا ناگزیر انجام المیہ ہوتا ہے۔ اسی نمونے پر مقبولیت پسند سیاست کچی نیند کے خواب میں لگایا گیا نعرہ ہے جو فریب، تفرقے اور سازش کی پیچ دار گلیوں میں لڑکھڑاتا بالآخر ناکامی کی کھائی میں جا گرتا ہے۔
ہمیں اپنے ملک میں حقیقی جمہوریت سے ہمکنار ہونا نصیب نہیں ہوا۔ ہم نے آمریت اور مقبولیت پسندی کے درمیانی درے میں پابجولاں سفر کیا ہے ۔ زوال کی اس ڈھلوان پر ہم نے بہت سی ٹھوکریں کھائیں۔ مڑ کر دیکھا اور گزشتہ غلطیوں پر نفرین کرتے رہے لیکن ایک دریا کے پار اترے تو ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ وجہ یہ کہ ہم نے گزشتہ غلطیوں کا کتبہ تاریخ کے مردہ خانے میں رکھی سرد لاشوں کے سرہانے دھر دیا، اپنی سمت درست کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ آزادی کے دس برس بعد ہم نے مسلم لیگی اقتدار کی فرد جرم تو تیار کی لیکن ایوب خان کے راستے میں گلاب کی پتیاں نچھاور کرتے رہے۔ ایوب خان کا عہد ایک اور مارشل لا پر منتج ہوا تو ہم گندھارا کا نوحہ پڑھتے رہے۔ یحییٰ خان کے مارشل لا کو ایک طرفہ غنودگی میں گلے لگا لیا۔ ملک ٹوٹا تو بھی ماضی کا احتساب نہیں کیا ۔ چنانچہ بھٹو صاحب کی نیم جمہوری حکومت کا وقفہ بھی پے در پے غلطیوں کی تقویم تھا۔ ضیا آمریت کی آمد پر ہم گزشتہ ظلم کی داستانیں سنتے رہے لیکن مٹھی بھر صاحبان عزیمت پر گزرنے والی ابتلا سے چشم پوشی کرتے رہے۔ جنرل ضیا اپنے رفقا سمیت بہاولپور کی فضاﺅ ں میں جل بجھے تو ہم نے تسلیم نہیں کیا کہ شراکت اقتدار آمریت ہی کا نیا ملبوس ہے۔ ہم نے باہم دست و گریباں ہوتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ دو قطبی دھاروں میں منقسم قوم جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ ور نہیں ہو سکتی۔ اگر فاطمہ جناح نے ایوب آمریت کا خیر مقدم کیا تھا تو محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی مشرف آمریت کی مزاحمت نہیں کی۔ 2007ءکے ہنگامہ پرور برس میں بھی ہم چھ دہائیوں کی پاکوبی سے دست بردار نہیں ہوئے۔ ہم نے مشرقی پاکستان، بلوچستان، افغان جہاد، لسانی سیاست اور فرقہ واریت کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
ان دنوں پھر سے اعترافات کا موسم ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے فرمودات محض اپنی ذات کا کھوکھلا دفاع ہیں۔ ہم ندیم تاج، اشفاق کیانی، شجاع پاشا، ظہیر الاسلام، راحیل شریف، عاصم باجوہ اور فیض حمید کی قطار اندر قطار لگی تصویریں دیکھتے ہوئے یہ سوال نہیں اٹھاتے کہ قمر جاوید باجوہ نے مسلم لیگ نواز سے اپنے کن اختلافات کا اعتراف کیا ہے۔ ماتحت سرکاری اہل کار منتخب حکومت سے اختلاف کیسے کر سکتا ہے؟ اگر ایسا ہی بنیادی اختلاف ہے تو سازش کرنے کی بجائے مستعفی کیوں نہیں ہوتا؟ کیری لوگر بل اور میمو گیٹ سکینڈل کیوں بناتا ہے؟ راحیل شریف کی توسیع کا تنازع ہمیں اقامہ کے فیصلے تک کیوں لاتا ہے۔ پانچویں نسل کی دوغلی ابلاغی جنگ میں چنیدہ صحافیوں کی سرپرستی کیوں کی گئی۔ ہمارے بنیادی مسائل دو ہیں۔ ہم نے عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تاکہ ملکی وسائل پر ناجائز اجارہ قائم کیا جا سکے۔ دوسری غلطی یہ کہ ہم نے منتخب حکومتوں کو بے دست و پا کرنے کے لیے تابع فرمان قوتوں کے مختلف گٹھ جوڑ مرتب کیے۔ کبھی صدرکو مہرے کے طور پر استعمال کیا تو کبھی عدلیہ کو ہاتھ کی چھڑی اور صحافت کو جیب کی گھڑی بنایا۔ توشہ خانے سے چرائے ہار ہماری اجتماعی ناکامی کا اصل سبب نہیں۔ بلوریں گردنوں میں آویزاں ہاروں کا قصہ تو سیٹھ قاسم اور ناہید مرزا تک جاتا ہے۔ انفرادی غلطیوں کا اعتراف لاحاصل مشق ہے۔ہمارا مسئلہ جمہوریت کی بجائے آمریت کے طوق کا انتخاب ہے۔ اس آشفتگی میں ہم نے مقبولیت پسند سیاست کے بت تراشے جو بدعنوانی کے خودمختار جزیرے بن جاتے ہیں۔ جمہوریت سیدھی سڑک پر قوم کا سفر ہے۔ اس سڑک کو چھوڑ کر پگڈنڈیوں کی راہ لینا بنیادی غلطی ہے۔ نامعلوم پگڈنڈیوں پر راہزنوں کے قافلے گھات میں ہوتے ہیں۔ غلطی بانجھ نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر