امتیاز عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سول سوسائٹی، وکلا، صحافیوں اور متعدد سیاسی رہنمائوں نے تمام سیاسی جماعتوں سےانتخابات کیلئے متفقہ فریم ورک اور ٹائم لائن طے کرنے کے لیے مذاکرات کی اپیل کی ہے جس کے لیے آل پارٹیز کانفرنس اور پارلیمنٹ کے فورمز کی تجویز بھی دی گئی ہے اور دی میڈی ایٹرز (سول سوسائٹی کے مصالحت کنندگان) کی درخواست پر پاکستان بارکونسل نے اے پی سی کے انعقاد کیلئےمیزبانی کا شرف حاصل کرنے پر رضا مندی بھی ظاہر کردی ہے۔ بیک چینل پر تمام جماعتوں سے رابطے بھی کئے جارہے ہیں۔ لیکن آج ہی جہاں عمران خان کی زمان پارک لاہور کی رہائش گاہ پر پنجاب پولیس نے ایک بڑا آپریشن کیا ہے اور پولیس سابق وزیراعظم کے دروازے توڑ کر گھر میں داخل ہوگئی اور وہاں موجود تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ یہ کارروائی جب جاری تھی تو اسلام آباد میں عمران خان کے قافلے کو پولیس کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ روز ہی 9مقدمات میں لاہور ہائیکورٹ سے قبل از وقت ضمانتوں کے بعد، آج عمران خان اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہوگئے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف اور ن لیگ کے رہنمائوں نے بات چیت پر آمادگی کا عندیہ دیا ہے لیکن ایک دوسرے کی مرکزی قیادت کو میدان سے نکالنے پر اصرار موجود ہے۔ گوکہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کا آغاز کردیا ہے، لیکن انتظامیہ کے متعلقہ صوبائی اور وفاقی اداروں نے مجوزہ تاریخوں پر مختلف جوازکی بنیاد پر انعقاد سے معذوری کا اظہار کیا ہے۔ لگتا ہے پنجاب میں انتخابی شیڈول پر عملدرآمد کے آغاز اور خیبرپختونخوا کے حوالے سے مشاورت کے باوجود الیکشن کمیشن مجبور ہوگا کہ وہ معاملہ پھر سے سپریم کورٹ کے سامنے لے کر جائے ، تاکہ اس ضمن میں آئینی و انتظامی احکامات لئے جاسکیں۔ انتخابی عمل شروع ہوتے ہی معاملہ کھٹائی میں پڑگیا ہے اور ابھی سے اسے متنازعہ بنانے کے لئےسیاسی حریف متحرک ہوگئے ہیں، اگر سیاستدان ہی انتخابی پراسیس کو گدلا کردیں گے اور اُنہیں متنازعہ بنانے کیلئےسردھڑ کی بازی لگادیں گے خاص طور پر اتحادی حکومت اور اس میں شامل جماعتوں اور تحریک انصاف میں جاری سیاسی تصادم سے ملکی حالات انتخابات کیلئےناسازگار ہوتے چلے جائیں گے تو سوال اُٹھتا ہے کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں ہی انتخابی عمل کی اونرشپ نہیں لیں گی تو پھر انتخابات کی شفافیت اور جمہوری عمل کے پلے کیا رہ جائے گا اور جمہوریت و آئینی حکمرانی پھر سے خطرے میں پڑ جائے گی۔ ماضی میں بھی جب سیاسی قوتوں میں تصادم بڑھا تو غیر آئینی مداخلتیں ہوئیں اور انتخابات طویل عرصے کیلئے ملتوی ہوتے رہے۔ لیکن اس بار صورت حال 1977 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد میں جاری محاذ آرائی سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ ملک معاشی دیوالیہ پن اور عوام کی بدحالی کی آخری حدوں میں گھرا ہوا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے باوجود مالیاتی بحران کے حل کا معاہدہ ملتوی ہوتا چلا جارہا ہے۔ عدلیہ بھی سیاسی مناقشوں کی لپیٹ میں آتی چلی گئی ہے اور منقسم نظر آتی ہے، جب کہ پاکستان کے سلامتی کے ادارے دہشت گردی کی نئی لہر سے پنجہ آزما ہوتے ہوئے، سیاسی معاملات سے دور رہنے میں عافیت چاہ رہے ہیں۔ اور سیاسی جماعتیں باہمی مشاورت سے انتخابات سمیت کسی بھی قومی معاملے پر افہام و تفہیم کی راہ لینے کی بجائے ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ میڈیا بھی سیاسی دھماچوکڑی کی نذر ہوتے ہوئے سیاسی خلیج کو بڑھانے پہ تلا بیٹھا ہے۔ ایک دوسرے کو میدان سے نکالنے اور سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ کی بجائے یا پھر عمران خان کو انتخابی عمل سے خارج کرنے اور نواز شریف کی قانونی واپسی کا راستہ روکنے سے معاملات بگڑ جائیں گے۔ افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرتے ہوئے فوری طور پر بامعنی اور نتیجہ خیز بات چیت کا آغاز وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اس سے پہلے کے جاری سیاسی خلفشار خانہ جنگی کی طرف بڑھے یا پھر تاک میں بیٹھے دہشت گرد دہشت قتل و غارت کا بازار گرم کردیں اور سیاسی ڈراپ سین ہوجائے، سول سوسائٹی کی دردمندانہ اپیل پر غور کرنا چاہئے۔ 100سے زائد سول سوسائٹی کی چوٹی کی تنظیموں ، سیاسی جماعتوں کے اکابر اور وکلا و صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے آئین اور جمہوریت و وفاقیت سے اپنی اٹل وابستگی اور شفاف جمہوری عمل پر کامل یقین کا اعادہ کرتے ہوئے شفاف و آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے متفقہ طور پر انعقاد کا تقاضا کرتے ہوئے جاری سیاسی محاذ آرائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس سے ملکی معیشت کی بدحالی اور عوامی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جاری کشمکش کے بارےمیں خدشہ ظاہر کرتے ہوئے سول سوسائٹی کے رہنمائوں نے انتباہ کیا ہے کہ حالات سیاسی جماعتوں کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں اور ملک انارکی کی لپیٹ میں آسکتا ہے جس سے پاکستان کے مستقبل اور جمہوری تسلسل پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔’’لہٰذا، سول سوسائٹی تمام سیاسی جماعتوں، خاص طور پر پارلیمانی جماعتوں، سے اپیل کرتی ہے کہ وہ موجودہ سیاسی تصادم، محاذ آرائی اور ناقابل برداشت بیانیوں سے گرم ماحول کو ٹھنڈا کریں اور عظیم تر قومی مفاد میں آپس میں بیٹھ کر انتخابات سے متعلق تمام تر اختلافات کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کریں تاکہ آئین کی بالادستی اور پرامن جمہوری تبدیلی کی راہ ہموار کی جاسکے‘‘۔
سول سوسائٹی کے رہنمائوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ وہ سیاسی جماعتوں میں معاملہ فہمی اور آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کیلئے ایک غیر رسمی اور غیر جانبدار مصالحت کنندہ (The Mediators) کا کردار ادا کرنے کیلئےتیار ہوگی اور اس کیلئے پاکستان بار کونسل کی اعانت سے تمام جماعتوں کو باہم مشاورت پر آمادہ کرتے ہوئے ایک میز پر لانے کیلئے تیار ہے۔ماضی میں کبھی نوابزادہ نصراللہ خان جیسی شخصیات سیاسی جماعتوں کو مشترکہ جمہوری مقاصد کے حصول کیلئے کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ اب سول سوسائٹی اس جمہوری فریضہ کی ادائیگی کیلئےآگے آئی ہے۔ اُمید ہے دی میڈی ایٹرز کے نمائندے سبھی سیاسی زعما سے رابطے کریں گے۔ لیکن سیاسی تصادم جس سطح پر بلند ہوتا جارہا ہے اور فضا جتنی مکدر ہوتی جارہی ہے، اس کیلئے تمام جمہوری عناصر کو متحرک ہونا پڑے گا اور جمہوریت کو پھر سے پٹڑی سے اُترنے سے بچانا ہوگا۔ ورنہ پھر پچھتانے سے کیا ہوگا، جب چڑیاں چگ جائیں گی سب کھیت!
یہ بھی پڑھیے:
قضائے الٰہی اور انسانی گناہوں کی سزا۔۔۔امتیازعالم
بدلتا علاقائی منظر اور او آئی سی کا زوال۔۔۔امتیازعالم
امریکہ کی واپسی اور چین کے بدلتے تیور۔۔۔امتیازعالم
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ