ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
9 مارچ 1999 کو میری ” عارضی موت ” واقع ہو گئی تھی۔ اگر میں مریض ہوتا اور گھر میں کسی ڈاکٹر کے ہوتے ہوئے یا ہسپتال میں ایسا ہوتا تو اسے طبی زبان میں ” کلینیکل ڈیٹھ ” کہا جاتا، مگر میری یہ موت تین بلند عمارتوں کے درمیان خالی رستے پر چلتے ہوئے تب ہوئی تھی جب کسی نے پشت سے میرے سر پر کسی کند شے سے زوردار وار کیا تھا جس کا مجھے زندگی میں واپس آنے کے بعد معلوم ہوا کیونکہ میری کھوپڑی تین جگہ سے چٹخ چکی تھی اور دماغ سے رسنے والا خون حرام مغز میں سرایت کر چکا تھا۔ اس بارے میں بھی تب پتہ چلا تھا جب ریڑھ کی ہڈی سے مائع نکالنے کے بعد ڈاکٹر نے مجھے خون آلودہ سیریبروسپائنل فلوئیڈ سے بھری سرنج دکھائی تھی۔ ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کر دیا تھا مگر مجھے معلوم تھا کہ میں زندہ رہوں گا۔ ایسا کیوں تھا اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہیں۔ ویسے بھی میں یہ واقعہ دو چار بار پہلے لکھ چکا ہوں، خیر۔
آتے ہیں موت سے متعلق معلومات کی جانب۔ جب آپ مر جاتے ہیں تو آپ کا دماغ دس منٹ سے زیادہ عرصے بعد تک کام کرنا جاری رکھتا ہے۔ ہمارا موت سے متعلق خیال بہت سادہ ہے۔ ہم اس شخص کو مردہ خیال کرتے ہیں جس کا دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے شخص کا نظام تنفس اور بدن میں خون گردش کرنے کا نظام ناکارہ ہو جاتا ہے۔ جسم کے دکھائی دینے والے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور انسان میں زندگی باقی دکھائی نہیں دیتی۔
مگر معاملہ اس سے آگے کچھ اور بھی ہے۔ باوجود اس کے کہ دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، دماغ کام کرتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دماغ غالبا” انسان کے جسم کا آخر میں مرنے والا حصہ ہو سکتا ہے۔
موت سے چند ثانیے پیشتر انسان کے دماغ میں برقی رو کا ہیجان واقع ہوتا ہے۔ یہ تو شاید آپ جانتے ہی ہوں کہ جاندار میں توانائی برقی رو پیدا کرتی ہے جس سے زندگی جاری رہتی ہے، ویسے ہی جیسے بیٹری سیل سے کھلونا مختلف کام کرتا رہتا ہے۔
برقی ہیجان کیوں واقع ہوتا ہے، اس بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں۔ ساتھ ہی دماغ میں آکسیجن ضائع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ دماغ آکسیجن استعمال کرنے والا سب سے بڑا عضو ہے جو انسان کی روزانہ استعمال کردہ کل آکسیجن کا تقریبا” ایک چوتھائی استعمال کرتا ہے۔ دل کی دھڑکن کے رک جانے کے بعد بھی انسان دو سے بیس سیکنڈ کے لیے باشعور رہتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کے اوپر کی جھلی یعنی سیریبرل کارٹکس جو سوچنے اور فیصلہ کرنے کی ذمہ دار ہے آکسیجن کے بنا بھی کام کر سکتی ہے۔ اس حصے کا ایک اور کام یہ ہے کہ وہ ہمارے احساس سے حاصل کردہ معلومات کو عمل میں ڈھال دیتا ہے۔
باوجود اس کے کہ دماغ کا یہ حصہ کام کر رہا ہوتا ہے لیکن مرنے والے شخص کا ہر طرح کا تحرک اور بدنی ردعمل تمام ہو چکا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی دماغ کے مرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ دماغ کے خلیے ان کیمیائی اعمال کے راستوں کو متحرک کر رہے ہوتے ہیں جو بالآخر ان خلیوں کو ان کی مکمل موت کی جانب لے جائیں گے۔
آکسیجن پمپ انسان کی موت اور حیات کے درمیان کی شے ہے اگر کوئی کسی طرح جیسے مصنوعی تنفس دے کر یا کسی اور طبی طریقے سے دل کی دھڑکن واپس لا سکے تو انسان کے دماغ کو کافی آکسیجن میسر آ سکتی ہے کہ وہ پھر سے کام شروع کر دے۔ اگر آکسیجن نہیں ملتی تو انسان کا دماغ ہتھیار ڈالنے لگتا ہے۔ یوں انسان کے دماغ کا بیشتر حصہ مر جاتا ہے مگر دماغ کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو اتنی آسانی سے ہار نہیں مانتا۔
یہ حصہ یادداشت کا مرکز ہے جو انسان کی زندگی میں آنے والے بیشتر جذباتی مواقع کی یادداشت محفوظ رکھتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ خون کی گردش کا محتاج نہیں، چاہے کتنا ہی خون کیوں نہ بہہ چکا ہو۔ انسان کے دماغ کا یہی حصہ آخر میں مرتا ہے۔ مگر مرنے سے پہلے یادداشت کا مرکز انسان کی زندگی میں ہونے والے ان واقعات کی تصاویر تیزی کے ساتھ اس کی آنکھوں کے عین سامنے لاتا ہے۔
جب ڈاکٹر کسی انسان کو مردہ قرار دے دیتے ہیں اور زندگی جاری رکھنے والے آلات کو اس کے بدن سے علیحدہ کر دیتے ہیں اس کے بعد بھی دماغ دس منٹ سے کچھ دیر زیادہ وقت تک تک اپنا کام جاری رکھتا ہے۔
جب ڈاکٹروں نے اس وقت کے دوران مرنے والوں کے دماغ کی عمل کا برقی مشاہدہ کیا یعنی الیکٹرو اینسیفولوگرام لیا تو ہر شخص میں یہ کچھ مختلف قسم کا تھا جس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ مرنے والے ہر شخص کا موت کا تجربہ اپنی ہی نوع کا ہوتا ہے۔
مرنے کے دو روز بعد بھی تقریبا” دو ہزار جین مردہ بدن میں فعال رہتے ہیں۔ ان میں کچھ جین انتہائی فعال ہوتے ہیں اور ان کے افعال انتہائی اہم ہوتے ہیں جیسے سوزش کو ابھارنا، جسم کے خود حفاظتی نظام یعنی امیون سسٹم کو انگیخت کرنا اور جسمانی دباؤ یعنی سٹریس میں کمی لانا۔
ان میں ایسے جین بھی ہوتے ہیں جو زندگی کے ابتدائی خلیہ جاتی لمحوں میں کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ ممکن ہے وہ خود کو خلیاتی زندگی میں لوٹ جانے کے باعث فوری موت سے بچانا چاہتے ہوں۔ ان جین میں سے کچھ مرض سرطان بڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ مرنے کے دو روز بعد بھی مردہ بدن میں سرطان پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مردہ بدن میں سرطان پیدا کیے جانے کا مقصد کیا ہے؟ یقینا” معاملہ پراسرار ہے۔
اصل میں ہمیں موت سے بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ ممکن ہے جسے ہم مردہ قرار دے دیتے ہوں وہ ابھی نہ مرا ہو چنانچہ ہمیں موت سے متعلق رویے تبدیل کرنے ہونگے۔ کیا ہم ان لوگوں کو مردہ قرار دے دیں جن کے کچھ اعضا ابھی کام کر رہے ہوں اور خاص طور پر انہیں مردہ قرار دیا جانا جن کے اعضاء عطیہ کیے گئے ہوں، کیا غیر اخلاقی عمل نہیں ہوگا؟
اب یہ جانیے کہ مجھے اس حادثے کے بعد، جس کے اثرات کو دیکھ کر ڈاکٹر میری زندگی سے مایوس یو چکے تھے، زندہ رہنے کا کیوں یقین تھا۔ اس واقعے سے چند ماہ پیشتر، غالبا” تین ماہ پہلے میری والدہ کا پچاسی برس کی عمر میں انتقال ہوا تھا جو دس سال سے مفلوج تھیں، پھر اپنے بڑے بیٹے کی موت کی خبر سن کر کومے میں چلی گئی تھیں اور آٹھ دس روز بعد کومے میں ہی انتقال کر گئی تھیں۔ میرے بڑے بھائی کا انتقال 25 دسمبر 1998 کو ہوا تھا۔
جب میں اس کیفیت میں تھا جسے میں نے "عارضی موت ” کہا ہے، مجھے اپنی والدہ دکھائی دی تھیں جیسے ان کی عمر چالیس پینتالیس برس ہو اور انہوں نے اپنے اس دور کا مخصوص لباس پہنا ہوا ہو۔ انہوں نے سامنے سے میری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر مجھے گرنے سے بچاتے ہوئے جو کہا اسے میں نے ان کی آواز سن کر نہیں بلکہ ان کے ہونٹوں کی حرکت سے سمجھا تھا کہ ” بیٹے ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، اٹھو”۔
کچھ عرصہ پیشتر تک، جب موت سے متعلق وہ تحقیق جس کا اس سے پیشتر بیان ہو چکا ہے سامنے نہیں آئی تھی، میں اسے ماورائی واقعہ سمجھتا رہا بلکہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے کافی عرصہ بعد تک مجھے اپنی والدہ کی روح خود پر سایہ فگن دکھائی دیتی رہی تھی۔
اس تحقیق کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میرا دل بہت کم مدت کے لیے بند ہوا ہوگا اور سر پر چوٹ کی شدت کے کم ہوتے ہی چل پڑا ہوگا جس سے دماغ کو آکسیجن میسر آ گئی ہوگی۔ مجھے ابھی تک یہی احساس ہے کہ میں شاید ضرب کھا کر گرا نہیں تھا، لیکن میں گرا یقینا” تھا کیونکہ میرا دایاں کان شاید حملہ آور کی بوٹ کی ٹھوکر کی زد سے چرا ہوا تھا جسے سیا گیا تھا اور میری ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ زخم اتنے برسوں بعد بھی ہرا ہی ہے اور ناک صاف کرتے ہوئے چھلنے پر خون دیتا ہے۔
مگر والدہ کی کہی بات کہ ابھی وقت نہیں آیا، اٹھو ۔۔۔ کیا میرے زندہ رہنے کی شدید خواہش تھی یا کچھ اور؟ ہم چونکہ باعقیدہ لوگ ہیں، ہمارا دھیان فورا” الوہ اور الوہی اعمال کی جانب جاتا ہے کہ شاید اللہ نے مجھ سے کوئی مزید کام لینے تھے یا اللہ نے مجھے سنبھلنے کا ایک موقع فراہم کرنا تھا لیکن سائنس ہے کہ یقین کو توڑے چلے جاتی ہے اگرچہ سائنس خود بھی ابھی بہت ناقص ہے۔ یہ تو بتا دیتی ہے کہ ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا ہے مگر ایسا کیوں ہوتا ہے اور ویسا کیوں ہوتا ہے، اس کے بارے میں اکثر خاموش رہتی ہے۔
سائنس میں ثبوت کے علاوہ اندازے بھی بہت لگائے جاتے ہیں جیسے اوپر بیان کردہ حقائق میں مر جانے والوں کے اینسیفلوگرامز کے متنوع ہونے سے ایک اغلب نتیجہ نکالا گیا ہے کہ موت کا تجربہ غالبا” ہر ایک کے لیے اپنی ہی طرز کا ہے۔ اب کوئی صاحب اس اغلب نتیجے کو ثابت کرنے پر لگ جائیں گے تو کوئی اسے غلط ثابت کرنے پر۔ زبانی کلامی نہیں باقاعدہ تجربات کے ذریعے۔
تو کیا ہم موت کے بارے میں مکمل طور پر کچھ جان بھی پائیں گے کہ نہیں؟ مجھے تو یقین ہے چاہے آپ کو ہو نہ ہو کہ ایک روز ایسا ضرور ہوگا اور پھر ایک روز موت کے اسباب اور موت کی جزئیات کے اسباب جان لینے کے بعد موت پر قابو پانے کا جتن بھی کیا جانے لگے گا۔
اگر میں اس بارے میں بھی یقین ظاہر کر دوں تو بھائی لوگ لٹھ لے کر پیچھے پڑ جائیں گے تو آئیے فی الحال حافظ شیرازی کے اس شعر کو ہی حرف آخر سمجھیں جس میں وہ کہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد کوئی لوٹا نہیں اس لیے ہمیں کیا معلوم کہ مرنے کے دوران کیا ہوتا ہے اور مرنے کے بعد کیا؟
All reactions:
Allaouddin Kang, Shafiq Leghari and 31 others
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ