حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو سے زیادہ انتہاہوں میں تقسیم ہمارے سماج کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ ہر فرد، گروہ اور جماعت وغیرہ کا اپنا اپنا مظلوم اور ظالم ہے اور ہر شخص اس بات کا مدعی بھی ہے کہ جسے وہ ظالم سمجھتا اور مظلوم جانتا ہے لوگ بھی اسی ترتیب سے سمجھیں بولیں۔
قلم مزدوری نئی نئی شرع کی تھی ایک دن استاد مکرم قادر حسین مگسی فرمانے لگے، بیٹا دوسروں کی رائے پر نہیں اپنی رائے پر عمل کرو گے تو سکھی رہو گے۔ عرض کیا استاد مکرم میں کچھ سمجھا نہیں۔
ارشاد ہوا، طالب علم رائے دینے سے احتیاط کرتا ہے کیونکہ مطالعہ جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے بعض امور پر رائے تبدیل ہوتی رہتی ہے البتہ چند امور ایسے ہوتے ہیں ان پر مستقل رائے رکھنا پڑتی ہے۔ پھر خود ہی مستقل رائے کی وضاحت یوں کی (میری یادداشت کے مطابق)
کسی بھی انسانی سماج کے ارتقا کی ضمانت مساوات پر مبنی اس کا عادلانہ نظام ہوتا ہے۔ جو لوگ اور طبقات مساوات پر مبنی عادلانہ نظام کے مستقل طور پر آڑے آتے ہوں ان کے بارے میں رائے پختگی سے قائم کرنے میں عصری شعور معاونت کرتا ہے۔ لگ بھگ چالیس برسوں بعد یہ سطور لکھتے ہوئے یادداشت یہ اطمینان دلارہی ہے کہ استاد مکرم کی بات یا یوں کہہ لیجئے نصیحت کا مفہوم بالکل یہی تھا۔
گزری چار دہائیوں میں اتارچڑھائو بہت دیکھے یہاں تک کہ عقیدے کے معاملے میں بھی یہ طالبعلم پُرکھوں کی روایات کا اسیر نہیں ہوپایا البتہ یہ ضرور ہے کہ تب اور آج بھی میری رائے یہی ہے کہ عقیدہ فرد کا خاص ذاتی معاملہ ہے۔ دوسروں کے عقیدوں میں کج تلاش کرکے ان میں کیڑے نکالنے کی بجائے مطالعہ کو وسعت دی جانی چاہیے۔ یہ وسعت ظاہر ہے تقابلی مطالعہ سے مل سکتی ہے۔
کبھی کبھی نہیں ہر لمحہ میں اپنے اساتذہ سے بعض مربیوں اور دوستوں کے لئے دعاگو رہتا ہوں کہ ان سے ہوئے مکالموں اور ان کے مطالعہ و مشاہدات سے طالب علم نے بہت کچھ سیکھا۔ یہی سبب تھا اس پچھلے کالم کا جس میں عرض کیا تھا کہ کامل سچائی اور مجسم شیطان والی متھ کچھ بھی نہیں۔
مزید وضاحت کےساتھ عرض کئے دیتا ہوں کہ اس متھ کا مطلب میں سچا اور تم شیطان ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ انسان میں چلیں یوں کہہ لیجئے آدمی میں خوبیاں خامیاں ہوتی ہیں۔ اس لئے کسی کو کامل سچائی اور کسی کو مجسم شیطان کہنا سمجھنا غلط ہے۔
دیکھنے سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آدمی انسان بننے کے سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے انسان بنتا ہے یا آدمیوں کے جنگل کا کیکر ہی رہتا ہے۔
ہمارے ایک اور استاد مکرم مرحوم و مغفور سید عالی رضویؒ فرمایا کرتے تھے مطالعہ کرتے رہنا کمال نہیں کمال یہ ہے کہ طالب علم اپنے پڑھے کو حرف آخر سمجھ کر خبطِ عظمت کا شکار نہ ہو ۔
سیدی عالی رضویؒ سے طالب علم نے اداریہ نویسی سیکھی۔ یہ سال 1991ء کی بات ہے جب برادر بزرگ سیدناصر نقوی کی مہربانی نے مساوات کےبیگار کیمپ سے نجات دلاکر مشرق لاہور میں ملازمت دلوائی۔ ہم جو خود کو ” بوہت ” دھانسو قسم کا صحافی سمجھتے تھے مشرق کے میگزین سیکشن میں سب ایڈیٹر بنادیئے گئے۔ ہفت روزہ جدوجہد کراچی، رضاکار اور کہکشاں لاہور کے علاوہ ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ لاہور کا ایڈیٹر رہنے کا زعم اس وقت ” رُل ” گیا جب پہلے دن چند مضامین کی پروف ریڈنگ پر بٹھادیا گیا۔
ہفتہ بھر کے بعد سیکشن کے دوسرے ساتھیوں کو نجانے کیا سوجھی ایک دن حکم ملا آئندہ ہر ہفتہ ایک سیاستدان کا سوانحی خاکہ لکھنا ہے۔ شکر خورے کو اللہ شکر دے۔ ہم تو پہلے ہی "تپے” بیٹھے تھے سو پیر پگارا، غلام حیدر وائیں، خان عبدالولی خان، سیدہ عابدہ حسین، رسول بخش پلیجو سمیت دو تین مزید سیاستدانوں کے سوانحی خاکے لکھے۔
مشرق کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے ان سوانحی خاکوں کی وجہ سے ہنگامے بھی ہوئے۔ پشاور میں مشرق کے دفتر کے باہر اے این پی کے دوستوں نے "ولیانہ سیاست کے پچاس سال‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے سوانحی خاکے پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
قصہ مختصر ہوا یوں کہ ان سوانحی خاکوں کی بدولت ہم اپنے عہد کے نابغہ روزگار سید عالی رضویؒ کی نگاہوں میں چڑھ گئے۔ عالی صاحب ان دنوں مشرق کے چیف ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے جناب اقبال زبیری مرحوم اور سید ممتاز شاہ صاحب سے تقاضا کیا کہ اس نوجوان کو میرا معاون بنادیا جائے ( یہ 42 برس قبل کی بات ہے ) ۔ عالی صاحب بنیادی طور پر اداریہ نویس تھے۔ صحافت کے کوچے میں وہ پہلے دن ہی اداریہ نویس کی حیثیت سے اترے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ’’مشرق‘‘ ان دنوں ابھی این پی ٹی کی ملکیت کا سرکاری اخبار تھا ۔
ادارتی سیکشن میں عالی رضویؒ صاحب کے معاون کے طور پر کام شروع کیا تو اس سیکشن کے ایک دوسرے ساتھی پرویز سبحانی سے تعارف ہوا۔ پرویز سبحانی کی ذمہ داری ادارتی صفحہ جڑوانے کی تھی۔ بہت نفیس انسان تھے بڑے محبتی اور ملنسار۔
مشرق کے میگزین سیکشن سے ادارتی سیکشن کی طرف روانگی خود عالی صاحب کی قیادت میں ہوئی۔ وہی وصول کرنے آئے تھے ہمارے بعض ساتھیوں نے بہت شور مچایا یہ شور بس عالی صاحب سے چھیڑچھاڑ کے لئے تھا۔ حقیقت میں یہ ساتھی اس بات پر خوش تھے کہ شاہ جی کو عالی صاحب نے شاگردی میں لے لیا ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے اس دن کے مناظر آنکھوں کے سامنے رقص ررہے ہیں۔
عالی رضوی صاحب نے عملی زندگی میں بطور وکیل قدم رکھا مگر مہینہ بھر بعد یہ کہہ کر راولپنڈی کی ضلع کچہری سے نکل لئے کہ ہم کسی اور دنیا کے لئے بنائے گئے ہیں۔ والدہ صاحبہ کے سوال پر کہ اب کیا کرو گے انہوں نے جواب دیا صحافت کے شعبہ میں جائوں گا۔
مشرق میں ان کی شاگردی کا اعزاز حاصل کرنے سے قبل ہماری ان سے چند ہی ملاقاتیں تھیں۔ وہ ایک دن کوپر روڈ پر واقع ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ کے دفتر بھی تشریف لائے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ تشریف آوری طالب علم کی ایک تحریر کی تحسین کے لئے تھی۔ اس دن سید عالی رضوی کے ہمراہ فلمی دنیا کے معروف جریدے ’’سکرین لائٹ‘‘ کے بانی ایڈیٹر غفور بٹ مرحوم کے صاحبزادے معین بٹ بھی تھے۔ عالی صاحب معین بٹ کے ہمراہ زنجیر کے دفتر میں داخل ہوئے اور بلند آواز میں ہمارا نام لیتے ہوئے بولے یہ شاہ صاحب کدھر بیٹھے ہیں؟
اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے عرض کیا حضور یہ میں ہوں۔ وہ لمحہ بھر کے لئے رکے پھر قہقہہ لگاتے ہوئے بولے ’’توں تے شیعاں دا نوجوان ذاکر لگنا ویں شکلوں‘‘۔
مشرق کے برسوں میں استاد مکرم نے جب ڈانٹ ڈپٹ کرنا ہوتی تو کہا کرتے تھے ’’میں کیہا ذاکر اہلیبیت صاحب مجلس نی پڑھنی اداریہ لکھنا وے‘‘۔ عالی صاحب کی شاگردی میں گزارے پانچ برسوں کے دوران ان سے بہت فیض حاصل کیا۔ استاد شاگرد دن بارہ بجے تک اداریہ اور شذرے وغیرہ لکھ کر فراغت پالیتے تھے پھر ان کے پان، ہمارے سگریٹ اور ساتھ چائے پہ چائے کے دور چلتے اور دنیا جہان کے موضوعات چھڑ جاتے۔
عالی صاحب حقیقی معنوں میں عالم تھے۔ اداریہ نویس کے طور پر انہوں نے جو نام اور مقام بنایااس بلندی تک کوئی نہیں پہنچ پایا۔ تاریخ، تقابل ادیان، عصری سیاست، فلسفہ، قدیم ہندوستانی ادب اورتاریخ کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات پر وہ گھنٹوں بولتے اور موتی لٹاتے ۔ وضعدار اور محبتی شخصیت تھے عالی صاحب غضب کے جملہ باز بھی ۔
مشرق کے قلم مزدور ہوں یا دیگر ملازمین سبھی ان کے گرویدہ تھے وہ ہر شخص سے مہربان دوست کی طرح پیش آتے سبھی کے دکھ درد میں سانجھ کرتے۔
عالی رضوی صاحب کے ہمراہ ہفتے میں ایک دن لاہور کے کتب خانوں یا یوں کہہ لیجئے کتابوں والی دکانوں پر بھی جانے کا موقع ملتا۔ وہ کسی نہ کسی دکان پر مجھ سے یہ ضرور پوچھ لیتے، ہاں بھئی اے کتاب توں پڑھی اے؟ ہمیشہ کہا کرتے طالب علم کو وہ کتاب بھی پڑھنی چاہیے جس کے مصنف سے نظریاتی بُعد ہو ۔ کہا کرتے تھے کہ دوسروں کی آراء پڑھے بغیر ان کے بارے میں رائے دینا ہوا میں تلوار چلانا ہے۔
کالم یہاں تک پہنچا تو مجھے یاد آیا کہ سیدی عالی رضوی صاحب حسین بن منصور حلاجؒ کے بڑے مداح تھے انہیں جب علم ہوا کہ حلاجؒ اور سرمدؒ ان کے شاگرد عزیز کو بھی محبوب ہیں تو بہت مسرت کا اظہار کیا۔
حلاجؒ کے بعض اشعار کی جو تفسیر عالی صاحب بیان کرتے اسے سن کر میں جھوم اٹھتا۔ ایک اکل کھرے ترقی پسند روشن خیال اور متوازن انسان تھے عالی رضوی صاحب، حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
مشرق کے اس دور کے جب کچھ سینئر دوست ان سے کہتے، عالی صاحب آپ حیدر کے بڑے نخرے اٹھاتے ہیں تو وہ رسان سے کہتے ’’مروتسیں حیدر دے ای تے نخرے چکنے چاہیدے نے‘‘۔ پھر زندگی سے بھرپور قہقہہ اچھال کر کہا کرتے
’’تہانوں لئے مولا، بوڑھاپے دی اولاد تے شاگرد دو ویں بہت پیارے ہوندے نے‘‘۔
میں دیگر اساتذہ کرام کے ساتھ عالی صاحب کو بھی بہت اور ہمیشہ یاد کرتا ہوں یاد کیوں نہ کروں مجھ طالب علم کو کبھی کبھی اپنی ذات اساتذہ کرام کا صدقہ لگتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر