رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم محبتوں کے زمرے میں بہت مقروض ہیں۔ آپ بھی اگر اپنے دل کو ٹٹولیں تو امید ہے کہ آپ بھی اس درویش کی طرح سود در سود بھاری قرض کے پہاڑ تلے خود کو دبا ہوا محسوس کریں گے۔ ہم ان محبتوں کا قرض کیسے اتار سکتے ہیں جو بچپن سے عمر کے اس حصے تک ہمارے نصیب میں ہیں۔ حوصلہ نہیں اور قدرتِ اظہار سے عاجز ہیں کہ اس مقدس گود پر کچھ لکھ سکیں کہ بچے کو کوئی تکلیف ہو تو تڑپ اُٹھے۔ وہ بے چین ہو تو اس کی دنیا آندھیوں میں گھر جائے۔ وقت کسی کا انتظار کب کرتا ہے۔ گردشِ لیل و نہار ایک اٹل حقیقت ہے۔ سب نے اس گردش کی دھند میں غائب تو ہو جانا ہوتا ہے مگر اس کی وسعتوں‘ محبتوں اور رشتوں سے صرف وہی لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو اس کے ہر پل میں زندگی بسر کریں‘ ماحول اور رشتوں کا ادراک رکھتے ہوں اور اپنے شعور میں دوسروں کے لیے محبت کے چراغ ہر آندھی اور طوفان میں جلا ئے رکھیں۔ ذرا غور کریں‘ کچھ سوچیں کہ کون ہے جس نے محبت نہیں دی۔ یہ صرف زاویۂ نگاہ کا فرق ہے کہ ہم میں سے اکثر گلہ اور شکایت کرتے رہتے ہیں۔ رشتہ داروں سے‘ دوستوں سے یہاں تک کہ اپنے بچوں سے اور ہمکاروں سے۔ ہم ایسی تصویروں کو دل کی گیلری میں سجا کر خود اپنی ہی فریب کاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ محبت کرنے والے دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ اچھائی‘ انسانیت‘ نیک نیتی‘ خوشگوار لمحے‘ خوشبودار رفاقتیں‘ درویشوں کا منش یہ ہے کہ ہر ا نسان ہم سے اچھا ہے۔ یہ محبت کا پہلا سبق ہے۔ اس سے انسانیت کے سب دروازے کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اپنے اوپر پھر کوئی کیوں رقابتوں کا بھاری پتھر لادے‘ ڈگمگاتا‘ لڑکھڑاتا زندگی گزارے۔ اس میں کیا عقل مندی ہے کہ اپنے احساسات میں کسی سے نفرت کو جگہ دیں۔
عرصہ ہوا مثنوی مولانا روم سرہانے رہی۔ سونے سے پہلے کچھ پڑھ لیا۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم ہیں تو ظاہری طور پر استاد مگر خوش ہم طالب علمی میں ہی رہتے ہیں۔ علم و دانش کی محبت بانٹنے والوں کا قرض ‘خواہ وہ معلم‘ مصنف‘ فلسفی‘ مورخ یا کتاب کی صورت ہو‘ کبھی نہیں چکا سکتے۔ یہ جو ہم گلی‘ محلوں‘ بازاروں‘ دنیا بھر کے شہروں اور دنیا بھر کے انسانی اجتماعات میں گھومتے پھرتے ہیں‘ کیا یہ سب کچھ مشاہدہ کرنے اور سیکھنے کے لیے کچھ کم ہے؟ موسم بہار کی اس صبح جب طلوعِ آفتاب میں ابھی کچھ وقت ہے‘ درختوں کے پھولوں کی خوشبو سے ماحول معطر اور ہر نوع کے پرندے اپنے اپنے راگوں کی دھن میں مست ہیں۔ فطرت کے روح کو چھو جانے والے یہ رنگ اپنی کم مائیگی‘ ناپائیداری کے ساتھ احسان مندی کا بھی شعور اجاگر کرتے ہیں۔ ہر روز فطرت کی طرف سے ہمارے قرض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ رومی کو جب پڑھ رہے تھے تو ہماری نظر ایلف شفق کے ”محبت کے چالیس اصول‘‘ پر پڑی تو ان کے گرویدہ ہوگئے۔ استنبول گئے تو سب تصانیف خرید کر لائے۔ کیا خوبصورت‘ سادہ اور گہرا اسلوب ہے۔ بات ہم محبت کی کررہے تھے تو اس کتاب کا حوالہ دیے بغیر آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ زیادہ گفتگو شمس تبریز سے ہے جو مولانا رومی کو جانتے ہیں۔ شمس تبریز کی شخصیت اور کردار پر اثر کو کیسے نہیں جانتے ہوں گے۔ شفق نے ”شمس‘‘ استعارے کو خوب برتا ہے۔ ”اُسی دن میں نے ایک شخص سے کہا کہ شمس سے پوچھا کہ اگر اُن کو پریشانی نہ ہو تو کہوں کہ لوگوں میں ان کے بارے میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مشکل سے ایک انجانے خوف پر قابو پاکر کہہ دیا کہ آپ کے دشمن بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ شمس نے خالی نظروں سے میری طرف دیکھا جیسے انہیں کوئی خیال نہ تھا کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔ ”میرے تو دشمن نہیں۔ خدا سے محبت کرنے والوں کے نقاد اور رقیب ہو سکتے ہیں مگر دشمن نہیں‘‘۔ میں نے اعتراض کیا کہ آپ لوگوں سے جھگڑتے رہتے ہیں۔ پرجوش انداز میں کہا کہ میں لوگوں سے کبھی نہیں لڑتا۔ ان کی خود پسندی سے جھگڑا ہے‘‘۔ محبت کا ایک اصول یہ ہے کہ جو اچھا یا برا آپ کہتے ہیں‘ کسی نہ کسی طریقے سے آپ کے پاس واپس آجاتا ہے۔ لوگ زندگی میں اپنے خوف اور خدشات کندھوں پر لیے اسی بوجھ سے کرش ہو جاتے ہیں۔ باتیں اور بھی ہیں انسانی المیے کو سمجھنے اور کچھ سیکھنے کے لیے ۔ شفق کی کتاب کے ایک صفحے سے حوالہ صرف اپنی اور آپ کی یاد دہانی کے لیے ہے کہ ہم کہاں کھوئے ہوئے ہیں ۔ ذ ہنی اندھیروں سے نکل کر روشنیوں کی طرف کیوں نہیں آتے۔
دورِ حاضر‘ جس میں ہم جی رہے ہیں‘ ہمارے سامنے تبدیل ہوا ہے۔ کئی انقلاب گزشتہ پچاس سالوں میں آنکھوں کے سامنے دیکھے ہیں۔ ہماری باہر کی معروضی دنیا تو کب کی بدل چکی۔ مغرب بدل گیا۔ مشرق میں انقلاب آگئے۔ ہمیں کس کی نظر لگ گئی؟ کئی ممالک اور شہروں میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اگرچہ ہمارا محور و مرکز اپنا معاشرہ رہا ہے‘ باہر کی دنیا میں مگر لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ‘ اطمینان‘ زبان میں حلاوت‘ ہمدردی‘ احترام اور اپنے کام سے کام رکھنے کے رویے دیکھے ہیں۔ وہاں بھی فرشتے تو نہیں رہتے‘ نہ ہی انسانی معاشروں میں ممکن ہے۔ نسل پرستی بھی ہے اور تعصبات بھی مگر کامیاب معاشروں میں لوگوں کی نظر اس پر ہوتی ہے کہ اچھا کیا ہے اور انہیں کیا حاصل کرنا ہے۔ شکر اور صبر کے ساتھ کچھ دلنوازی کی بھی ضرورت ہے۔ مایوسی اور نفرت کا بھوت ذہن پر سوار نہیں رہتا۔ ایک عرصہ گزرا کسی جگہ مدعو تھا۔ سب کامیاب اور دولت مند لوگ تھے مگر زبان پر یہ تھا کہ ہم مرگئے‘ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ شام اور ایسی کئی شامیں میں نہیں بھول سکتا۔ دیکھا ہے کہ دولت مندی دو طرح کی ہے۔ ایک وہ جو آپ گنتے ہیں اور اس کی ایک حد ہے جہاں پر آپ کی گنتی ختم ہوجاتی ہے۔ اور ایک وہ ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ گنتی نہیں کر سکتے مگر جب آپ اس کی طرف دھیان کرتے ہیں تو وہ بڑھتی ہی رہتی ہے۔ اور وہ ہے محبت۔ چیزوں سے نہیں‘ فطرت سے‘ انسانوں سے اور ان سب سے جن کی ہمارے روبرو کچھ مہربانی‘ شفقت اور محبت رہی ہے۔ دوسری طرف کیا دیکھنا‘ کیا سوچنا‘ کیا دھیان دینا‘ اگر ہم صرف ان کو ہی اپنے خیالوں میں جگہ دیں جنہوں نے اپنے خیالوں میں بسائے رکھا تو کسی اور کے لیے کب وقت ملے گا۔
جب محبت بانٹی گئی تو کوئی غریب نہیں رہا ہوگا اور نہ ہی اس دولت میں ایسا ممکن ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم بھول چکے ہیں۔ اہمیت نہیں دی اور بیکارکی باتوں میں زندگیاں کھپا دیں۔ ہر کسی کی اپنی ایک چھوٹی سی دنیا ہوتی ہے۔ اس میں ہم بس جائیں اور وہ ہم میں بس جائے تو صرف محبت کی چاشنی اور اس کا احساس باقی رہتا ہے۔ ہم سب خوش قسمت ہیں‘ ہم سب کو کچھ محبتوں کے رنگ‘ ماں کی گود سے لے کر دوستوں‘ عزیزوں اور اردگرد کے بے شمار لوگوں سے نصیب ہوئے ہیں۔ کسی اجنبی کی مسکراہٹ‘ کسی کا نرم لہجہ‘ کسی کے دو میٹھے بول اور کسی کی طرف سے چائے کی پیالی کی دعوت ہمیں تو محبتوں کے قرض میں جکڑ لیتے ہیں۔ خود پسندی اور اَنا کا پردہ حائل ہو جائے تو محبتوں کے یہ رنگ کیوں کر نظر آئیں گے۔ وہ جو آپ سے مخاصمت رکھتے ہیں‘ یہ ان کا مسئلہ ہے‘ آپ کا نہیں۔ آپ تو ایسے رویوں سے کوئی سبق ہی سیکھ سکتے ہیں۔ محبت کا قرض کسی اور جنس سے نہیں‘ صرف محبت سے ہی لوٹایا جاسکتا ہے۔ ہم تو بہت مقروض ہوچکے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ