مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی کلچر ڈے دھوم دھام سے منایا گیا۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں وسیب میں سرائیکی کلچر ڈے دھوم دھام سے منایا گیا۔ ملتان آرٹس کونسل اور ملتان ٹی ہائوس میں بڑی تقریبات منعقد ہوئیں۔ اس کے علاوہ وسیب کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ ملک اور بیرون ملک رہنے والے وسیب کے لوگوں نے سرائیکی ثقافتی تہوار منایا۔ ملتان میں منعقد ہونیوالی افتتاحی تقریب میں سید یوسف رضا گیلانی کی نمائندگی اُن کے بھائی سابق ایم پی اے سید مجتبیٰ گیلانی نے کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ سرائیکی تہذیب اور ثقافت ہزاروں سالوں پر محیط ہے اور نیلی سرائیکی اجرک اس خطے کی پہچان بن چکی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی صوبے کے وعدے سے دستبردار نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے سینٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کرا کر صوبے کے مسئلے کو آئینی تحفظ دے دیا ہے۔ پی پی کو جونہی دو تہائی اکثریت ملے گی بلا تاخیر صوبہ بن جائے گا۔ اس موقع پر دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر مہمانوں کو سرائیکی اجرکیں پہنائی گئیں۔ سرائیکی اجرک ریلیاں نکالی گئیں اور جگہ جگہ سرائیکی جھومر کے علاوہ سرائیکی گلوکاروں نے سرائیکی نغمات پیش کرکے محافل میں رنگ بھر دیا۔ ان تقریبات کو دیکھ کر مجھے پس منظر یاد آگیا ہے کہ بندہ ناچیز سرائیکی اجرک کا بانی ہے اور اس کیلئے مجھے سالہا سال محنت کرنا پڑی ہے۔ اس سلسلے میں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میں نے فریدی رومال کو عام کرنے کے ساتھ اس کو اجرک میں تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی ۔ اس سلسلے میں میں کراچی گیا۔ کپڑے کی بڑی مارکیٹ میں ان بیوپاریوں کو بھی ملا جو فریدی رومال تھوک کے حساب سے بیچتے تھے۔ میں نے ان کو کہا کہ فریدی رومال کو بڑا کر کے اس کی اجرک بنوا دو۔ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا ۔ مجھے سارے کہنے لگے ٹھیک ہے۔ ہماری اپنی شناخت ہے ۔ پر مجھے ایک بات کی ٹینشن تھی کہ آیا فریدی رومال کو دوسرے مسلک والے قبول کریں گے یا نہیں ؟ اگر نہ کیا تو یہ سرائیکی کی قومی شناخت نہ بن سکے گی۔ خان پور میں ماں بولی کی تقریب تھی، تلاوت کرنے والے کے گلے میں فریدی رومال پہنایا گیا تو اس نے اتار دیا ۔ بتایا کہ یہ میرے نہیں بلکہ دوسرے مسلک کی علامت ہے۔ مجھے بات سمجھ آ گئی۔ میں نے اس وقت ہی سوچ لیا کہ فریدی رومال کو اجرک بنانے کا منصوبہ کامیاب نہ ہو گا۔ کیونکہ ہم ایسی نشانی چاہتے ہیں جس کا تعلق دھرتی اور ثقافت کے ساتھ ہو اور اس کو سارے فرقے اور وسیب میں رہنے والے ہندو، مسلم عیسائی سب خوشی کے ساتھ پہنیں ۔ میں نے فیصلہ کیا جو سرائیکی اجرک بنوائی جائے اور اس کیلئے کام شروع کیا جائے ۔ کمپیوٹر پر کچھ ڈیزائن بنائے گئے ۔ جس کو دوستوں نے پسند کیا اور کچھ تجاویز سامنے آئیں۔کمپیوٹر پر ہم نے جو ڈیزائن بنوائے وہ ٹھپے لگانے والوں کے پاس لے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال نئے ٹھپے نہ بنوائیں ، ہمارے پاس جو ٹھپے ہیں ان کو ہم لگا دیتے ہیں ۔ آپ ان کو دیکھیں ، اگر پسند آئیں تو پھر آپ جیسے کہیں گے ۔ سب سے پہلے ایک پرانے ٹھپے والے جو ملتان کینٹ والی سائیڈ پر بیٹھے ہیں ، ان کو کپڑا لے کر دیا ، اس نے رقم بھی بہت ساری لی مگر کام نہ بنا۔ پھر حسین آگاہی میں گلی کمنگراں والوں کے پاس گئے ۔ اندرون دلی گیٹ گئے ، کچھ لوک یہ کہتے تھے کہ پانچ دس لاکھ ہووے ، فیصل آباد جا کے وہاں سے کپڑا پرنٹ کراؤ پر وہاں تھوڑا کپڑا نہ بنے گا ، بہت زیادہ ہو تو پھر کام بنے گا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اتنی رقم کہاں سے آئے ؟ مجھے شوکت مغل صاحب نے کہا کہ کرافٹ بازار والوں کے ساتھ مشورہ کر لیں ۔ہم کرافٹ بازار والوں کے پاس گئے ۔ ملتان کے عالمی شہرت یافتہ نقاش ملک عبدالرحمان سے ملے۔ ہم نے اپنا مدعا بیان کیا ۔ وہاں کہروڑ پکا کے استا دامیر بخش پہلے سے موجود تھے۔ ملک صاحب نے ان سے ملوایا۔ ہمارا تعارف کرایا اور کہا کہ ملک امیر بخش صاحب آپ کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں ‘ بات ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کہروڑ پکا آئیں ۔ میں کہروڑ پکا گیا، پیسے دے آیا ، ان کو بتایا کہ 6 اور7 مارچ 2014ء کو سرائیکی فیسٹیول ہے۔ انہوں نے مہربانی کی، سرائیکی اجرک تیار ہو گئی۔ سندھی اجرک والے گہرے رنگ نہ تھے پر بسم اللہ ہو گئی۔ پھر استاد امیر بخش صاحب کے ساتھ رابطہ رہ گیا اور بہت سی اجرکیں تیار کرائیں مگر اصل رنگوں والی آس باقی تھی ۔سرائیکی اجرک کے سلسلے میں سندھ کے شہر جام شورو گیا ، وہاں سے پوچھا اور اپنا مقصد بیان کیا۔ وہاں کچھ نہ بتایا گیاکیونکہ کو ’’ سرائیکی اجرک ‘‘ والا لفظ اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اس دورے میں میرے مرحوم دوست اور بھائی غلام مصطفی خان کے ساتھ محمد علی خان بھی تھے ۔ انہوںنے کہاکہ جدید دور ہے۔ ٹھپے کا کام چھوڑیں ، کراچی واپس چل کے کسی کو کہتے ہیں ، اجرکیں تیار کر دیں گے ۔ میں پھر کراچی گیا ۔ بات کی تو انہوںنے کہا کہ ’’ بڑا آرڈر دو اور رقم ایڈوانس جمع کراؤ۔‘‘ بڑے آرڈر کیلئے نہ ایڈوانس رقم تھی اور نہ جمع کرائی ۔ پھر ایک مرتبہ حیدر آباد سرائیکی قوم پرست دوست ذوالفقار کھونہارا کو تکلیف دی ۔ انہوں نے بھاگ دوڑ کی ، آخر کار ایک جگہ پر کامیاب ہو گئے ۔ انہوں نے مجھے حیدر آباد بلوایا ۔ میں حیدر آباد گیا اور اجرکوں کا آرڈر دیا ۔ پھر ہم حیدر آباد کے ان دوکانداروں کے پاس گئے جن کا کروڑوں کا کاروبار سندھی اجرک کا ہے۔ میں نے کہا کہ سرائیکی اجرک بھی دکان پر رکھیں تو وہ الٹا ناراض ہو گئے۔ چھوٹی سی بات یہ بھی کرتا چلوں کہ سرائیکی اجرک کا رنگ نیلا ہے۔ نیلے رنگ سے سرائیکی وسیب کی بہت بڑی جڑت ہے۔ ایک تو پوری دنیا میں نیل کی کاشت اور باہر کے ملکوں میں برآمد کا بڑا علاقہ سرائیکی رہ گیا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ ہمارے سندھ دریا کا نام ایک ’’نیلاب ‘‘ بھی ہے۔ نیلے رنگ کے لباس کو سرائیکی وسیب کا صوفیانہ لباس بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے وسیب میں پگڑی کو نیل دینا ضروری سمجھا جاتا ہے اور نیل والا پٹکا باندھنے والے کو سرائیکی وسیب میں معزز سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرائیکی کی ایک اکھان ’’ گدڑ نیل دی حوض اچ ونج پووے تاں مہاندرا نی بن ویندا ‘‘ عام بولا جاتا ہے۔ ۔ آج جس کو ٹھٹھہ صادق آباد کہتے ہیں ، اس کا اصل نام ٹھٹھہ پاولیاں ہے۔ اس علاقے میں نیل کی پیداوار اور اس کی تاریخ بھری ہوئی ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ کسی بھی جگہ کا نام تبدیل نہ کرو ، نام تبدیل کرنے کا مطلب اس کی تاریخ کو قتل کرنا ہوتا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: