دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روشنی جتنی تیری یاد نے پھیلائی ہے……||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روشنی جتنی تیری یاد نے پھیلائی ہے……
انٹرمیڈیٹ میں کچھ عرصہ فارسی کے استاد شمشاد علی اشک مرحوم اسلامیات پڑھانے پر معمور ہوئے کیونکہ اسلامیات کے لیکچرار کی سیٹ خالی تھی – اور یہ عرصہ ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا – میں بعد بھی پروفیسر سید شمشاد علی اشک کے گھر پر جاکر اُن سے استفادہ کرتا رہا – اُن کے گھر پر ہونے والی نشستوں کے دوران مجھ پر یہ راز بھی کھلا کہ وہ نہ صرف فارسی لغت و ادب کے شناور ہیں بلکہ عربی لغت و ادب اور متداول عربی کتب تاریخ پر بھی اُن کی گہری نظر ہے –
وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبے ہوئے انسان تھے-
یہ عشق محض قولی عشق نہیں تھا بلکہ یہ اُن کا حال بھی تھا – وہ ظاہر و باطن دونوں میں ایک جیسے تھے –
ان کی صحبت میں نے فلسفہ محبت کے جو اسباق یاد کیے اُس نے مجھے وہ حلاوت بخشی کہ میں دائیں اور بائیں دونوں اطراف کی کٹھ ملائیت سے بچ گیا اور مجھے نثر میں مٹھاس گھولنا آگئی –
انھیں قاری زبید رسول مرحوم کی نعت خوانی بہت پسند تھی –
آج 12 ربیع کی شب مجھے ایسی ہی ایک شب کی یاد آرہی ہے، میں اشک صاحب کے دروازے پر پہنچا، دستک دی، انھوں نے دروازہ کھولا تو مجھے ہاتھ کے اشارے سے اندر بلایا – میں نے اُن کے چہرے پر گھمبیرتا سے بھری خاموشی دیکھی اور موٹے شیشوں کی عینک کے پیچھے اُن کی آنکھوں میں سُرخ ڈورے تیرتے دیکھے – وہ اندر بیٹھک میں مجھے لیکر آئے، کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود میز پر پڑے ٹیپ ریکارڈر کی طرف بڑھ گئے اور پلے کا بٹن دبایا تو قاری زبید کی آواز کمرے میں گونجنے لگی
پیر انوکھڑا آیا نبیاں دا پیر
غوث قطب اوندے بندے، جبرئیل جہیے چاکری کردے
میں صدقے جاواں کون فرید فقیر
آج دیو مبارک ساریاں سکھیاں
نال ماہی دے لڑ گئیآں انکھیاں
میں صدقے جاواں بدل گئی تقدیر
…….
واحسن منک لم ترقط عینی ِِ
واجمل منک لم تلد النساءِِ
خلقت مبرءاََ من کل عیب
کاَنک قد خلقت کما تشاءِِ
……
رُس نہ سانول یار مدتاں بیت گیئاں
دل وچ دید ہزار مدتاں بیت گیئاں
………
میں نے انھیں وجد سے جھومتے دیکھا – اور میں خود بھی سرشاری کی ایک کیفیت کا شکار تھا –
انھوں نے کیسٹ کی ایک سائیڈ پر قاری زبید کی آواز میں کافی کلام سُنا اور جب یہ سائیڈ ختم ہوئی تو کافی دیر خاموش رہے اور اُن کی آنکھیں بند تھیں –
پھر انھوں نے آنکھیں کھولیں اور کہنے لگے جس کو نسبت حُب حاصل ہو تو وہ خواجہ جنید بغدادی کی طرح ہوجاتا ہے جن کا کہنا تھا
‘صالح آدمی دھرتی کی مثل ہوتا ہے جس پر نیک و بَد سب چلتے ہیں لیکن وہ کسی پر معترض نہیں ہوتا’
یہ وہ زمانہ تھا جب ایک کانا دجال اہل صفا مردودِ حرم کی پیٹھوں پر کوڑے برسا رہا تھا اور شریعت کے نام پر اپنے اقتدار کو طول دیے جاتا تھا – اُس نے پارلیمنٹ کو مجلسِ شوریٰ کا نام دے رکھا تھا – نظام زکواۃ و نظام صلوٰۃ کے نام پر نظام جبر وستم نافذ کر رکھا تھا – وہ منافق اعظم معاشرے کی مٹی میں منافقت جیسے کوڑھ کی کاشت کررہا تھا اور وہ باطل ایسا تھا کہ بے شرمی سے خود کو ‘مردِ مومن، مردِ حق’ کہلاتا تھا اور بزدل ایسا تھا کہ دو عورتوں سے اتنا خوف کھاتا تھا کہ ایک کو اُس نے گھر پر نظر بند کر رکھا تھا اور دوسری کو اُس نے سکھر جیل میں بند رکھا تھا – ایک اُن میں سے بیوہ تھی اور دوسری عورت کیا نہتی یتیم لڑکی تھی – جس مسیحا کو اُس نے رات کی تاریکی میں مصلوب کیا تھا اُس کا نام لینے والوں کو وہ شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں بند کردیتا تھا اور پھر بھی بزدل چوہا آرمی ہاؤس میں خود کو چھپائے رکھتا تھا – سپہ سالار کے نام پر کلنک تھا –
11 سال وہ اسلام کا نام لیتا رہا ہے اور جتنا وہ اسلام کا نام لیتا تھا اتنا ہی سماج منافقت کی دلدل میں دھنسا جاتا تھا –
اُس زمانے میں کئی تاریک زلیل تھے جو خود کو طارق جمیل کہتے تھے، حُسن میں تو وہ عبداللہ بن ابی نہ تھے لیکن وعظ میں وہ یکتا ضرور تھے اور وہ کانے دجال کو خادم اسلام کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن اُن کی اخلاقیات کے سارے بھاشن معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لانے سے قاصر تھے اور تبدیلی معکوس تھی جو اس معاشرے میں سرطان بن سرایت کیے جارہی تھی – ہر منصف مزاج شخص مذھب کی ایسی شکل دیکھ رہا تھا جس سے اُس کی وحشت تھی کہ بڑھتی جاتی تھی-
شمشاد علی اشک جیسے عاشقان رسول کو لگتا تھا جیسے پاکستان کا ہر شہر کوفہ ہوگیا ہو اور وہاں پر حجاج بن یوسف شقی کی بدروح نے ڈیرہ ڈال دیا ایسے میں سعید خدری جیسی روح رکھنے والے اگر یدخلون فی دین اللہ افواجا کی بجائے ‘یخرجون من دین اللہ افواجا’ کا ورد کرنے پر مجبور تھے اور اُسے ضیاءالحق کی بجائے ‘ضیاع الحق’ کہنے لگ گئے تھے –
مولانا شاہ احمد نورانی جیسا جید عالم کہنے پر مجبور ہوا
‘اسلام اگر مدینہ سے اونٹ پر بھی چلا ہوتا اب تک اسلام آباد پہنچ گیا ہوتا`
اُس تاریک دور میں محبت کا معنی لوگوں پر بلاسفیمی کارڈ کا استعمال ہوگیا تھا اب تو اُس کی باقیات نے اپنے اپنے انڈے بچے دے دیے ہیں اور عشق کے معنی’ سر تن سے جدا’ ہوگئے ہیں –
آج عشق کے نام پر قہر ہی قہر ہے جو مخالفت کرے آئینہ دکھائے تو وہ ‘گستاخ’ ٹھہر جاتا ہے – اور وہ ‘صالحین’ دھرتی پر چلنے والے والوں سے بے پرواہ ہوں عنقا ہوگئے ہوں سب نے احتساب کا کوڑا اٹھا رکھا ہے اور سب کے سب ظالموں سے اپنا نان و جویں مانگتے پھرتے ہیں –
اب تو شمشاد علی اشک جیسے بھی منوں مٹی تلے محو آرام ہیں –
یتیم ہیں وہ "الم یجدک یتیما فاوی” کی صدا سُننے کو ترستے ہیں – اور بے کس و بے نوا ہیں وہ "و وجدک عائلا فاغنی” کی بشارت سُننے کو ترس گئے ہیں – اور از خود رفتہ ہیں وہ اُس کی طرف راہ پانے سے مایوس نظر آتے ہیں – اور "و وجدک ضالا فھدی” سے متصف کو تلاش کرتے پھرتے ہیں –
آج جو جشن مولود مناتے ہیں وہ صفت رحمت سے خالی نظر آتے ہیں – جو میلاد سے گریزاں ہیں وہ جسم سے بارود باندھ کر پھٹ جانے کا درس دیتے پھرتے ہیں…….
اشک صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ وہ بلد (شہر) تو نہیں جس میں ‘رحمت العالمین’ جاگزیں ہوں کہ جس کی قسم رب العالمین کھائے
اور وہاں اُس کے والد اور ولد ہوں جن کی قسم کھائی جاسکتی ہو- یہ جو ‘سر تن سے جدا’ کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں لگتا تو نہیں ہے یہ دین کی گھاٹی/عقبہ سے ہوکر گزرے ہوں کیونکہ گزرے ہوتے تو اُن کی عقبہ لوگوں کی گردنوں کو آزاد کررہی ہوتی – مسکینوں کی بھوک مٹا رہی ہوتی یا یتیم رشتے داروں کے غم دور کررہے ہوتے – یا کسی مسکین و یتیم کو اپنی آغوش میں لیے ہوتے – ان میں سے کتنے ہیں جو ایمان والے ہیں کیونکہ ایمان جو لاتے ہیں وہ صبر کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں – اور رحم کی وصیت کرتے ہوں کیونکہ اگر یہ کررہے ہوتے تو اصحاب الیمین کے ساتھ کھڑے ہوتے – یہاں تو انکار کرنے والے اصحاب المشامہ کی بھرمار لگتی ہے جن کے لیے آگ بھڑکائی گئی ہے اور وہ اس سماج کو جہنم بنائے پھرتے ہیں – (سورہ بلد ان کی زبان پر جاری تو رہتی ہے مگر وہ سینے میں جاگزیں نہیں ہوتی)
شمشاد علی اشک جیسے وہ لوگ تھے جن کو لگتا تھا…..
روشنی جتنی تیری یاد نے پھیلائی ہے
مہ و خورشید نے اتنا بھی اجالا نہ کیا
وقار عظیم

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author