عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ روز گزرے زُلفی ماما نے "سُمیتا پاٹل” کے جنم دن پر ایک پوسٹ لکھی – مجھے یاد آرہا تھا کہ 13 دسمبر 1986ء کو جب سُمیتا پاٹل نے ہم سے منہ موڑ لیا تھا اور کئی ماہ ہم نے پریس میں اس بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا-آج میں شاکر بھائی کی طبعیت پوچھنے اور اُن کی اہلیہ کی بیمار پُرسی کے لیے اُن کی دُکان پر گیا تو وہیں میری نظر احمد سلیم کی مرتب کردہ کتاب "کبھی ہم بھی خوب صورت تھے: انور سجاد” پر پڑی – اُسے خرید لیا- ملتان سے گھر واپسی تک میں نے ایک گھنٹے کے سفر میں اسے پڑھ لیا –
اس کتاب کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر انور سجاد کے انھیں 80ء کی دہائی میں لکھے گئے خطوط کا ایک انتخاب بھی دیا ہے –
اس میں ایک خط دسمبر 1986ء کا بھی ہے- قرین قیاس یہ ہے کہ یہ خط انورسجاد نے سیمتا پاٹل کی وفات کے بعد لکھا ہے –
میں یہاں اُن کے لکھے خط کا عکس دے رہا ہوں –
ڈاکٹر انور سجاد نے کتنی بڑی تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ ہمارا سماج ترقی پسند عورتوں کو برداشت نہیں کرتا چاہے ظاہراً اُن سے کتنی ہی شدید وابستگی کا اظہار کیا جاتا ہو – ایسی عورتیں ‘دوجے پَن’، ‘غیریت’ کا شکار رہتی ہیں، وہ خود کو سماج میں چاہے کتنا ہی مرکزیت پر محسوس کرتی ہوں جو ایک التباس کے سوا کچھ نہیں ہوتا، رہتی وہ ‘حاشیہ’ پر ہیں-سمیتا پاٹل ایک ایسے ہندوستانی سماج میں رہ رہی تھیں جس سماج میں اُس وقت تک کانگریس کے زیر اثر ترقی پسندی اور سوشلزم کو معاشرے میں ایک جمے جمائے رجحان کا درجہ حاصل تھا – ممبئی جیسے شہر میں اگر سُمیتا پاٹیل سوشلسٹ اور ترقی پسند ہوکر ‘حاشیے’ پر تھیں اور سماج کی بڑی اکثریت کا اُن سے وابستگی کا اظہار بقول انور سجاد کے ایک التباس کے کچھ نہ تھا تو پاکستان میں ایسی عورتوں کا کیا حال ہوگا؟ میرے ذہن میں اُس زمانے کی کئی ترقی پسند عورتوں کے نام آئے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیا وہ عورتیں بھی سماج میں حاشیہ پر ہی تھیں؟
ویسے آج تو پاکستانی سماج مزید گراوٹ کا شکار ہے – میرے ذہن میں کئی نام آکر رہ گئے جنھیں یہاں لکھ کر میں "ترحم” کا سا تاثر پیدا نہیں کرنا چاہتا –
"سرکار تو سرکار عوام میں بھی اکثر سچ وصول کرنے کی جرات نہیں ہوتی – یہ اس سالے معاشرے کا عدم برداشت پر مبنی رویہ ہے جو انہی میں سے فاشزم کو نکال کر بار بار ان پر مسلط کردیتا ہے”
ہمیں ڈاکٹر انور سجاد جیسے ادیب، دانشور، نقاد، ڈرامہ نگار کی اشد ضرورت ہے –
ہندوستان میں ہی نہیں جہاں ہندوتوا اپنے عروج پر ہے لیکن وہاں ہمیں اردو فکشن کے میدان میں رحمان عباس، اشعر نجمی ، خالد جاوید جیسے لوگ میسر ہیں جن کے فکشن اور تنقید نے کم از کم وہاں بات کہنے کی آبرو کو قائم کر رکھا ہے –
یہاں بھی زوالفقار زلفی، سید کاشف رضا، جیم عباسی، محمد حنیف، صفدر نوید زیدی ، عباس زیدی ، ریاض ملک، زاہد حسین جیسے لوگ ہیں جن کی سوچ اور لکھے الفاظ نے لفظوں کو اعتبار بخشا ہوا ہے –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر