رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا زمانہ تھا کہ جب عمر کی اُن بہاروں میں کسی کے خط کا انتظار رہتا تھا۔ اگر آپ کو کبھی نہیں رہا اور آپ اس آتشِ انتظار کی نرم گداز حرارت سے محروم رہے ہیں تو دنیا کی کوئی دولت ا س کسک کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ ہماری زندگی کا زیادہ تر حصہ ان عشروں میں گزرا جب ہم خط لکھتے‘ لفافے میں ڈالتے‘ لبوں سے اس کے کنارے تر کرکے چپکاتے۔ ٹکٹ بھی اسی لفافے کے انتہائی بائیں طرف چسپاں کیا جاتا۔ لال رنگ کا لیٹر بکس تلاش کرکے اس میں خط ڈالا جاتا۔ خط کو لیٹر بکس کے سپرد کرتے وقت احتیاط کی جاتی ہے کہ کیا ڈالا گیا خط اس کی تہہ تک پہنچ چکا‘ اوپر ہی تو نہیں اٹکا رہ گیا۔ اس عمل کے بعد رخصت ہونے والے افراد لیٹر بکس کی طرف حسرت اور امید بھری نظروں سے تادیر دیکھتے‘ جیسے کہہ رہے ہوں کہ اس امانت میں خیانت نہ کر دینا۔ لفافے میں مکتوب ارسال کرنے کا سلسلہ تو جامعہ پنجاب کے دورِ طالب علمی میں شروع ہوا۔ اس سے پہلے ہم پانچ پیسے کا ایک پوسٹ کارڈ خریدتے تھے‘ اس پر مختصر حالات و واقعات لکھتے اور دوستوں کو بھیج دیتے تھے۔ ایک آدھ شعر کی بھی گنجائش نکل آتی تھی۔ ہمارے وقتوں کے کارڈ اشعار کے بغیر نامکمل‘ ادھورے اور بد ذوقی کی علامت تصور ہوتے تھے۔ آج خط لیٹر بکس کی نذر کیا تو کل مکتوب الیہ کی طرف سے جواب کا انتظار شروع ہو جاتا۔ پہلے خط کی موصولی‘ جو غالباً ساتویں یا آٹھویں جماعت کا واقعہ ہے‘ دل پر نقش ہے۔ ایسی خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ بیان سے باہر۔ ایک بات‘ ہر خط میں خصوصی تاکید کی جاتی کہ خط لکھنا بھول نہ جانا‘ جواب کا شدت سے انتظار رہے گا۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہماری چھوٹی سی دنیا کتنی پُررونق تھی۔ نہ معیشت کا غم‘ نہ سیاسی زوال کی فکر۔
خط کے انتظار کی بے تابی محسوس کرنی ہو تو مرزا اسد اللہ خاں غالب کے خطوط کا مطالعہ کیجئے۔ چھ‘ سات جلدوں پر مشتمل غالبؔ کے خطوط اردو زبان اور ادب کا قیمتی سرمایہ تو ہیں ہی‘ وہ ایک عہد کی ثقافت‘ تاریخ اور مسلمانوں کے اقتدار کے زوال کی بھی جھلک دکھاتے ہیں۔ غالبؔ کی زندگی‘ حالات‘ روز مرہ کے معمولات‘ دوستیاں اور مشغولات‘ سب کچھ قلم بند کر دیا گیا ہے۔ ہر خط کا جواب فوراً اور سلیقے سے لکھتے۔ سخت علالت کی صورت میں بھی‘ بستر پر دراز لیکن خط لکھنا موقوف نہ کیا۔ دوستوں سے ان کے شہروں کے حالات معلوم کرنے کی فرمائش بھی کرتے کہ وہاں اب کیا حالات ہیں۔ اپنے گھر کے ایک کونے میں تنہا‘ مگر خطوط کے رشتے سے سب کے ساتھ جڑے رہتے۔ خطوط میں کچھ خاص مشروبات کی بھی بات کرتے کہ سنا ہے کہ وہاں کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ اگر ایسا ہے تو لے کر ڈاک کے ذریعے بھیج دو۔ ایسے ہی خطوط‘ ذاتی ڈائریاں‘ ہر زمانے کے سماج‘ رہن سہن اور سیاست کو سمجھنے کے لیے چشم دید گواہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انگریز نے اپنے ملک کی طرز پر برصغیر میں ڈاک خانے کا نظام دیہات سے لے کر شہروں تک قائم کیا تھا۔ برٹش پوسٹ ہو یا یو ایس پوسٹ‘ آج بھی ان ممالک میں نہایت معتبر قومی ادارے تصور کیے جاتے ہیں۔ ان ملکوں میں سرکاری ڈاک خانوں کے علاوہ کئی بڑے نجی ادارے بھی وجود میں آچکے ہیں جو ڈاک خانے کے نظام کے متوازی کام کرتے ہیں۔ ڈاک خانہ ہر ملک کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہوتا ہے۔ کاش ہم اور ہمارے حکمران اس کی اہمیت اور ماضی میں اس کے کردار سے آگاہ ہوتے۔ جس طرح میری نسل کے لوگوں نے پاکستان کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے‘ اسی طرح ڈاک خانے اور ڈاکیوں کی دھاک اور اس نظام کی فعالیت کو بھی دیکھا۔ دیہات میں بسوں اور ریلوے کا نظام نہیں تھا‘ تب بھی ڈاک خانہ چلتا تھا۔ ہر علاقے میں ملازم مقرر تھے جنہیں ہر کارے کہا جاتا تھا۔ ایک شہر سے دوسرے شہر کئی منزلوں کی مسافت پیدل طے کرتے‘ ہاتھ میں لمبا سا ڈنڈا اور اس کے اوپری سرے پر گھنگھرو بندھے ہوتے۔ کچھ عرصہ قبل نوادرات کی کسی دکان پر ایسے ڈنڈے بکتے تھے۔ قیمت اتنی زیادہ تھی کہ وہاں سے کھسکنا پڑا۔ ہرکارہ وہی ڈنڈا زمین پر کبھی کبھار مارتا ہوا چلتا تو لوگوں کو اطلاع ہو جاتی ہے کہ یہاں سے سرکاری ملازم ڈاک کا تھیلا بغل میں دبائے گزر رہا ہے۔ ٹیلی فون تو ہمارے زمانے میں صرف شہروں میں تھے اور ان کی فعالیت اتنی محدود تھی کہ لاہور سے گوجرانوالہ کال کرنی ہوتی تو بھی آپریٹرز کے ذریعے بک کرائی جاتی اور گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا۔ لاہور میں طالب علمی کے زمانے میں مَیں نے ٹیلی فون آپریٹروں کی جو اہمیت دیکھی ہے‘ بیان کروں تو شاید آپ کو یقین نہ آئے۔
اب سوچتا ہوں کہ جو خط ہم نے لکھے اور جنہوں نے ہمیں لکھے‘ سب ہمارے پاس موجود ہوتے۔ کچھ تو محفوظ ہیں‘ اور اصل حالت میں سنبھال رکھے ہیں۔ امریکہ میں طالب علمی کے زمانے میں والدِ محترم سے کئی سال خط و کتابت ہی رابطے کا واحد ذریعہ تھی۔ ان کے خط تو زندگی کی افراتفری میں سنبھال نہ سکا۔ حیرانی ہوئی کہ وہ تمام خطوط جو میں نے لکھے تھے‘ وہ انہوں نے اپنے پاس محفوظ رکھے اور عمرکے آخری حصے میں میرے حوالے کردیے۔ وہ میرے پاس اب بھی موجود ہیں۔ یہ باتیں آپ کے گوش گزا ر کرنے کے دو مقاصد ہیں۔ ایک یہ کہ ڈاک خانے کا نظام بھی ہمیں ریلوے‘ بیوروکریسی‘ عدالتی اور نہری نظام کی طرح اچھی حالت میں ملا تھا جو عشروں تک بطریق احسن چلاتے رہے۔ دوسرے خط کی اہمیت اور ہمارے اس سے جڑے ثقافتی‘ ادبی اور تہذہبی رشتے‘ جو ہم آہستہ آہستہ کھو چکے ہیں‘ کی یاد دہانی مقصود تھی۔ چھوٹے دیہات میں ڈاک خانے کی جزوقتی ذمہ داری مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحبان اور ہرکارے کی سکول کے چپڑاسی کے پاس تھی۔ کبھی کسی کو شکایت نہ تھی کہ خط یا منی آرڈر کہیں کھو گیا یا وقت پر نہیں ملا۔ پچاس سال قبل جب ہم داخلے کے لیے امریکہ کی جامعات میں کوئی خط ہوائی ڈاک کا ڈالتے تو دو ہفتے کے اندر ہی جواب بھی موصول ہو جاتا۔ آج بھی ترجیح یہی ہے کہ خط پاکستان پوسٹ سے ہی روانہ کریں۔ مجھے کوئی شکایت نہیں مگر مسئلہ کچھ اور ہے۔ عوام کا اعتماد سرکاری اداروں سے اُٹھ گیا ہے۔ لوگ کئی گنا زیادہ رقم ادا کرکے ہر نوع کی قومی اور بین الاقوامی کوریئر سروس کے ذریعے خط اور دستاویزات ترسیل کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈاک خانہ ہو یا کوئی اور سرکاری ادارہ‘ انہیں چلانے والوں کی نوکریاں پکی ہیں۔ احتساب کوئی نہیں اور یونین بندی کی دھونس دھاندلیاں بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ سرکار میں نہ وہ خدمت کا جذبہ ہے اور نہ اپنے کام سے لطف اندوز ہونے کی اُمنگ جو کسی زمانے میں ہم دیکھتے تھے۔ کئی برسوں سے پاکستان پوسٹ کو بھی کچھ جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر جس طرح اس کے وسائل ہیں اور قومی سطح پر نیٹ ورک ہے‘ اسے مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے بھی ڈاک خانے کے نظام کو چھوڑ کر نجی کوریئر سروس کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اس ادارے کا وقار اور اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ابتدا سرکاری اداروں سے ہو اور انہیں پابند کیا جائے کہ وہ صرف اسی نظام کو استعمال کریں۔ ڈاک خانہ نوکر شاہی کی ذمہ داری کہیں زیادہ ہے کہ وہ اسے مؤثر اور جدید بنائے اور ہر کمرشل ایریا میں اس کی شاخیں کھولے۔ آپ کے خط کا انتظار رہے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ