نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شعور ہستی کا تعین کرتا ہے یا ہستی شعور کا؟۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارکس کا خیال تھا کہ پیداوار کے عمل میں انسان اپنی ہی بنائی ہوئی چیزوں سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اُس نے بیگانگی کا شکار محنت کی وجہ برائے فروخت پیداوار، تقسیم محنت اور معاشرے کی طبقاتی تقسیم بتائی۔ منڈی کے لیے پیداوار سپیشلائزیشن، چھوٹے چھوٹے حصوں میں کام اور بڑی بڑی فیکٹریوں کے ذریعے اس بیگانے پن کو شدید بناتی ہے۔ اشیا انسانی پیداوار کا وصف کھونے پر فیٹش بن جاتی ہیں، یعنی بیگانی اور استحصال افزا حقیقتیں۔
محنت کی ان پیداواروں کے مالک اور ان سے محروم دونوں انسان ان کے ہی غلام بن جاتے ہیں۔ اس اساسی اقتصادی بیگانگی کے ساتھ ثانوی سیاسی اور نظریاتی بیگانگی بھی جنم لیتی ہے جو مسخ شدہ انسانی تعلقات والی دنیا کا ایک مسخ شدہ تصور پیدا کرتی ہے۔
اِس مسخ شدہ کیفیت کا اظہار لبرل اور نشاط پرستی خیالات کو بے سروپا انداز میں اپنانے سے بھی ہوتا ہے۔ آپ اپنی معاشرتی اور سماجی بیگانگی اور لاحاصلی کو بلند بانگ دعووں کے ذریعے ختم کرنے اور حکمران طبقے میں شامل ہونے کی کوششوں کے ذریعے بامعنی بنانے کا سوچنے لگتے ہیں۔ یہ انسان کی ایک اور بے طاقتی اور شکست کا اظہار بھی ہے۔
تمام انسانی سرگرمی (سیاسی، عقلی یا روحانی) اسی بیگانگی کے ضمن میں آتی ہے۔ قانون، اخلاقیات، مابعد الطبیعیات اور مذہب کی کوئی اپنی الگ سے تاریخ نہیں۔ بہ الفاظ دیگر ہستی شعور کا تعین کرتی ہے، نہ کہ شعور ہستی کا۔
یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ تاریخ کا ارتقا ہم پر آ کر ختم ہو گیا ہے۔ یہ جلد بازی لاحاصل ہی نہیں، نقصان دہ بھی ہے۔ تب آپ ہرانا اور جیتنا چاہتے ہیں۔ صدیاں آپ کے پیچھے ہیں اور صدیاں آپ کے آگے ہیں۔ آپ کی ہستی ایک خاص صورت حال، مایوسیوں، چالاکیوں، کامیابیوں اور خواہشات کی پیداوار ہے۔ آپ کی زبان، اصطلاحات، نام نہاد آئیڈیالوجی اور ترجیحات کس طرح بنتے ہیں؟ یہ چیز ابھی تک صرف اور صرف مارکسزم کی بدولت ہی قابلِ فہم بنی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ مارکس نے ایک طرح سے آپ کو سماجیات کی 1g کششِ ثقل کے متعلق بتا دیا ہے۔ اس کی مدد سے آپ خود مارکسزم کو بھی اُدھیڑ سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے آپ کو کافکا بھی سمجھ آئے گا، اقبال بھی، کامیو بھی اور چارلی چیپلن بھی۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author