عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے لیے اور مجھ جیسے لکھنے والے درجنوں لکھاریوں کے یہ لکھنا بہت ہی آسان ہے کہ انقلاب اور حقیقی جمہوریت کا سفر خون مانگتا ہے اور پیارے وطن کے نظام کی صفائی اور ملک کی بقا اب کسی انقلاب کی متقاضی ہے۔
کاش کہ جمہوریت کی دیوی کسی دنبے یا اونٹ کی قربانی پہ راضی ہوجاتی ہم روز قربان کرتے، لیکن یہاں سیاست کے کھیل کھیل میں اس دھرتی کے بھرپور نوجوان اپنی جانیں گنوائیں تو ایک لمحے کو رک کر دیکھنا ضروری ہے کہ یہ قیمتی جان آخر کس کی گئی اور کس کی خاطر گئی؟
اس جان کے بدلے اس ملک کو کیا ملا؟
اکتوبر 2012 میں عمران خان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا، سینکڑوں پاکستانیوں نے اس ریلی میں خان صاحب کا ساتھ دیا۔ اس احتجاجی جلوس کو دنیا بھر کے اخبارات نے کوریج دی کیونکہ ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت ہمیشہ سے مشتبہ رہی ہے۔
عمران خان کے اس احتجاج کی بنیاد انسانی حقوق کا تحفظ تھا، اس لیے خان صاحب کا امریکی ڈرون مخالف بیانیہ چل پڑا۔ انہیں طالبان کا حامی کہا گیا، ڈرون حملوں پہ امریکی یا پاکستانی پالیسی تو نہیں بدلی لیکن بہرحال عمران خان نے ٹھیک ٹھاک سیاسی سکورنگ کرلی۔
اس زمانے میں عمران خان 2013 الیکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے، اب سینکڑوں نہیں ہزاروں پاکستانی عمران خان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ مخالفین نے دیکھا کہ کیسے عمران خان نے لاہور کی تاریخ کے کامیاب جلسے کر کے دکھائے۔
الیکشن میں عمران خان کی جماعت جس گرم جوشی سے شامل ہوئی نتائج اچھے رہے مگر بہرحال عمران خان کی جیت تک نہ آ سکے۔ یوں 2014 سے عمران خان کی احتجاجی سیاست کو نیا ٹارگٹ مل گیا۔ پہلے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کا رخ کیا اور پھر سڑکوں کا۔
اگست 2014 سے عمران خان کی سربراہی میں آزادی مارچ نکلا جو ہوتے ہوتے اسلام آباد کے ڈی چوک کا دھرنا بن گیا۔ بات سول نافرمانی تک پہنچی اور 126 دن بعد یہ دھرنا بغیر کسی حکومتی آپریشن کے خود ہی ختم کر دیا گیا۔
کئی ماہ چلنے والے اس دھرنے میں خان صاحب کی جماعت نے سڑکیں گھیرنے، ریاست اور حکومت کو چیلنج کرنے، اپنے کارکنوں کو روز شام خطاب سننے کے لیے جمع کرنے، خیمہ گاڑ کر سیاسی کارکنوں کو مہینوں اپنے ساتھ رکھنے کا ہنر سیکھ لیا۔
تحریک انصاف کا ڈی چوک دھرنا دراصل احتجاجی سیاست کی ایک ایسی تربیت تھی جس میں شامل کارکن آنسو گیس سے نمٹنے، لاٹھی چارج سہنے، زخمی ہو کر ہسپتال جانے، گرفتاری دینے یا گرفتاری سے بچنے، پولیس وین سے کودنے، شیشے توڑنے اور املاک کو توڑنے پھوڑنے میں طاق ہو گئے۔
اس دھرنے سے کارکنوں کو سیکھنے کو سب کچھ ملا سوائے اس بات کے کہ دھرنے کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ احتجاج اقتدار کے لیے ہے یا جمہور کے لیے؟ اس احتجاج سے پاکستان کو کیا ملے گا؟ کیا سیاسی کارکنوں کو آزادی کے نام پہ لوٹا تو نہیں جا رہا اور اس احتجاج کا منطقی انجام کیا ہوگا؟
2014 کے دھرنے سے عوامی مقبولیت بڑھی مگر کوئی خاطر خواہ نتائج نہ ملے تو پاناما لیکس آ گئیں اور یوں خان صاحب کی احتجاجی سیاست کو نیا اور پہلے سے بھی زیادہ مقبول نعرہ مل گیا اور تھا کرپٹ ٹولے کی حکومت گرانا۔ پھر وہ حکومت گری بھی اور 2018 کے الیکشن میں شکست سے بھی دو چار ہوئی۔
عمران خان بالآخر 2018 میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے لیکن یہ کہانی بھی بس ساڑھے تین سال چل سکی۔ 2022 میں انہیں عدم اعتماد کی پارلیمانی کوشش سے ایوان اقتدار سے گھر بھیج دیا گیا اور یوں ایک بار بھر تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کو نئی زندگی مل گئی۔
اب تو نعرہ اور بھی شدید ہے اب تو نوالہ شیر کے منہ سے چھینا گیا ہے تو احتجاج بھی اس پائے کا بنتا ہے۔
جس رات عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اس رات سے احتجاج قسط وار کیا جا رہا ہے بلکہ یوں کہیے گذشتہ ایک برس سے تحریک انصاف مسلسل حالت احتجاج میں ہے، کارکن اپنی سکت کے مطابق اب تک اس پارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں، اس بار مسلسل احتجاج کو حقیقی آزادی کا نام دیا گیا ہے۔
لگ بھگ ہر تیسرے چوتھے روز اعلان ہوتا ہے کہ حکمران تیاری پکڑ لیں اب کی بار ایسا احتجاج ہو گا، ویسا احتجاج ہو گا۔ عمران خان عوام سے مخاطب ہو کر انہیں تیار رہنے کی تاکید کرتے ہیں، کچھ روز گزر جاتے ہیں اور پھر ایسے ہی اعلانات کیا جاتے ہیں۔
کارکنوں کو بار بار احتجاج کی مشکل میں ڈال کر انہیں کئی کئی گھنٹے حکومتی فاشزم کا نشانہ بنوا کر پھر خود ہی احتجاج موخر کر دیا جاتا ہے۔
2012 سے آج تک تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کا پورا احوال سنانے کا مقصد اپنے قارئین کو سوچنے کا ایک موقع دینا ہے۔ سوچیں کہ تحریک انصاف کی اس احتجاجی سیاست کا فائدہ کس کو ہوا، اس کے فنانسر تو چلیں جو بھی تھے اور ہیں مگر اس احتجاجی سیاست کے لیے جان کی قیمت کس نے دی؟
ریلی، جلسے، احتجاج اور دھرنے سب عوامی جذبات کے اظہاریے ہیں لیکن سوچیں کہ کب تک سیاسی جماعت عوامی جذبات کو برانگیختہ کر کے اپنی سیاسی گیم پلان کرتے رہیں گے، کب تک ظل شاہ جیسے جذباتی کارکن احتجاجی سیاست کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔
یاد رکھیں 2014 میں احتجاج کی کال دینے والوں کو آج یہ شاید یاد بھی نہیں ہو گا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن آج بھی انصاف کا منتظر ہے۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ