حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکیورٹی اسٹیٹ کی دلبری میں ہمارے جو عزیز اور دوست کبھی ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ اگر فوج نہ ہوتی تو یہ ملک عراق، شام، لیبیا اور سوڈان ہوتا۔ آجکل وہی عزیز اور دوست سمجھابتارہے ہیں کہ فوجی اخراجات اور مداخلت نہ ہوتی تو پاکستان سوئزرلینڈ ہوتا .
ہماری رائے میں پہلے کی طرح اب بھی ان پر جذبات غالب ہیں۔ پہلے سکیورٹی اسٹیٹ کی محبت کا بھوت سوار تھا اب نفرت چین نہیں لینے دیتی۔ ہمارے ان عزیزوں اور دوستوں کو بس اتنی سی بات سمجھنا ہوگی وہ یہ کہ سکیورٹی اسٹیٹ اور طبقاتی نظامِ سیاست کی لچھے دار جمہوریت یہ دونوں اصل میں بالادست طبقات کے مفادات ہیں۔ عوام کے لئے مناسب کچھ تھا نہ ہے۔
منطقی بات یہ ہے کہ سکیورٹی اسٹیٹ کے طبقاتی نظام سے جمہوریت کے لئے راستہ نکالا جاسکتا ہے لیکن سیکورٹی اسٹیٹ میں سے مشکل ہے ۔
ہمارے صاحب علم دوست تبسم نواز وڑائچ نے اگلے روز پھبتی کسی۔ جمہوریت، یہ اسفند یار، شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، بلاول اور مریم نواز یا قاسم سوری لائیں گے؟ پتہ نہیں وہ عمران خان کا نام لکھنا بھول گئے یا پھر رعایتی نمبر دیئے۔ حالانکہ جس فہم کا انہوں نے اظہار کیا اس کا تقاضا تھا کہ عمران، شاہ محمود، اسد عمر اور بابر اعوان کانام لکھتے ساتھ میں تین سابق جہادیوں اسد قیصر، شہریار آفریدی اور علی محمد خان کا بھی،
معاف کیجئے گا بات دوسری طرف نکل گئی، ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم درمیان کا راستہ نکالنے کی بجائے ایک انتہا پر کھڑے ہوتے ہیں۔ مذہب، عقیدے، سیاسی فہم اور پسندوناپسند سبھی کے معاملے میں ایک خاص انتہا پسندی پالتے پوستے ہیں۔
ایک عزیز نے کہا آپ عمران خان کی مخالفت کیوں کرتے ہیں وہ تو دوسرے لیڈروں سے بہتر آدمی ہے۔ عرض کیا صرف ایک خوبی بتادیجئے جو دوسروں سے ممتاز کرتی ہو۔ انہوں نے ورلڈ کپ کا ذکر کیا۔ عرض کیا وہ کرکٹ کھیلتے اور پیسہ لیتے تھے ایک بار پیسوں کی خاطر ا نہوں نے بھی بہت سارے دوسرے کھیلاڑیوں کی طرح ملکی مفاد کو پیسے پر ترجیح دی تھی (یہ غالباً 1980ء کی دہائی کی بات ہے) جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو ان کی جماعت میں ان کا اپنا کیا ہے ننانوے فیصد لوگ دوسری جماعتوں سے آئے ہیں ۔ پھر دوسری جماعتیں بری کیوں؟
یہ بھی عرض کیا ان کے دامن پر بھی بہت داغ ہیں بس ہم اپنے ہیرو کو بے داغ و بے خطا سمجھتے ہیں۔
یہ سیاسی عمل ہے کم یا زیادہ خوبیاں، بہتر اور قدرے بہتر سیاسی پروگرام یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ میں حرفِ آخرہوں باقی سب برائی ہیں۔ یہ سوچ ہی غلط ہے۔ سیاسی عمل میں بتدریج آگے بڑھنے کے لئے سیاسی رویہ اپنانا پڑتا ہے۔
یہ لوگ غلط ہیں تو خان کو ان سے تین بار سیاسی اتحاد بنانے پر معذرت کرنی چاہیے۔ میرے یہ عزیز بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو پچھلے برس 9اپریل تک ایک پیج کے پرجوش حامی تھے ان کا خیال تھا ملک کو درست سمت عمران اور فوج ہی لے جاسکتے ہیں۔ میں ان سے تب بھی کہتا تھا عمران ممکن ہے وقت سے کچھ سیکھ جائیں سیاست میں سیکھ جانے کی درجنوں مثالی موجود ہیں لیکن سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ والے خود کو عقل کُل سمجھتے ہیں۔
جب کوئی شخص اور گروہ خود کو عقل کل سمجھ لے تو وہ صرف غلطیاں کرتے ہیں۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے تجربوں اور مینجمنٹ کے نام پر جوکچھ کیا اس پر مکالمہ ہونا چاہیے مگر اس کے لئے اس زندہ حقیقت کو عملی طور پر سمجھنا ہوگا کہ ریاست عوام کی ملکیت ہوتی ہے۔ یہاں ملکیت کا عوامی تصور ہی موجود نہیں۔ ملکیت کے عوامی تصور کے برعکس ہمیشہ سے یہ تاثر دیا گیا کہ ہم نہ ہوتے تو بھارت نگل جاتا۔
امریکہ اور اسرائیل ہمارا ایٹمی پروگرام ہتھیانا چاہتے ہیں۔ ہمیں پڑوسی اچھے نہیں ملے۔ کسی دن پڑوسیوں کی دیوار سے کان لگاکر تو سن لیجئے وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
ریاست کرائے کا مکان نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا پسند نہیں تو بلاد عرب یا افریقہ میں لے لیں گے۔ ریاست ہوتی اس لئے ہے کہ دوسروں کے احترام کے ساتھ اپنے احترام کی حفاظت کی جائے۔ ہم جس طرح نفرتوں کی پنیری لگاکر محبتوں کے گلاب نہیں اگاسکتے بالکل اسی طرح ہم سا کوئی نہیں یا سارا جہاں ہمارا دشمن ہے کی سوچ کے ساتھ باوقار انداز میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ انسان آخری سانس تک سیکھتا رہتا ہے ماسوائے اس کے جو خبط عظمت کے ہمالیہ پر چڑھ جائے اور سمجھ لے کہ دنیا میرے قدموں میں ہے۔
سیاسی جماعتیں اچھی بری جیسی بھی ہیں انہوں نے ماضی سے سیکھا۔ دروازے بند کرکے بیٹھ رہا جائے تو انسان ہو یا کوئی گروہ ایک شناخت تو ضرور بنالیتا ہے مگر میل جول نہیں بڑھاپاتے۔ نصف صدی سے کچھ اوپر وقت بیتانے پڑھنے، مکالمے اور مشاہدے نے یہ بات سمجھادی کہ آدمی اسی دن مرجاتا ہے جس دن وہ اس خبط کا شکار ہوجائے کہ میں جو جانتا ہوں وہ کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ یہ شعور کا ارتقا نہیں پستی کی گہری کھائی ہے۔
منہ کے بل گرنے سے بہتر ہے کہ سوچ سمجھ کر بات کی جائے اور سنبھل کر اگلا قدم اٹھایا جائے۔ سیاسی عمل میں اختلافات کا ہونا برائی نہیں برائی ان اختلافات کی بنیاد پر دشمنیاں کاشت کرنے رہنے اور ہم ہی ہم ہیں کا راگ الاپنے میں ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہم تحمل کو بزدلی اور برداشت کو جہالت سمجھتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اوئے توئے کو بہادری اور منہ زوری کو لازمی۔ حالانکہ ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ایک ایسا سماج اور نظام کیسے تشکیل پاسکتے ہیں جس میں مساوات کے اعلیٰ و ارفع حصول پر عمل ہو۔
ظاہر ہے کہ اس کے لئے اہم ترین بات عدم برداشت کا خاتمہ ہے۔ یعنی دوسرے کے وجود اور سیاسی فہم کے ساتھ اسے قبول کرنا۔ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ سیاست میں حرف آخر کچھ نہیں ہوتا۔ اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ آدمی محض اپنے مفادات کو دیکھے اور وقت کے ساتھ پارٹی بدل لے۔
مطلب یہ ہے کہ نہ تو کوئی شخص، گروہ اور جماعت کامل سچائی ہوتے ہیں نہ ہی کامل برائی۔ جب آدمی خوبیوں اور خامیوں سے گندھا ہے تو سماج اور دیگر معاملات بھی ایسے ہی ہوں گے۔ ایسے انسانی سماج کے ارتقا کا سفر اس وقت رک جاتاہے جب اس کے مختلف الخیال گروہ خود کو حرف آخر سمجھ کر خبط عظمت کے ہمالیہ پر چڑھ جائیں۔
پاکستانی سیاست اور سماج دونوں کا المیہ یہی ہے کہ میں تو حاجی ہوں لیکن وہ شیطان ہے۔ انسانی معاشرے کے کسی بھی شعبہ کا حسن یہی ہے کہ اس میں شامل لوگ سیکھنے سمجھنے کے عمل سے فرارحاصل نہ کریں جو خود کو حرف آخر سمجھتے ہیں وہ ارتقا کے عمل کا حصہ بننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ ناگزیر کوئی نہیں۔ سب کا اپنا اپنا کردار ہے اور اس پر انہیں توجہ دینی چاہیے۔ سکیورٹی اسٹیٹ کی دلبری اور طبقاتی جمہوریت نے ہمارے کئی عشرے اور نسلیں نگل لیں ہم آج جہاں کھڑے ہیں یہ کوئی قابل فخر مقام کیا قابل ذکر بھی نہیں آگے بڑھنا ہے تو اعتدال کا دامن تھام کر عصری شعور سے رہنمائی لینا ہوگی۔
انسانی معاشرے کا نظام انسان ہی چلاتے بناتے ہیں فرشتے نہیں۔ اس لئے بڑے تحمل کے ساتھ خوداحتسابی پر عمل اور اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی ہوتے ہیں نہ عقائد کا اختلاف کفر۔ زندگی کا حسن یہ ہے کہ دونوں کے ساتھ زندہ رہنا سیکھیں۔
زندہ رہنا یعنی چار اور کے زندوں کے دکھ درد کو محسوس کرنا ہے۔ معذرت کہ ثقیل باتیں ہوگئیں چلیں کبھی کبھی کڑوی کسیلی باتیں بھی سہی۔
سیاست چونکہ اب رئیل اسٹیٹ جیسا دھندہ ہے اس لئے نفع و نقصان لوگ دیکھتے ہیں۔ سیاسی کارکن نظریاتی شعور کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
بہرحال عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اور نہیں تو کم از کم بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھے اس ’’قول‘‘ پر ہی عمل کرلیجئے کہ ’’پاس کر یا برداشت کر‘‘ عدم برداشت سے سڑک پر حادثہ ہوتا ہے اور لوگوں میں دوریاں بڑھتی ہیں۔ یقیناً نقصان بہت ہوچکا۔ چند دنوں یا مہینوں میں یہ کم یا ازالہ ممکن نہیں البتہ شروعات بہت ضروری ہیں۔
پہلی ضرورت یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کیجئے۔ دوسری مطالعہ، تیسری مکالمہ کی ہے اور چوتھی یہ کامل سچائی اور مجسم شیطان والی ڈھمکیریوں سے نجات بہت ضروری ہے۔
یہی ایک راستہ ہے تحمل و برداشت کے حسن سے سماج تشکیل دینے اور عوامی جمہوریت کی طرف بڑھنے کا۔
یہ کہ ’’یہ جو لوگ‘‘ ہیں یہ کیا کرلیں گے۔ اس لئے غلط ہے کہ یہی لوگ ہیں آپ کے پاس سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ آگے بڑھے گا تو بہتری آتی جائے گی۔
باردیگر یہ عرض کردوں کہ تعلیمی اداروں میں طلباء یونینیوں کو فعال کرنا ہوگا ۔ مزدور کسان تنظیموں کو بھی فعال کرنے کی ضرورت ہے البتہ یہ فعالیت ایسی نہ ہو کہ کوئی طبقہ نئے استحصالی یا ہتھ چھٹ کا کردار اپنالے۔
بہت ساری مثالیں اور تلخ تجربات ہیں پھر کسی دن عرض کردوں گا کالم کے دامن میں مزید گنجائش نہیں آپ اپنی بات کہنا چاہیں تو کالم کا دامن حاضر ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ