اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پشاور پولیس لائنز سانحے کے دو ہفتوں بعد بھی خیبر پختونخوا کی اجتماعی حیات پہ خوف اور بے یقینی کے سائے لہراتے نظر آتے ہیں۔ پوری مملکت کو دہلا دینے والی اس وارادت کی تفتیش میں بامعنی پیشرفت کے امکانات دھندلے ہیں اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ ماضی کے المناک واقعات کی طرح پولیس لائنز سانحہ بھی وقت کی دبیز تہہ میں گم ہو جائے گا۔ دہشت گردی کے اِس واقعے کی تفتیش کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کا اگرچہ دعویٰ ہے کہ کیس ٹریس کر لیا ہے‘ بہت جلد مبینہ خودکش حملہ آورکی سہولت کاری کرنے والے نیٹ ورک کو گرفتارکر لیا جائے گا؛ تاہم ظاہری عوامل ان دعووں کی تصدیق نہیں کرتے۔ سانحہ پشاور کے دو روز بعد اس سوال کہ ”سخت سکیورٹی کے باوجود حملہ آور بارودی مواد سمیت پولیس لائنز کے اندر کیسے پہنچا؟‘‘ کے جواب میں آئی جی معظم جاہ انصاری نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق حملہ آور کئی دنوں تک تھوڑا تھوڑا باورد پولیس لائنز کے اندر پہنچاتا رہا، یوں بھاری مقدار میں بارود جمع کر لینے کے بعد اس نے مسجد میں دھماکا کیا لیکن پھر چار فروری کو آئی جی صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں خودکش حملہ آور کی پولیس یونیفارم میں پولیس لائنز میں داخل ہونے کی فوٹیج جاری کرکے اپنے پہلے موقف کی نفی کر دی۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ اس سانحے کے حوالے سے تفتیشی ٹیمیں ابھی تک کوئی حتمی راہِ عمل متعین نہیں کر سکیں۔ امر واقع بھی یہی ہے کہ اس قسم کے کثیر الملکی تانے بانے میں الجھے واقعات کی تفتیش پولیس جیسی سول فورس کی مہارتوں، حدود، اختیار اور دائرۂ عمل سے باہر ہوتی ہے۔
لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل میں ملوث عالمی دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ ملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے ایف بی آئی جیسی بین الاقوامی نیٹ ورک رکھنے والے تفتیشی ایجنسی کو بروئے کار لانا پڑا تھا۔ ایسے ہی نائن الیون واقعے کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے امریکی سی آئی اے سمیت پوری نیٹو فورسز کو میدان میں اتارا گیا تھا۔ پولیس کوئی دفاعی ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک کرائم فائٹنگ فورس ہے جس کا فرض سرحدوں کی حفاظت یا تربیت یافتہ گوریلا جنگجوئوں کا مقابلہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس کی تشکیل کا بنیادی مقصد ایسے معاشرے کو ریگولیٹ کرنا ہے جس کا وہ خود بھی حصہ ہے۔ یعنی پولیس ریاست کے چند بااختیار افراد کا ایسا سول ادارہ ہے جس کا فرض نفاذِ قانون کے ذریعے شہریوں کے جان و مال، صحت اور املاک کا تحفظ یقینی بنانا اور سماجی جرائم و شہری خرابی کو روکنا ہے۔ پولیس فوجداری نظامِ عدل میں داخلے کا پہلا دروازہ بھی ہے۔ پولیس ہی بنیادی طور پر ریاست کے اندر قانون کی حکمرانی قائم رکھنے، انسانی حقوق کے تحفظ و فروغ اور امن عامہ کو برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ پولیس کے فرائض میں شہریوں کو نقصان پہنچانے والے عوامل، چوری، ڈکیتی، اغوا اور سمگلنگ جیسے جرائم کی وجوہات کو سمجھنے کی حکمت عملی وضع کرنا شامل ہے۔ چونکہ عام طور پہ دہشت گردی کے ملکی اور بین الاقومی نیٹ ورکس جرائم پہ مبنی معیشت پہ انحصار کرتے ہیں‘ اس لیے پولیس اگر پوری دیانتداری اور جانفشانی سے متذکرہ جرائم کے نیٹ ورکس توڑ دے تو دہشت گردوں کی اقتصادی لائف لائن کاٹی جا سکتی ہے لیکن ہمارے یہاں اس کے برعکس دہشت گردی کی گونج میں پولیس نے خود کو جرائم کی بیخ کنی جیسی ذمہ داریوں سے مبرا کرکے دہشت گردی کے استیصال میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ گویا پولیس نے اپنی اصل ذمہ داریوں یعنی کرائم فائٹنگ اور فوجداری نظام عدل کی تکمیل کیلئے جرائم کی جامع تفتیش کے تقاضوں کو فراموش کرکے بالواسط طور پہ کرمنل جسٹس سسٹم کو کمزور کر دیا اور اغوا، ڈکیتی اور سمگلنگ پہ استوار دہشت گردوں کی معاشی سپلائی لائن سے آنکھیں بند کر لیں۔ پولیس جیسی سوشل فورس حتیٰ کہ سی ٹی ڈی میں شامل اہلکاروں کی مہارت کی سطح عام سماجی جرائم کی تفیش سے آگے نہیں جا سکتی؛ چنانچہ دہشت گردی کے اس قدر بڑے واقعات کے بارے میں اس سے کڑی جوابدہی قرین قیاس نہیں۔ ایسا سوچتے وقت ہمیں اس کی استعدادِ کار، میسر وسائل اور دائرۂ عمل کی طرف دیکھنا ہو گا۔
پولیس اپنے ڈھیلے ڈھالے سماجی ڈھانچے اور سوشل تال میل کی وجہ عالمی دہشت گردی جیسے مہیب عوامل سے لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اسے دہشت گردی کے عالمی گوریلا نیٹ ورک سے وابستہ خطرناک مجرموں کی تفتیش کے عمل میں جھونکنا، اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں کو اَن دیکھے خطرات کے حوالے کرنے کے مترادف ہو گا؛ البتہ وہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق جرائم کی بیخ کنی کے ذریعے دہشت گردوں کی قوت کو کمزور ضرور کر سکتی ہے۔ ایک الجھن یہ بھی ہے کہ حکومت پولیس کو دفاعی اداروں جیسے جدید اور ہیوی اسلحے سے لیس اور فوج کی طرح یونٹی آف کمانڈ میں منظم کرکے جس سول فورس کی فطری ساخت کو بدل رہی ہے وہ بہت جلد سوسائٹی کو ریگولیٹ کرنے کے بجائے صوبائی حکومت کے کنٹرول اور جوابدہی کے روایتی نظام سے ماورا ہوجائے گی۔ اب بھی نہتے شہریوں کے خلاف پولیس کی جارحیت کا محاسبہ کرنا ہماری ریاست اور نظام عدل کے لیے آسان نہیں۔ ملکی تاریخ میں ایسی مثالیں خال خال ہی ہیں کہ پولیس مقابلوں میں شہریوں کی ہلاکت اور تھانوں میں مبینہ ملزمان کو تشدد کا نشانہ بنانے والے اہلکاروں کو اپنے کیے کی سزا مل سکی ہو۔ سانحہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹاون اور اس جیسے دیگر سینکڑوں واقعات پولیس کے ادارہ جاتی ڈھانچے کے احتساب سے ماورا ہونے کے غماز ہیں۔ چنانچہ خدشہ ہے کہ اس کو زیادہ اختیار دینے اورمزید مسلح کرنے جیسے اقدامات مستقبل میں نہتے شہریوں کے خلاف زیادتیوں کے ارتکاب کا دائرہ بڑھا دیں گے۔ بہتر ہو گا کہ پولیس کو اس نامطلوب جنگ کی جدلیات سے الگ کرکے اپنے اصل کام یعنی کرائم فائٹنگ کی طرف واپس لایا جائے تاکہ شہریوں کو پولیس کے جارحانہ طرزِ عمل سے بچانے کے علاوہ سرکاری فورسز پہ حکومت کا کنٹرول مؤثر رہے اور دیگر علاقائی ممالک کی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملٹری و پیرا ملٹری فورسز کو بروئے کار لایا جائے جو گوریلا وارفیئر کو سمجھنے کے علاوہ ایسی خونخوار قوتوں کا قلع قمع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
بھارت کے تمام ایسے علاقے‘ جہاں شورش برپا ہے اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہے‘ وہاں بھارتی حکومت گوریلا کارروائیاں کرنے والے مسلح دھڑوں کے خلاف پولیس کو نہیں بلکہ ملٹری فورسز کو استعمال کر رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ پولیس دفاعی ادارہ نہیں بلکہ ایسی روایتی کرائم فائٹنگ فورس ہے جس کے سامنے دشمن نہیں‘ اپنے ہی لوگ ہوتے ہیں اور قانون انہیں عوام کو فتح کرنے کا نہیں بلکہ معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کا مینڈیٹ دیتا ہے۔ یہ اس حقیقت سے ناآشنائی کا بدیہی نتیجہ ہے کہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ اضلاع میں کام کرنے والی پولیس فورس کو ایسی مہیب گوریلا جنگ کا ایندھن بنایا جا رہا ہے جس کا مقابلہ امریکہ سمیت نیٹو فورسز بھی نہیں کر سکیں۔ پولیس جیسی سوشل فورس کے اندر پائی جانے والی بے یقینی، اضطراب اور انجانے خوف کی کیفیت نے اسے کئی قسم کے نفسیاتی عوارض اور ردعمل کی نفسیات میں مبتلا کر دیا ہے جس کے منفی اثرات اہلکاروں کی گھریلو زندگیوں اور پیشہ ورانہ فرائض کی بجاآوری کو متاثر کر رہے ہیں۔ اسی داخلی کشمکش کا لاشعوری اظہار سانحہ پشاور کے فوری بعد ایک ناقابلِ فہم ردعمل کی شکل میں سامنے آیا، جو اپنے نتائج کے اعتبار سے دہشت گردی کے آشوب سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ پولیس کمانڈ نے اہلکاروں کو شوکاز نوٹسز جاری کرکے روایتی طریقوں سے اس چنگاری کو دبانے کی کوشش کی ہے مگر افسوس کہ ہماری حکمران اشرافیہ اپنے داخلی نظام میں در آنے والی ان سماجی، نفسیاتی اور انتظامی پیچیدگیوں کو حکمت و تدبر سے پیشہ ورانہ انداز میں سلجھانے کے بجائے ایسے حساس معاملات کو انتظامی حربوں کے ذریعے نمٹانے کی کوشش میں مشغول ہے۔
اس وقت پولیس اور سکیورٹی فورسز دشمن کے حملوں کی زد میں ہیں۔ ماہ فروری کے پہلے دس دنوں میں شمالی وزیرستان میں ایک پٹرولیم کمپنی کے قافلے پر خود کش حملے کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر گوادر تک جارحانہ حملے کیے جا رہے ہیں۔ایسے میں فیصلہ سازی میں تاخیر مزید نقصان کا سبب بنے گی۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ