دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شولڈر ڈسٹوشیا؛ جاں لیوا ایمرجنسی!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

تکنیکی مراحل کی کامیابی کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ بچہ بخیر و عافیت باہر نکلے گا۔ اکثر و بیشتر بچے کے بازو کا فریکچر دیکھنے میں آتا ہے لیکن یقین کیجیے فریکچر کے بعد بھی ڈاکٹر کلمہ شکر پڑھتے نظر آتے ہیں کہ بچہ بچ گیا۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھینچو اور کھینچو۔
بی بی زور لگاؤ، منہ بند کر کے، نیچے کی طرف۔
پیٹ کو اوپر سے دباؤ۔
مثانے والی جگہ بھی دباؤ۔
دیکھو اگر کندھے نہیں ہل رہے تو بازو نکالنے کی کوشش کرو۔
کھینچو، زور سے کھینچو۔
اگر بازو ٹوٹ جائے تو خیر ہے لیکن بچہ باہر نکلنا چاہیے۔

جلدی کرو جلدی، وقت کم ہے۔
بچے کا منہ نیلا پڑ رہا ہے۔
کندھے پھنس چکے ہیں، ہلنے کا نام نہیں لے رہے۔
چلو بچے کی ہنسلی کی ہڈی توڑ دو، شاید کندھا حرکت کر سکے۔
اف خدایا، بچے کے کندھے ہلانے کی کوشش میں میرے کندھے ٹوٹ گئے ہیں اور یہ ہل ہی نہیں رہا۔

خبر چھپی ؛
” لیڈی ڈاکٹر اور نرس نے ڈلیوری کیس کے دوران بچے کا سر جسم سے علیحدہ کر دیا۔ شوہر کی اپیل ہے کہ ڈاکٹر اور نرس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے“
کیا کریں؟ ہنسیں یا روئیں؟

بہت سے دانا ہوں گے آپ کے بیچ۔ سو پوچھ لیجیے جنرل نالج کا ایک سوال کہ ساڑھے چار کلو وزن کا اگر بچہ ہو اور اسے ویجائنا جیسی جگہ سے نکلنا ہو تو تصور کر لیجیے کیا کچھ ہو سکتا ہے؟

اور اگر یہ لیڈی ڈاکٹر اور نرس بیٹھی بھی ہوں کسی رورل ہیلتھ سنٹر پہ جہاں چار کمروں پہ چھت ڈال کے، اندر آٹھ پلنگ بچھا کے، بلڈ پریشر کا آلہ فٹ کر کے، دواؤں کے نام پہ لال شربت اور کالی گولیاں، لیجیے جناب علاقے کا ہسپتال تیار۔

یہ کون سوچ اور سمجھ سکتا ہے کہ کچھ مقامات ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں سب کے پر جلنے لگیں۔ یقین جانیے وہ لمحے جہاں سے تجربہ کار گائناکالوجسٹ بھی کبھی نہ گزرنا چاہیں، وہی ایک عام عورت کو موت کے کنویں میں لے جا کھڑا کرتے ہیں۔

شولڈر ڈسٹوشیا ( Shoulder Dystocia) ، گائنی والوں کے لیے جانا پہچانا نام۔ جب بچے کا سر باہر نکل آئے اور کندھے ویجائنا سے اوپر کولہے کی ہڈی میں پھنس جائیں۔

وجوہات میں بچے کا وزن زیادہ ہونا، ماں کو دوران حمل شوگر کی تکلیف، درد زہ میں بچے کا اپنے مدار پہ نہ گھوم پانا اور کولہے کی ہڈی چھوٹی ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

سوچیے شولڈر ڈسٹوشیا کس طرح کی ایمرجنسی ہے کہ زچہ درد زہ سے تڑپ رہی ہے، فٹ بال سا سر ویجائنا سے باہر لٹک رہا ہے اور بچے کا جسم ویجائنا، کولہے کی ہڈی اور پیٹ میں پھنس چکا ہے۔

کسی زمانے میں بچہ گردن سے کھینچنا ہی شولڈر ڈسٹوشیا کا علاج سمجھا جاتا تھا۔ منظر یہ ہوتا کہ مجاہدہ نمبر ایک بچے کا سر کھینچ رہی ہے مجاہدہ نمبر دو، پہلی کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے پیچھے کا کھینچ رہی ہے اور تیسری، دوسری کے پیچھے حصہ بقدر جثہ۔ بری طرح ہانپتے ہوئے سب پسینے میں نہائی ہوئی ہوتیں مگر بچہ ٹس سے مس نہ ہوتا۔

ایسے ہی بعض مرحلوں میں کھینچتے ہوئے بچے کا سر علیحدہ ہو جایا کرتا تھا اور جملہ اہل خانہ ڈاکٹر اور نرس پہ پتھراؤ کیا کرتے تھے۔

ریسرچ وغیرہ تو انگریزوں کا وتیرہ تھا ہمارا علاقہ تو بس عورتوں کو بہشتی آداب سکھانے تک تھا۔ عورت اچھی بیوی بن جائے بس اتنا ہی کافی۔ نسل بڑھانے کے دوران عورت کے ساتھ کیا ہو گا؟ ہمارا درد سر نہیں، عورت جانے یا رب جانے۔

پھر وہی ہماری مدد کو آگے بڑھے جنہیں ہم منہ بھر بھر کے گالیاں دیتے ہیں۔ بتایا گیا کہ بچے کو کھینچنے کی بجائے ان عوامل کا توڑ کیا جائے جو بچے کے جسم کو پیدا ہونے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ بنیادی مجرم کندھے نکلے جو کولہے کی ہڈی میں پھنس کر نیچے آنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ خود سوچیے جب کندھے پھنس چکے ہوں اور سر زور لگا کر مسلسل کھینچا جائے تو کیا ہو گا؟ گردن ٹوٹ کر ہاتھ میں آئے گی نا۔

کندھوں کو اپنی جگہ سے ہلانے کے لیے کچھ ایسی تیکنیکس وضع کی گئیں جو مرحلہ وار کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن پھر وہی بات کہ انہیں کرنے کے لیے جس تجربے کی ضرورت ہے وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے پاس نہیں ہوتا۔

تکنیکی مراحل کی کامیابی کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ بچہ بخیر و عافیت باہر نکلے گا۔ اکثر و بیشتر بچے کے بازو کا فریکچر دیکھنے میں آتا ہے لیکن یقین کیجیے فریکچر کے بعد بھی ڈاکٹر کلمہ شکر پڑھتے نظر آتے ہیں کہ بچہ بچ گیا۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سینئیر ڈاکٹرز کی موجودگی اور سب تکنیکس کر لینے کے باوجود بچے کا جسم باہر نہیں نکلتا۔ ایسی صورت میں بچے کا بچنا تو مشکل ہوتا ہی ہے، ماں کی جان بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

آخری حربہ یہ ہے کہ سیزیرین کیا جائے۔ ویجائنا سے باہر نکلا ہوا سر تو اندر جا نہیں سکتا سو ایسی صورت میں بچے دانی کھول کر پھنسے ہوئے کندھوں کو رہائی دلوائی جاتی ہے لیکن تب تک بچہ زندہ رہنا ناممکن ہے۔

لیکن اس عورت کے متعلق سوچیے جس کے کولہوں اور ویجائنا میں پھنسا ہوا بچہ اس کے رگ و ریشے کو ادھیڑ ڈالتا ہے۔ کبھی کبھی ہر چیز اتنی کٹ پھٹ جاتی ہے کہ زچہ کی جان بچانا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

ایسے ہر واقعے کے بعد جب ملبہ ڈاکٹر اور نرس کے سر پہ ڈالا جاتا ہے، ہماری تو سمجھ سے باہر، کیا کہیں؟ سر پیٹیں یا ماتم کریں؟
اصل وجوہات کو سمجھے بنا قربانی کی بکری، بلکہ بکریوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، کیا ہو گا اس سے؟

جب بھی یہ آزمائش ہم پہ پڑی، ہم تو نکل ہی گئے اس سے کسی نہ کسی طرح مگر ایک بار ایک مریض نے سارے ڈیپارٹمنٹ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔

جب مریضہ ہسپتال پہنچیں بچہ پیٹ میں دم توڑ چکا تھا اور بچے دانی کا منہ کھل چکا تھا۔ بچے کا سر نظر تو آتا تھا مگر باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ زچہ جس طرح تڑپتی تھیں، وہ سب کے دل دہلاتا تھا۔ چونکہ بچے کی موت واقع ہو چکی تھی سو بھرپور کوشش کی گئی کہ ویجائنا کے راستے پیدا کروایا جائے۔ ناکام کوشش کے بعد سیزیرین کیا گیا لیکن جسم نکالنے کے لیے، سر کھینچا تانی میں علیحدہ ہو چکا تھا۔

ہمیں نہیں علم کہ گاؤں میں زچہ کے سرہانے بیٹھی دائی کیا کرتی ہو گی؟ لیکن ہمیں یہ علم ہے کہ زچہ کا شوہر سر ہلا کر کیا کہتا ہو گا؟
بس جی زچگی میں چل بسی، کیا کر سکتے تھے ہم؟

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author