یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ اچھے حافظے کی ضرورت نہیں، کیونکہ صرف کوئی ڈیڑھ دو سال پہلے اے 4 کاغذ کا یہ رِیم 300 تا 375 روپے کا تھا۔ اب پانچ سو صفحات کے اس پیکٹ (رِیم) کی قیمت 1200 تا 1500 روپے ہو چکی ہے جس کا انحصار کاغذ کی موٹائی پر ہے۔
کوکنگ آئل کی قیمت بھی پانچ سو اور چھ سو روپے فی لیٹر کے درمیان ہے۔ دالیں، چاول، آٹا، پٹرول وغیرہ سب کی قیمتیں آپ جانتے ہیں۔ جلد ہی بجلی کا ریٹ بھی بڑھ جائے گا۔
ہر سطح پر ایک سراسیمگی پائی جاتی ہے۔ گھر دار خواتین مشورے دے رہی ہیں کہ دالیں، چاول اور کوکنگ آئل وغیرہ کا ہر ممکن حد تک سٹاک کر لیا جائے۔ جنگ جیسا ماحول بنا ہوا ہے۔
آپ اگر کسی طرح بچوں کی فیس کا انتظام کر لیں تو حکومت تین لاکھ سالانہ فیس دینے والے والدین کا ریکارڈ حاصل کر کے اُس پر بھی پانچ فیصد ٹیکس لگا دیتی ہے۔
سچی بات ہے کہ سب پریشان ہیں، بے یقینی کا شکار ہیں، سب میمز اور لطیفوں کے ذریعے بھی دل بہلانے اور اپنی پریشانی چھپانے کی کوشش میں ہیں۔
حالیہ مہینوں میں کئی کاروبار بھی بند ہوتے دیکھے ہیں۔ تکے، مچھلی، کڑاہی گوشت کی دُکانوں کو سمٹتا اور ٹھپ ہوتے دیکھا ہے۔ جو دُکانیں چل رہی ہیں اُن کے باہر دس دس لڑکے سر پہ سبز ٹوپیاں رکھے اور ہاتھوں میں مینیو کارڈز لیے گاڑیوں کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہیں۔ آپ نہ اُنھیں ڈانٹ سکتے ہیں، نہ سب کو آرڈر دے سکتے ہیں۔ نسبتاً بہتر ریسٹورنٹس میں گاہکوں سے سیلز ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے، حالانکہ سیل وہ خود کر رہے ہوتے نہ کہ گاہک۔
حسین انگلیوں والی مریم کا استقبال کیا جا رہا ہے، پورا شہر بینروں اور فلیکس سے سجا پڑا ہے۔ عمران ہذیان بک رہا ہے۔ بلاول اپنی نوکری میں مصروف ہے اور کچھ بھی نہیں کہتا۔ فضل الرحمان نے امریکہ سے پھر دوستی کر لی ہے۔
لیکن یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔ انحطاط جاری رہے گا۔ تھانے فروخت ہوتے رہیں گے۔ سرکاری ملازمین دھوپ میں بیٹھ کر ترقیاں ڈسکس کرتے رہیں گے۔ وظائف کے کلپس شیئر ہوتے رہیں گے۔ سندھی اور نئے ابھرتے ہوئے سرائیکی ٹوپی اور اجرک/سجرک پہن کر جھومتے رہیں گے۔
مگر مجھے فکر کاغذ کی ہے۔ ہمیشہ سے رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر