نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست کیلئے مسٹر خطرناک ۔۔۔۔ || نذیر ڈھوکی

مگر انصاف کے ایوانوں نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ قانون کی رکھوالی کرنے والے پولیس اہلکاروں کا حشر کیا ہوگا جو 12 گھنٹے تک امن کی خاطر بھوک اور پیاس کے باوجود اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہیں،

نذیر ڈھوکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران نیازی نے اقتدار سے نکالے جانے سے قبل دھمکی دی تھی کہ انہیں اقتدار سے نکالا گیا تو خطرناک ہو جاؤں گا۔ میرے خیال میں عمران نیازی نے اپنی ساری زندگی میں یہ پہلا سچ بولا تھا کیونکہ وہ معاشرے کیلئے خطرناک بننے کے بعد ریاست کیلئے بھی خطرناک بن چکے ہیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا کہ ایک  شخص نے پورے عدالتی نظام کو تماشا بنا دیا ہے حد یہ ہوگئی ہے کہ مسٹر خطرناک عدالتوں میں جانے کے وقت کا تعین خود کرتا ہے ان کے وکلا عدالت کو بتاتے ہیں کہ خان صاحب فلاں دن وقت 12 بجے عدالت تشریف لائیں گے ،پھر بتاتا جاتا ہے کہ وہ دو بجے تشریف لائیں گے تو عدالت دوبجے کا وقت رکھ دیتی ہے دوبجے وکلا آکر کہتے ہیں خان صاحب اس وقت مصروف ہیں 4 بجے کا وقت رکھ دیں عدالت 4 بجے کا وقت رکھ دیتی ہے اس دوران مسٹر خطرناک ڈنڈا بردار لشکر تیار کرتا ہے عدالت کو دیئے ہوئے وقت پر بھی گھر سے نہیں نکلتے دوسری طرف جج صاحبان کبھی اپنی گھڑی تو کبھی دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھتے ہیں، مسٹر خطرناک کی سواری بھپرے ہوئے لٹھ بردار لشکر کے ساتھ عدالت کے احاطے میں کسی فاتح کی طرح احاطے میں داخل ہوتی ہے پھر انہیں ان کی مرضی کے مطابق ریلیف دیا جاتا ہے اس طرح قانون کا پرچم مسٹر خطرناک کیلئے ریڈ کارپٹ بنایا جاتا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے سے قوم حسرت بھری سوالیہ نگاہوں انصاف کے ایوانوں کو دیکھ رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب اعلی عدالتوں کی یہ حالت ہے تو ماتحت عدالتوں سے کوئی کیسے ملزمان سے سخت رویہ رکھنے کا حوصلہ کرسکتے ہیں؟ غضب خدا کا مسٹر خطرناک پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو پٹرول بمبوں سے نشانہ بناتا ہے ، قانون کی رٹ بحال کرنے والوں کو ڈنڈوں سے نشانہ بناتا ہے انہیں سے لاھور ہائی کورٹ کی طرف سے معزز مہمان جیسا سلوک کرنے کے عمل سے قانون کے رکھوالوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی تو کیا ہوگا؟ مجھے تو رواں ہفتے لاھور اور اسلام کی عدالتوں سے مسٹر خطرناک کو ملنے والے غیر اصولی ریلیف سے ایسے لگا پولیس آفیسروں اور جوانوں کی وردیاں پھاڑ کر مسٹر خطرناک کے جوتے صاف کیئے کروائے گئے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانیں مگر چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس بندیال کے ریمارکس کہ ہاں ہماری فیملی عمران نیازی کے جلسوں میں جاتی ہے نے انصاف کے ایوانوں کے سارے بھرم توڑ دیئے ہیں، ویسے آپس کی بات ہے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل کے اہم کردار جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ کے اس اعتراف کے بھٹو صاحب کو دی جانے والی پھانسی غلط تھی اگر عدلیہ بھٹو کو پھانسی کی سزا نہ دیتی تو جنرل ضیا عدلیہ کو ہی ختم کر دیتے کے بعد کوئی شک ہی نہیں رہا کہ انصاف کی دیوی نے بد شکل چہرے پر میک اپ اور سراپوں کو آئین کی چمکیلے لباس میں چھپا رکھا ہے ۔ دنیا کے کسی مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے انصاف کے ایوانوں میں یہ مثال نہیں ملتی کہ ملک کے قانون کو مطلوب شخص قانون سے بچنے کے لیے ایک دن عرضی ڈالے ،دو پہر عرضی کی شنوائی ہو اور سورج غروب ہونے سے پہلے انہیں ریلیف مل جائے۔

مگر انصاف کے ایوانوں نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ قانون کی رکھوالی کرنے والے پولیس اہلکاروں کا حشر کیا ہوگا جو 12 گھنٹے تک امن کی خاطر بھوک اور پیاس کے باوجود اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہیں، ان سول ججوں، مجسٹریٹس کا کیا ہوگا جو بلا خوف کے مجرموں کو نتھ ڈالتے ہیں ۔ میری رائے یہ ہے کہ مسٹر خطرناک کو ریلیف دیکر انصاف کے منہ پر کالک ملی جا رہی ہے اور قانون کو طاقت ور ملزم کے سامنے سر جھکانے کی روایت پیدا کی جا رہی ہے۔

۔یہ بھی پڑھیں:

لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی

نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی

نذیر ڈھوکی کے مزید کالم پڑھیے

About The Author